افغانی پشتون، پاکستانی پشتون اور ’لر و بر‘ کا جنازہ

ملک جہانگیر اقبال  جمعرات 13 جون 2019
افغان حکومت کےلیے وہی پشتون قابل قبول ہیں جو پاکستان کو گالی دے سکیں یا اسکی جڑیں کھوکھلی کرنے میں آلہ کار بن سکیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

افغان حکومت کےلیے وہی پشتون قابل قبول ہیں جو پاکستان کو گالی دے سکیں یا اسکی جڑیں کھوکھلی کرنے میں آلہ کار بن سکیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

گزشتہ دنوں خبر آئی کہ افغانستان کرکٹ ٹیم کے وکٹ کیپر اور بیٹنگ لائن کےلیے ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھنے والے بیٹسمین محمد شہزاد کو انجری کے باعث ورلڈ کپ اسکواڈ سے نکال دیا گیا ہے۔ دوران کھیل کسی کھلاڑی کا زخمی ہو کر میچ یا ٹورنامنٹ سے باہر ہوجانا ایک معمولی بات ہے لیکن بات تب مشکوک ہوئی جب محمد شہزاد نے صحافیوں کو بیانات دینا شروع کردیئے کہ وہ بالکل فٹ ہیں اور محض پاکستانی پشتون ہونے کا بہانہ بنا کر انہیں سازش کے تحت ٹیم سے باہر کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ محمد شہزاد کے والدین 1979 میں افغانستان سے نقل مکانی کرکے پاکستان آئے تھے لیکن محمد شہزاد کی پیدائش افغانستان ہی کی ہے۔ اس کے باوجود، افغان حکومت نے ’’لر و بر‘‘ کو افغانی پشتونوں کےلیے کچرے کے ڈبے کی نذر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ پاکستان جانے یا وہاں گھر اور کاروبار بنانے والوں کےلیے افغانستان کرکٹ ٹیم میں کوئی جگہ نہیں۔

اس سے قبل افغانستان کے کامیاب ترین سابق کپتان اصغر استانکزئی کو ورلڈ کپ سے قبل ڈرامائی انداز میں کپتانی سے ہٹا دیا گیا۔ اندرون خانہ ان پر بھی پاکستان دوست اور پاکستانی ایجنسی کےلیے کام کرنے جیسے الزامات لگائے گئے جس پر اپنی ’’حب الوطنی‘‘ ثابت کرنے کےلیے انہیں اپنے نام کے ساتھ لگا اپنی قوم کا سابقہ ’’استانکزئی‘‘ ہٹا کر ’’افغان‘‘ لگانا پڑا۔ یوں اصغر استانکزئی سے اصغر افغان بن جانے کے باوجود بھی وہ افغانستان حکومت میں شامل دری/ فارسی بان اشرافیہ کی نظر میں مشکوک ہی ٹھرے، لہذا انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا اور شنید ہے کہ اب انہیں ٹیم سے بھی نکال دیا جائے گا۔

اصغر استانکزئی کی بطور کپتان برطرفی پر دو اور مشہور افغانستانی کرکٹرز محمد نبی اور معروف لیگ اسپنر راشد خان نے بھی سخت مؤقف اختیار کیا۔ کہا جارہا ہے کہ راشد خان اور محمد نبی کا بچپن بھی پاکستان میں گزرا ہے اور وہ پاکستان میں کلب کرکٹ کھیلتے رہے ہیں لہذا انہیں بھی حب الوطنی ثابت کرنے کےلیے مشکلات کا سامنا ہے، اسی لیے اصغر استانکزئی کے بعد اہم ترین کھلاڑی ہونے کے باوجود انہیں کپتانی نہیں سونپی گئی بلکہ ایک غیر معروف کھلاڑی گلبدین نائب کو کپتان بنا دیا گیا ہے (افغان حکومت کے کہنے پر گلبدین نائب گھرانے سمیت افغانستان میں سکونت اختیار کرچکے ہیں جہاں کابل میں ان کے والد کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں)۔

محمد نبی اور راشد خان چونکہ عالمی سطح پر جانے پہچانے کھلاڑی ہیں لہذا فی الحال ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی۔

افغانستان میں پشتون اور بطور خاص پاکستانی پشتونوں کے ساتھ روا جانے والا رویہ ہتک آمیز ہی رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ دری بان/ فارسی بان اشرافیہ کی پشتون اکثریت سے خائف ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں پشتون اکثریت ہونے کے باوجود پشتو زبان کو وہ سرکاری حیثیت حاصل نہیں کہ جو دری زبان کو ہے۔ اسی رویّے کے باعث افغان طالبان (جو پشتون ہیں) عوامی حمایت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ یہ افغانستان کے اکثریتی پشتون عوام کا خوف ہے کہ اگر طالبان شکست کھا گئے تو طاقتور دری بان سیاسی و فوجی اشرافیہ (جسے امریکا و بھارت کی حمایت حاصل ہے) ان کا جینا مزید دوبھر کردے گی؛ جبکہ یہ افغانستان کے پشتون ہی ہیں جن کی پاکستان میں رشتہ داریاں اور کاروبار ہیں۔ میرے ذاتی قریبی دوست افغانستان سے تعلق رکھنے والے پشتون ہیں جن کا کاروبار تباہ ہوکر رہ گیا ہے لیکن اگر اس بابت وہ افغان حکومت سے شکوہ کرتے ہیں تو پشتون ہونے کے ناطے غدار ٹھہرتے ہیں۔

افغان حکومت کےلیے وہی پشتون قابل قبول ہیں جو پاکستان کو گالی دے سکیں یا اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے کےلیے بطور آلہ کار کام کرسکیں؛ اور یہ بات ’’لر و بر‘‘ کا نعرہ لگانے والے بخوبی جانتے ہیں کہ جب تک وہ پاکستان مخالف کام کریں گے تب تک افغان حکومت کے منظور نظر رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قوم پرست افغانستان میں پناہ لینے کے بجائے یورپی ممالک میں پناہ لینا پسند کرتے ہیں تاکہ کام نکلنے کے بعد افغان حکومت انہیں دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر نہ کرے کیونکہ افغانستان کے لر و بر میں پاکستانی پشتون تب تک قابل منظور ہیں جب تک وہ پاکستان مخالف ہیں ورنہ پاکستانی پشتون محض ’’بر و بر‘‘ ہی ہیں، ان کےلیے ’’لر‘‘ میں کوئی جگہ نہیں۔

اللہ سے دعا ہے کہ افغان حکومت بغض پاکستان میں افغانستان میں بسنے والی پشتون قوم کے ساتھ روا رکھے جانے والا ہتک آمیز رویہ ترک کردے تاکہ وہاں موجود چند پشتونوں اور پاکستان میں موجود مٹھی بھر دانشور قوم پرستوں کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کےلیے ریاست پاکستان کو تختہ مشق نہ بنانا پڑے۔ آمین!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔