جون، خون اور قانون

صادق مصطفوی  بدھ 12 جون 2019
متاثرین سانحہ ماڈل ٹاؤن آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ (فوٹو: فائل)

متاثرین سانحہ ماڈل ٹاؤن آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کچھ ماہ و سال اچھے یا برے واقعات کے باعث تاریخ میں اپنی ایک الگ پہچان چھوڑ جاتے ہیں۔ جیسے یکم مئی کا دن امریکا کے شہر شکاگو میں 1986 میں 8 گھنٹے ڈیوٹی کےلیے احتجاج کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں اپنی جان قربان کرنے والے مزدوروں سے اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مزدوروں نے سال میں ایک دن اپنے نام تو کرلیا، مگر آج بھی مفلسی میں زندگی گزار رہے ہیں۔

جون کا ماہ گرمی کی شدت کے طور پر تو جانا ہی جاتا ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں جون کی پہچان ماڈل ٹاؤن میں ریاستی دہشت گردی سے منسوب ہے۔ 17 جون 2014 کو پیش آنے والا واقعہ، پاکستان کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے جو پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز پر لائیو دیکھا جارہا تھا۔ جب غیر مسلح احتجاج کرتے لوگوں پر بے دریغ آنسو گیس استعمال کی جارہی تھی۔ آسمان سے سورج آگ برسا رہا تھا اور ریاستی غنڈے مخلوق خدا پر موت کی گولیاں برسارہے تھے۔ پرامن احتجاج کرتے کارکنوں پر وردی میں ملبوس غنڈوں کی طرف سے پرتشدد مظالم جاری تھے۔ باپردہ خواتین کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالے جارہے تھے۔ چہروں پر عظمت و بزرگی کی علامت سفید داڑھی رکھنے والے بزرگوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جارہا تھا۔ زخموں سے نڈھال افراد ریسکیو کرتے ہوئے بھی تشدد کا نشانہ بن رہے تھے۔ کفار سے جنگ کے دوران بھی خواتین کو مارنا ممنوع ہونے کے باوجود یہاں مسلمان خواتین کو بلاامتیاز گولیوں کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔

اس دن نہتے لوگوں پر اندھادھند فائرنگ کرتے ہوئے 14 افراد کو ابدی نیند سلادیا گیا اور 100سے زائد افراد کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہوئے زخمی کردیا گیا اور نہ جانے کتنے افراد مختلف اعضاء سے معزور ہوگئے۔ یہ ہے پاکستان میں ماہ جون کا ایک مختصر تعارف، جو ہمیشہ ایک سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی پاکستان کے باقی سانحات کی طرف ختم ہوچکا ہوتا، اگر اس کی پیروی متاثرہ تحریک اور ڈاکٹر طاہرالقادری نہ کر رہے ہوتے۔ پاکستان میں کتنے بڑے بڑے واقعات ہوتے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ سب یاد ماضی بن جاتے ہیں۔ پانچ سال گزرنے کے بعد آج بھی اس کیس کو روز اول کی طرح زندہ رکھنا بلاشبہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے اپنے کارکنوں کے ساتھ ایک لازوال رشتے کی مثال ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف کی موجود حکومت کے بھی کچھ کارکن احتجاج کے دوران جان کی بازی ہار گئے تھے۔ لیکن حکومت میں آنے کے باوجود اپنے ان کارکنوں کا ذکر تک نہیں کرتے۔ وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے قائدین اپنے جلسوں میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذکر کرتے نہیں تھکتے تھے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف بھول گئے بلکہ جو ان کے اختیار میں ہے، وہ بھی کرنے سے گریزاں ہیں۔

بے شک انصاف عدالتوں سے ملنا ہے، لیکن اس سانحے میں ملوث افراد کو اپنی ٹیم میں شامل کرنے سے تو باز رہ سکتے تھے۔ ان بیوروکریٹس کو عہدوں سے ہٹانے کے بجائے ان کو ترقیاں دے کر اپنے سیاسی کزنز کو پیغام دیا گیا کہ ہم سے کوئی امید وابستہ نہ رکھیں۔

پاکستان کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ہوں یا سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف، سب اس کیس میں انصاف کے وعدے تو کرتے رہے لیکن اس سانحے میں اپنے پیاروں سے بچھڑنے والوں کے انصاف کےلیے کوئی ایک قدم بھی نہ اٹھا سکے۔

موجودہ عدالتی نظام میں اشرافیہ کو بچانے کےلیے اتنے راستے بنائے گئے ہیں کہ اس نظام کے دہرے معیار کی کیا کیا مثال پیش کریں۔ ایک طرف سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے کیس کی درخواست کی سماعت کےلیے کئی کئی مہنیے انتظار کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف اس کیس میں ملوث ملزمان کی دیگر کیسوں میں درخواست چھٹی والے دن ہی قبول کرتے ہوئے ضمانت کے فیصلے سنائے جاتے ہیں۔ ایک طرف ظلم کا شکار ہونے والوں پر ہی کیس بنا کر ان کو جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے اور دوسری طرف سزایافتہ مجرموں کو طبی بنیادوں پر رہا کیا جاتا ہے۔

اس الیکشن میں عوام کی طرف سے عمران خان کو ووٹ دینے کا ایک مقصد انصاف کا حصول بھی تھا۔ انصاف تو دور کی بات ہے ابھی تک تو حکومت کی طرف سے کوئی قانون سازی ہی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ صاحبِ منصب انصاف اور اقتدار پر موجود حکمرانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انصاف تو ہوگا۔ اگر مخلوق خدا کے ساتھ انصاف اس دنیا میں یہ نہیں کریں گے، تو روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انصاف ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔