ٹوئٹ پرنٹ کرنا ہوا آسان

سید بابر علی  پير 2 ستمبر 2013
 ویب ڈیولپر نے کاغذ کے فیتے پر’’ٹوئٹ‘‘ پرنٹ کرنے والی مشین بنالی فوٹو : فائل

ویب ڈیولپر نے کاغذ کے فیتے پر’’ٹوئٹ‘‘ پرنٹ کرنے والی مشین بنالی فوٹو : فائل

انٹرنیٹ نے جہاں دنیا کو ’’گلوبل ولیج ‘‘ میں تبدیل کردیا ہے تو دوسری طرف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس نے کروڑوں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ اور سماجی رابطے کی مشہور ویب سائٹس میں ’’ٹوئٹر‘‘ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ٹوئٹر کی سب سے خاص بات یہ ہے۔

اداکاروں، گلوکاروں سے لے کر اعلیٰ حکومتی عہدے داروں تک زیادہ تر شخصیات ٹوئٹر کے استعمال کو ترجیح دیتی ہیں۔ سیلیبریٹیز یا اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کے ٹوئٹر پر کیے گئے ’’ٹوئٹ‘‘ کو ذرائع ابلاغ اپنی خبر کا حصہ بناتے ہیں تو دوسری طرف ان کے مداح ان کی جانب سے ٹوئٹ کے منتظر رہتے ہیں۔ لیکن یہ ’’ٹوئٹ‘‘ محض ویب سائٹ کی حد تک ہی موجود ہوتی ہے اور چاہتے ہوئے بھی اسے آپ صحیح طریقے سے کاغذی شکل میں محفوظ نہیں کر سکتے تھے۔

لیکن! اب کمبریا کے ایک ویب ڈویلپر نے پرانے ساز و سامان سے ’’ٹوئٹر ٹیپ‘‘ مشین بنا لی ہے جو کسی بھی ’’ٹوئٹ‘‘ کو کاغذ کے فیتے پر پرنٹ کر سکتی ہے۔ ٹوئٹر ٹیپ کے خالق ایڈم ویگن(Vaughan) کا کہنا ہے کہ مجھے تاریخ سے بہت دل چسپی ہے اور ’’ٹکر ٹیپ مشین‘‘ کے کام کرنے کے طریقۂ کار سے میں بہت متاثر تھا۔ اور میں یہی سوچتا رہتا تھا کہ اب اس جیسی مشین سے کیا چیز پرنٹ ہوسکتی ہے جو دورجدید کی اہم ضرورت بھی ہو اور محض کاغذ کے فیتے پر پر نٹ کے لیے موزوں بھی ہو۔

ایڈم کا کہنا ہے کہ کافی سوچ بچار کے بعد صرف ایک ہی نام میرے ذہن میں آیا اور وہ تھا ’’ٹوئٹر‘‘، لیکن اصل مسئلہ ’’ٹکر ٹیپ مشین‘‘ کے حصول کا تھا کیوں کہ 1867میں بنائی گئی اصلی ’’ٹکر ٹیپ مشین‘‘ کا شمار اب انتہائی منہگے نوادرات میں ہوتا ہے۔ ٹکر ٹیپ مشین پر اس دور میں ٹیلی گراف لائنوں کے ذریعے حصص کی قیمتیں پرنٹ کی جاتی تھی۔

تاہم اس بات نے میرے حوصلے پست نہیں کیے اور میں نے مختلف نوعیت کا پرانا سامان اکٹھا کرنا شروع کردیا، جن میں پرانی گھڑیاں، فرنیچر اور دیگر چیزیں شامل تھیں۔ تمام سامان جمع کرنے کے بعد مجھے ’’ٹوئٹرٹیپ‘‘ بنانے میں تین ماہ کا عرصہ لگا۔ ایڈم کا کہنا ہے کہ ’’ٹوئٹر ٹیپ ‘‘ ایتھر نیٹ کیبل کے ذریعے کمپیوٹر سے منسلک ہونے کے بعد مشین کی لکڑی سے بنی بیس میں موجود تھرمل پرنٹر اور مائیکرو کنٹرولر کی مدد سے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ہر تیس سیکنڈ بعد ٹوئٹ پرنٹ کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مستقبل میں اس مشین میں ایک کنٹرول پینل بھی شامل کرنے کا ارادہ ہے جس کی مدد سے استعمال کنندہ کسی مخصوص ’’ہیش ٹیگ‘‘ یا بیک وقت کئی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ پرنٹ کر سکے گا۔ تاہم اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ٹوئٹر کی پالیسی ہے، کیوں کہ ٹوئٹر نے API(ایپلی کیشن پروگرام انٹرفیس) کو اپ ڈیٹ کرکے تھرڈ پارٹی ڈیولپرز کی رسائی بند کردی ہے۔ جس سے اس کام میں پیچیدگی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

ایڈم نے بتایا کہ جب میں ’’ٹوئٹر ٹیپ‘‘ بنانے کے خیال کا ذکر اپنے دوستوں اور گھر والوں سے کیا تو سب نے میرا بہت مذاق اڑایا تھا لیکن اب وہ سب میری ’’ٹوئٹرٹیپ‘‘ مشین میں بہت دل چسپی لینے کے ساتھ ساتھ میری حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔