رشتوں کے مابین توازن ضروری ہے!

س ۔ ف  منگل 11 جون 2019
بیٹوں کو ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھنے والی ماؤں کے لیے راہ نما تحریر۔ فوٹو: فائل

بیٹوں کو ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھنے والی ماؤں کے لیے راہ نما تحریر۔ فوٹو: فائل

ہمارے سماج میں بیٹے کو بڑھاپے کا سہارا اور وارث مانا جاتا ہے۔ جس جوڑے کے گھر بیٹا پیدا ہو وہ خود کو خوش قسمت تصور کرتا ہے۔ اسی بیٹے کو سب سے پہلے ایک عورت یعنی اس کی ماں ہتھیلی کا چھالا بناتی ہے۔۔۔ اور پھر وہ چاہتی ہے کہ اس کی دوسری اولاد یعنی اس کی بیٹی بھی یہی روش اپنائے۔ وہ بھائی کا ہر طرح خیال رکھے، اس کی ایک آواز پر دوڑی چلی آئے، اس کے معاملے میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔

ایک بیٹا اس کے دوسرے بیٹے کو مارے تو کوئی بات نہیں، لیکن بہن کسی بات پر بھائی کو مار دے تو قیامت برپا ہو جاتی ہے۔ یہ ہمارے سماج میں عام ہے اور بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دینے کی کئی مثالیں مل جائیں گی۔ بہن کو یہ حق نہیں دیا جاتا کہ وہ کچھ بول سکے جب کہ بھائی جو چاہے کرے۔ جن گھرانوں میں بچپن سے ہی بیٹے کو اس کی کسی بری بات اور حرکت پر ٹوکا نہ جائے، اسے بہن پر ترجیح دی جائے تو کیا وہ خود پسند اور گھمنڈی نہ ہو گا؟

ہمارے ہاں بچپن سے ہی ایسی ذہن سازی اور تربیت کی جاتی ہے جو بیٹی کا اعتماد بری طرح مجروح کردیتی ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ بھائی کو مارتے نہیں، اگر وہ تمہیں مارے تو جواب میں اس پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ وہ اپنے کھلونے چھوڑ کر تمہاری گڑیا مانگے تو دے دو، اسے انکار مت کرو، وہ بھائی ہے۔ گویا بچپن سے ہی اسے حق جتانے یا مانگنے کے استحقاق سے بھائی کے مقابلے میں محروم ہونا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ گھر کی چار دیواری میں اولاد کو سب سے زیادہ وقت دینے والا فرد یعنی ماں سکھاتی ہے جو ایک عورت بھی ہے، مگر جانے کیوں وہ مرد کے مقابلے پر عورت کا استحقاق خود بھی قبول نہیں کرتی۔

ہمارے سماج میں ہماری مائیں، بزرگ خواتین لڑکے کے احساسِ برتری کا بیج کم عمری میں ہی لڑکی کے ذہن میں بو دیتی ہیں کیوں کہ اسے یہ سمجھایا جاتا ہے کہ اس کا تشخص مرد کی دین ہے۔ سو اس سے آنکھ ملا کر بات نہ کرو، اس کے آگے سر اٹھا کر نہیں چلو اور جو لڑکی اس کے خلاف کرے اسے یہ سماج بدکرداری یا بے باکی کی سند ہاتھوں میں تھما دیتا ہے۔ اسی لیے اگر بیٹا بے جا ضد فرمائش یا لڑائی جھگڑا کرے تو وہ جائز اور اگر یہی روش بچی اپنائے تو ناجائز اور قابلِ گرفت ہوتی ہے۔

پاکستانی سماج کے خاندانی نظام میں ٹوٹ پھوٹ کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم بیٹا یا بیٹی کو ایک ہی احساس کے ترازو میں نہیں رکھتے، ہم لڑکیوں کو خوف کے ماحول میں پالتے ہیں، زمانے کی اونچ نیچ، بدنامی کے خوف میں مبتلا کر دیتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ عزت ایک کانچ کی چوڑی جیسی ہے اور یہ جملہ بول بول کر اس میں خوف بھرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکی جنسی زیادتی کا نشانہ بن جائے تو وہ بیچاری خود کو ہی قصور وار سمجھتی ہے، مگر ہم بیٹے کی پرورش اس خوف کے ساتھ نہیں کرتے۔

ایک بیس بائیس سالہ بہن ٹیوشن سینٹر، اکیڈمی یا بازار جانے کے لیے اگر تیار ہوتی ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لے کر جاؤ،  اکیلی نہ جانا۔ اسے خاص زاویے سے دیکھیں تو بیٹوں کے سامنے بیٹیوں کو بار بار ایسی ہدایت، ایسی تنبیہ سے ہم لڑکوں کو تو نڈر بنا رہے ہیں مگر لڑکیوں کو خوف میں مبتلا اور بزدل بنا رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا بھی ہے کہ اس طرح سے ہم لڑکیوں سے ان کا اعتماد نہیں چھین رہے؟ یہی وجہ ہے کہ وہ احساسِ کم تری کا شکار ہو کر شدید ڈپریشن میں مبتلا ہو  رہی ہیں۔

جب آپ نسلوں کو پروان چڑھانے والی عورت سے اعتماد ہی چھین لیں گے تو کیا وہ سَر اٹھا کر زندگی کی اونچ نیچ کو سمجھے گی؟

والدین ہمیشہ ساتھ تو نہیں رہتے۔ اگر لڑکی زندگی کے سفر میں تنہا رہ جاتی ہے تو کیا وہ اس قابل ہو گی کہ مسائل اور مشکلات سے نمٹ سکے۔ وہ اپنے حق کے لیے کسی سے لڑ پائے گی۔ کیا آپ نے کبھی خود سے یہ سوال پوچھا ہے… نہیں، تو بحیثیت ماں آپ خود سے سوال کب کریں گی؟

یہ سوال ان ماؤں سے ضرور پوچھنا چاہیے جو بیٹا اور بیٹی میں تفریق اور امتیاز کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے صنفی امتیاز کا آغاز ہمارے  گھروں ہی سے شروع ہوتا ہے اور اس کی بنیاد بچپن ہی میں رکھ دی جاتی ہے۔ ایک اور بات پر یہ معاشرہ بھی غور کرے کہ کیا ایک نوجوان بچی کو ضرورت پڑنے پر گھر سے باہر لے جانے کی ذمہ داری اس کے چھوٹے بھائی پر ڈالی جا سکتی ہے جو ابھی خود بھی اپنی حفاظت نہیں کرسکتا؟ جو ابھی معاشرے کی غلیظ سوچ سے واقف نہیں، جو اپنے لاابالی پن میں ساتھ ساتھ چلنے کا شعور بھی نہیں رکھتا؟

وہ کسی برے وقت میں اپنی بہن کی حفاظت  کیسے کرے گا؟ خطرہ تو دونوں کے لیے ہو سکتا ہے، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں بھیڑیے اور درندہ صفت صرف لڑکیوں کے لیے وبال نہیں ہیں بلکہ ان سے لڑکے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہاں، آپ اپنی تسلی، ڈھارس بندھانے کو جوان بہن کے ساتھ کم عمر بھائی کو ضرور بھیج دیتے ہیں۔ اگر اس طرح آپ کی نظر میں آپ کی بیٹی محفوظ رہ سکتی ہے تو یہ مشق جاری رکھیے۔ اس خوف کے عالم میں کیا یہ بہتر نہیں کہ والدین میں سے کوئی ایک بچے یا بچی کے ساتھ ہو، کیا ہم اپنے بچوں کا اعتماد گھر سے ہی بحال کرنے کی کوشش نہیں کرسکتے؟ یہ وہ باتیں ہیں جنہیں بیٹی کی پرورش کرتے وقت والدین کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

بیٹا ہو یا بیٹی دونوں کی پرورش کرتے ہوئے محبت اور پیار میں توازن رکھیں، انہیں ایک دوسرے پر فوقیت نہ دیں بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنا سکھائیں۔ جب ایک بیٹا گھر کی چار دیواری یعنی اپنی پہلی درس گاہ میں اپنی بہن کی عزت کرنا سیکھ جاتا ہے تو باہر نکل کر وہ غیر عورتوں کی بھی اسی طرح عزت کرے گا۔ وہ اسے اپنا اخلاقی فرض سمجھے گا۔

سماج میں بہتری اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم رشتوں کے مابین توازن، احساسِ ذمہ داری، محبت، خلوص کا اہتمام کریں گے اور بیٹے یا بیٹی کے درمیان  گھر کی چار دیواری کے اندر مثبت اور صحت مند رویے پروان چڑھائیں گے۔ اسی صورت میں اجتماعی سطح پر ہم اُس خوف سے باہر نکل سکیں گے جس میں ہر دوسرے تیسرے روز جنسی زیادتی اور عورت کی رسوائی کا سن کر دماغ ماؤف ہونے لگتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔