عسکریت پسندوں سے مذاکرات…کن بنیادوں پر؟

ایڈیٹوریل  پير 2 ستمبر 2013
طالبان سے فی الوقت کوئی باضابطہ مذاکرات نہیں ہو رہے، چوہدری نثار۔ فوٹو: ایکسپریس

طالبان سے فی الوقت کوئی باضابطہ مذاکرات نہیں ہو رہے، چوہدری نثار۔ فوٹو: ایکسپریس

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے گزشتہ روز ایک اخباری بیان میں واضح کیا ہے کہ طالبان سے فی الوقت کوئی باضابطہ مذاکرات نہیں ہو رہے۔ اس سلسلے میں اکثر میڈیا رپورٹس حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ یہ ایک انتہائی حساس اور پیچیدہ مسئلہ ہے‘ اس لیے بغیر نام لیے وزراء اور حکومتی اہلکاروں کا حوالہ دے کر کسی خبر کی تشہیر سے اجتناب کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ عناصر حکومت کا حوالہ دے کر طالبان کے کسی گروپ سے بات کرنا شروع کر دیتے ہیں اور کچھ عناصر طالبان سے قربت کا حوالہ دے کر کسی حکومتی اہلکار کو اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں۔

یہ باتیں اس عمل کے لیے نقصان دہ بھی ہیں اور ابہام پھیلانے کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے ہم نے اپنی پالیسی اور حکمت عملی تیار کر لی ہے تاہم باقی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر اس پر عمل شروع کیا جائے گا۔ یہ کہنا کہ تحریک طالبان پاکستان سے باقاعدہ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں، صریحاً اور حقیقتاًقبل از وقت ہے۔ وزیر اعظم آیندہ ہفتے کراچی سے واپسی کے بعد پارلیمنٹ میں موجودہ اہم سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اس سلسلے میں اعتماد میں لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حکومت اس سلسلے میں قوم سے کچھ نہیں چھپائے گی اور جو بھی فیصلے ہوں گے، ان کے بارے میں واضح اعلان اور ان پر مکمل عمل کیا جائے گا۔

طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے خاصی مبہم صورت حال ہے‘ میڈیا میں مختلف قسم کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں تاہم اب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے صورت حال واضح کر دی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ دنوں قوم سے خطاب کرتے ہوئے عسکریت پسندوں اور انتہا پسندوں سے مذاکرات کی بات کی تھی‘ اسی سلسلے میں اب تک کیا پیش رفت ہوئی‘ اس کے بارے میں فریقین کی جانب سے جو باتیں سامنے آئی ہیں‘ ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان باضابطہ طور پر مذاکرات نہیں ہو رہے‘ البتہ پس پردہ یا بیک ڈور کوئی سرگرمی ہو رہی ہے تو یہ الگ بات ہے تاہم فریقین اس کے بارے میں بھی انکار ہی کر رہے ہیں۔مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے کوئی نہ کوئی بات ضرور سامنے آتی رہتی ہے۔

مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن کے اس حوالے سے بیانات اکثر اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ حکومتی ذرایع کے حوالے سے میڈیا میں بھی ایسی رپورٹس منظر عام پر آتی رہتی ہیں جن سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کالعدم تحریک طالبان اور حکومت کے رابطہ کاروں کے درمیان کہیں نہ کہیں کوئی بات چیت ضرور چل رہی ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا معاملہ حساس نوعیت کا ہے لہذا اس بار میں قیاس آرائیاں نہیں ہونی چاہئیں۔وفاقی وزیر داخلہ نے پوری وضاحت کردی ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں اپنی حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت طالبان سے مذاکرات کے لیے حکمت عملی تیار کر چکی ہے اور اب وہ کسی مناسب موقع کی تلاش میں ہے تاکہ یہ عمل شروع کیا جاسکے۔

مسلم لیگ ن طالبان سے مذاکرات کی شروع سے ہی حامی ہے‘ اب وہ حکومت میں ہے اور وہ اس جانب قدم بڑھا رہی ہے‘ ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس معاملے میں وفاقی حکومت کا ساتھ دیں گی کیونکہ ماضی میں بھی طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنسیں ہوتی رہی ہیں جن میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ حکومت کے لیے سب سے بڑی مشکل یہی نظر آ رہی ہے کہ وہ طالبان سے کس ایجنڈے پر مذاکرات کرے کیونکہ طالبان سرنڈر کرنے پر تیار ہیں اور نہ ہی انھوں نے اپنے نظریات میں کوئی لچک پیدا کی ہے۔ ایک جانب یہ پرامید ماحول ہے تو دوسری جانب ملک میں سیکیورٹی فورسز پر حملے بھی جاری ہیں۔ اتوار کو شمالی وزیرستان میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں9 سیکیورٹی اہلکار شہید اور19 زخمی ہوگئے ۔

یہ یقینی طور پر دہشت گردوں کی بڑی کارروائی ہے اور اس میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی شہادت ہوئی ہے۔ شمالی وزیرستان میں سرگرم تنظیم انصار المجاہدین نے اس حملے کی ذمے داری قبول کر لی۔ اخباری خبر کے مطابق انصارالمجاہدین نامی گروپ کے ترجمان ابو بصیر نے نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر بتایا کہ یہ حملہ ڈرون حملے کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیا۔ جب بھی کوئی امریکی ڈرون حملہ ہو گا تو ہماری طرف سے بھی ایسی ہی جوابی کارروائی کی جائے گی۔ ترجمان نے کہا کہ ہمیں پورا یقین ہے جو بھی ڈرون حملے ہو رہے ہیں، وہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر ہوتے ہیں۔

اگر وہ نہ چاہیں تو یہ حملے نہیں ہو سکتے۔ انصار المجاہدین کے ترجمان نے کہا کہ آیندہ ہونے والے ڈرون حملوں کا بدلہ لینے کے لیے جوابی کارروائی صرف شمالی وزیرستان میں نہیں ہوگی بلکہ اس کا دائرہ کار ملک کے دیگر حصوں تک بڑھایا جائے گا۔ دہشت گردی میں ملوث مختلف گروہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی واردات کرتے رہتے ہیں۔عسکریت پسندوں کے اس قسم کا موقف اور طرز عمل مذاکرات کی امیدوں کو ختم کرنے کا باعث بنتا ہے‘ اگر تو مذاکرات کا خواہشمند گروہ اس قسم کے بیان سے لاتعلقی ظاہر کرتا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے‘ اگر کالعدم تحریک طالبان خاموش رہتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔ایسی صورت میں حکومت کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ کن بنیادوں پر عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔