خیبر پختونخوا میں خواتین صحافیوں کو ثقافتی دباؤ کا سامنا

وصال یوسفزئی  بدھ 12 جون 2019
والدین کے تحفظات کے باوجود صحافت کا پیشہ چنا، رابعہ خان کی بات چیت۔ فوٹو: فائل

والدین کے تحفظات کے باوجود صحافت کا پیشہ چنا، رابعہ خان کی بات چیت۔ فوٹو: فائل

پشاور: پاکستان کے مرد نواز معاشرے میں اب بھی خواتین کو پروفیشنل زندگی میں رسم و رواج اور ثقافتی دبائو کا سامنا ہے جب کہ انھیں کسی بھی شعبے میں خود کو باصلاحیت ثابت کرنے کیلیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔

ثقافتی مسائل کے باوجود ملک کے دوسروں صوبوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی خواتین کئی پروفیشنل شعبوں میں قدم رکھ رہی ہیں۔ ان شعبوں میں صحافت کے میدان میں خواتین کے آنے کا رجحان زیادہ دیکھا گیا ہے۔

پشاور سے وابستہ ایک خاتون صحافی رابعہ خان نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے والدین نے مجھے خواب دیکھنے سے کبھی نہیں روکا میری اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خواہش بھی پوری کی گئی ۔ لیکن جیسے ہی انھیں پتہ چلا کہ میں نیوز روم میں مرد صحافیوں کے ساتھ کام کروں گی تو انھوں نے اپنی بیزاری کا اظہار کیا اور مجھے صحافت کے بطور پیشہ انتخاب سے روکا۔والدین کے تحفظات کے باوجود میں اپنی بات پر ڈٹی رہی اور رپورٹر کے طور پر کام کرنے کے لئے انھیں قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی کیونکہ میں صحافت کے لیے پرجوش تھی۔

رابعہ خان تین سال پشاور میں ریڈیو جرنلسٹ کے طور پر خدمات سرانجام دینے کے بعد کیریئر کے بہتر مواقعوں کے لئے اسلام آباد منتقل ہو گئیں۔آج کل وہ ایک انٹرنیشنل خبررساں ادارے کے ساتھ منسلک ہیں اور اپنے بوڑھے والدین کا سہارا ہیں جنھیں اب اپنی بیٹی پر بڑا فخر ہے۔

رابعہ خان ایسی ایک ہی خاتون صحافی نہیں ہیں کہ جنھیں اپنے شعبے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔اکثر و بیشتر خواتین صحافیوں کو رکاوٹوں سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔جن میں پشاور کے دیہی علاقے خاص طور پر فاٹا ڈسٹرکٹ کے علاقے شامل ہیں جن میں شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔دیگر ثقافتی مسائل کے ساتھ خواتین صحافیوں سے ہراسگی بڑا مسئلہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔