معاشی بحالی حکومت کیلیے بڑا چیلنج اور اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریاں

ارشاد انصاری  بدھ 12 جون 2019
اپوزیشن نے بھی حکومت کے خلاف صف آراء ہونے کی پیش بندی شروع کردی ہے۔

اپوزیشن نے بھی حکومت کے خلاف صف آراء ہونے کی پیش بندی شروع کردی ہے۔

 اسلام آباد: کپتان کو نیا پاکستان بنائے دس ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور نئے پاکستان کی کمان سنبھالنے کے بعد قوم سے پہلے خطاب میں کپتان نے اپنی اننگ کا آغاز عوام کو وراثت میں ملے پرانے پاکستان کے مسائل سنا کرکیا مگر ساتھ ہی دلاسہ بھی دیا کہ گھبرانا نہیں ہے اور سب ٹھیک ہوجائے گا۔

لوگوں کے ذہنوں پر کپتان کے بائیس سالہ بیانیہ کا سحر طاری تھا اور پرامید تھے کہ کپتان کوئی جادو دکھائے گا اور نئے پاکستان کو چمٹی خون چوسنے والی پرانے پاکستان کے مسائل کی جونکوں سے چھٹکارا دلائیں گے۔

عوام نے کپتان کے ہر اقدام کا ہر محاذ پر بھرپور انداز میں دفاع بھی کیا۔ مگر ان دس ماہ کے دوران مہنگائی اور بیروزگاری کے عفریت نے عوامی زندگی کو مزید اجیرن بنایا ہے اور غربت و مہنگائی نے عوام کیلئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل کردیا ہے جس سے عوام میں حکومت کی مقبولیت کا گراف گرا ہے لیکن جہاں تک کپتان کی بات ہے تو لوگ ابھی بھی کپتان کو مسیحا سمجھتے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ کپتان کی نیت صاف ہے دیر ضرور ہے مگر کپتان ایک خوشحال و ترقی یافتہ پاکستان بنانے میں کامیاب ضرور ہونگے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کپتان اس ملک کے مسائل کے حل کیلئے پریشان بھی اور مسلسل کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے مگر مسئلہ کپتان کی ٹیم ہے اور کپتان اور کپتان کی ٹیم کے درمیان الائنمنٹ کا ہے لیکن کپتان خود کو اس سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ٹیم کا انتخاب ہی کپتان کی صلاحیتوں کا مظہر ہوتا ہے اگرکپتان ٹیم کو کھلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کا سہرا بھی کپتان کے سر جاتا ہے اور ناکامی کا بھی براہ راست کپتان کو ہی الزام جاتا ہے لہٰذا کپتان معیشت کا آپریشن ضرور کریں لیکن مریض قوم کی نازک حالت کو بھی ذہن میں رکھیں۔

اگر آپ ڈلیور نہ کر پائے تو قوم اور سیاست آپ کو معاف نہیں کرے گی کیونکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ہے لہٰذا سیاسی میدان میں آپ خود کو الگ نہیں کر سکتے، اچھے اور برے کے آپ براہ راست ذمہ دار ہونگے کیونکہ لوگوں نے کپتان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور کپتان کو ہی ووٹ دیئے ہیں نہ کہ کپتان کے وسیم اکرم پلس اور صفر پر آوٹ ہونیوالے اوپننگ بلے باز اسد عمر کو یا وکٹ کیپر جہانگیر ترین کو ووٹ دیئے اور یہ فیصلے بھی کپتان ہی کے ہیں کس کو اوپننگ پر بھیجنا ہے تو کس کو وکٹ کیپنگ دینا ہے ۔

کپتان نے اوپنر کھلاڑی اسد عمر کی وکٹ گرنے کے بعد ایک غیر منتخب کھلاڑی کو کٹ پہنا کر میدان میں اتارا ہے جو ٹیم کو دباؤ سے نکالنے کیلئے کوششیں جاری رکھے ہوئے اور آئی ایم ایف سے ادھورے مذاکرات کو مکمل کرکے سٹاف سطح کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور اب اگر آئی ایم ایف سے پروگرام بھی مل جاتا ہے تو مزید بہتری سکور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اب ایک بار پھر سے کابینہ میں ردوبدل کی باتیں شروع ہوگئی ہیں جبکہ اس سے پہلے بھی ایک ایسے اہم موقع پر ردوبدل کی گئی ہے جب پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات فائنل اور اہم مرحلے میں تھے اور رواں مالی سال ختم ہونے کو تھا اور بجٹ کی تیاری تھی۔ اب بجٹ پیش کر دیا گیا ہے مگر بجٹ میں بھی عوام کیلئے کوئی بڑا ریلیف نہیں ہے کیونکہ کپتان کی معاشی ٹیم کے نئے سربراہ بار بار مشکل فیصلوں کے عندیئے دیتے رہے ہیں اور مالی کفایت شعاری سول و فوجی اخراجات میں کمی کے اشارے بھی دیئے اور ساتھ ہی یہ بھی فرماتے رہے ہیں کہ حکومت موجودہ حالات میں مراعات دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی اور ٹیکسوں کا بوجھ کچھ عرصے کیلئے برداشت کرنا ہوگا ۔

اس بجٹ میں ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ ٹیکسیشن ہوئی ہے اور چودہ سو ارب روپے کے لگ بھگ اضافی ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے جس کیلئے بڑے پیمانے پر نئے ٹیکس عائد ہوںگے جس سے عوامی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا اور لگ یہی رہا ہے کہ کپتان کے نئے پاکستان میں بھی پرانے پاکستان کے مسائل کی جونکیں عوام کاخوب خون چوسیں گی البتہ ساتھ ہی مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا دعوٰی ہے کہ یہ معاشی استحکام کا بجٹ ہے اور مشکل وقت جلد دور ہونے کو ہے۔

مگر عید سے قبل حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کا جو تحفہ عوام کو دیا ہے اس نے عوام کی عید کی خوشیوں کو گہنا دیا ہے، لوگ عید کی تیاریوں میں مصروف تھے اور بچے عیدی کی خوشیاں منانے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور رمضان المبارک کے روزوں کے بعد رب کی جانب سے عید کی صورت ملنے والے انعام کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرنے کیلئے والدین کے ساتھ اپنوںسے ملنے ملانے اور سیرو تفریح کی تیاریاں کئے بیٹھے تھے کہ عین اس موقع پر پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ نے گھر کے بڑوں اور کفیلوں کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے اور عید کے بعد رہی سہی کسر بجٹ نے پوری کر دی۔

اپوزیشن نے بھی حکومت کے خلاف صف آراء ہونے کی پیش بندی شروع کردی ہے، مسائل میں گھری عوام میں اپوزیشن کا لچھے دار بیانیہ خود فروخت ہو رہا ہے اور دوسرا بڑا مسئلہ کپتان کے بائیس سالہ بیانیہ میں جگائے جانیوالے عوامی شعور کا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ برسوں کے مسائل مہینوں میں حل ہونا ممکن نہیں ہے لیکن انتخابی منشور اور دعووں و نعروں میں عوام کو ایسے سہانے خواب دکھائے گئے ہیں کہ پوری قوم مسائل کے حل کیلئے اتاولی ہوئی جا رہی ہے اورگھنٹوں کی مسافت منٹوں میں طے کرنا چاہتی ہے دوسری جانب کرپشن کا ناسور ہے جو کہ دیمک کی طرح ملک کو چاٹ رہا ہے اور کپتان اس ناسور کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم لئے ہوئے ہیں مگر جو حالات رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

اس سے نہ صرف احتساب کا پورا عمل مشکوک ہوتا جا رہا ہے بلکہ احتساب کرنے والے محتسب اور ادارہ بھی متنازعہ ہوتے جا رہے ہیں اوراپوزیشن کی جانب سے احتساب کی آڑ میں سیاسی انتقام کا بیانیہ اب زورپکڑتا جا رہا ہے اور طاقت پکڑتا یہ بیانیہ کپتان کے پاوں کی بیڑیاں بنتا جا رہا ہے اور پھر کپتان کی ٹیم کے آپسی اختلافات بھی جلتی پر تیل کا کام دکھا رہے ہیں اس سے پہلے بھی کئی بار کپتان کی ٹیم کے کھلاڑیوں نے آپسی اختلافات کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑا ہے اور ا ب کپتان کی ٹیم کے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی پارٹی میٹنگ کی بجائے میڈیا کے ذریعے شکوہ کیا ہے کہ اہم فیصلے ہو جاتے ہیں لیکن پتہ ہی نہیں چلتا۔ سول و ملٹری تعلقات کے حوالے سے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس وقت سول ملٹری تعلقات بہترین ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے فواد چوہدری کی طرف سے سول ملٹری تعلقات بارے استعمال کیا جانیوالا اس وقت کا صیغہ بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ دوسری جانب نیب بھی پوری طرح متحرک ہے اور میگا منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت منسوخ ہونے پر آصف علی زرداری اور پنجاب میں اثاثہ جات کیس میں حمزہ شہباز کو گرفتار کر لیا ہے۔ دیکھتے ہیں اپوزیشن جماعتیں اب کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔