مہاراجہ شیر سنگھ کی سمادھی اور بارہ دری کی تزئین و آرائش مکمل

 جمعرات 13 جون 2019
مہاراجہ شیرسنگھ ،سکھوں کے پہلے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کا بیٹا تھا فوٹو: ایکسپریس

مہاراجہ شیرسنگھ ،سکھوں کے پہلے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کا بیٹا تھا فوٹو: ایکسپریس

لاہور  : محکمہ آثارقدیمہ پنجاب نے سکھ سلطنت کے چوتھے حکمران مہاراجہ شیر سنگھ کی سمادھی اور بارہ دری کی آرائش وتزئین مکمل کرلی گئی ہے۔

شمالی لاہورکے علاقہ بھوگیوال میں چند ایکڑ رقبے پر بنی عمارت مہاراجہ شیرسنگھ کی بارہ دری ہے۔ بارہ دری کا بڑا حصہ ختم ہوچکا ہے تاہم صوبائی محکمہ آثارقدیمہ نے اصل عمارت کو کروڑوں روپے کی لاگت سے پھر سے بحال کردیا ہے۔ بارہ دری کے سامنے ایک پارک بنادیا گیا ہے۔ پارک میں ایک طرف حضرت بلاول شاہ ؒ کا مزار ہے جب کہ اس سے کچھ فاصلے پر مہاراجہ شیر سنگھ کی سمادھی ہے۔

ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق اس جگہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے مہاراجہ شیر سنگھ، شیرسنگھ کی بیوی رانی رندھاوی اور بیٹے پرتاپ سنگھ کی سمادھیاں تھیں ،تاہم اب یہاں صرف ایک ہی سمادھی باقی بچی ہے جو مہاراجہ شیر سنگھ سے منسوب ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے 1843 میں اس مقام پرسکھ سلطنت کے چوتھے حکمران مہاراجہ شیر سنگھ اور ان کے بارہ سالہ بیٹے پرتاپ سنگھ کو قتل کردیا گیا تھا ، یہاں ان کی چتا جلائی گئی اوررانی رندھاوی کو بھی ستی کیاگیا ۔ یہ وہ تاریخی مقام ہے جہاں سکھ سلطنت کا سورج غروب ہوگیا۔

ڈائریکٹر آثار قدیمہ پنجاب محمدافضل خان نے بتایا کہ برصغیرکی تقسیم کے دوران بھی اس جگہ پر کافی تباہی مچی لیکن اصل تباہی بابری مسجد کے سانحہ کے بعد آئی جب قبضہ گروپوں نے مزار کے ساتھ ساتھ ملحقہ بارہ دری اور سمادھیوں کی عمارت کو تہس نہس کردیا تھا۔بارہ دری کی لکڑی کی چھتوں کوآگ لگا کر جلا دیا گیا تھا۔ تاہم 2011 میں پنجاب حکومت نے صوبے میں موجود مغلیہ دور کی اہم عمارتوں کی بحالی اور آرائش وتذئین کے ساتھ ساتھ سکھ اور ہندوؤں کے مقدس اور تاریخی مقامات کی بحالی کا کام شروع کیا تھا۔ اسی منصوبے کے تحت مہاراجہ شیرسنگھ کی بارہ دری اور سمادھی کو بحال کیا گیا۔بارہ دری کی دیواروں، چھتوں اوردروازوں کی دوبارہ مرمت کی گئی ہے۔

پی ایچ اے نے بارہ دری کے سامنے لان کو ایک خوبصورت پارک کی شکل دے دی ہے جبکہ اطراف میں چار دیواری کرکے اس جگہ کو قبضہ گروپوں سے محفوظ بنا دیا گیا ہے، مقامی لوگ صبح اور شام کے اوقات میں یہاں واک کے لئے آتے ہیں۔

مقامی رہائشی محمداشرف خان نے بتایا کہ چندبرس پہلے تک یہ جگہ کھنڈربن چکی تھی،یہاں خاک اڑتی تھی لیکن محکمہ آثارقدیمہ نے اس عمارت کو دوبارہ تعمیر کردیا ہے، یہاں درخت لگائے گئے ہیں۔ کبھی کبھار یہاں غیر ملکی بالخصوص سکھ بھی آتے ہیں وہ اس جگہ کو دیکھتے ہیں۔

ایک اور شہری ناصرعلی نے بتایا 1992 میں بابری مسجد پر حملے کے بعد مقامی لوگوں نے اس عمارت کو گرادیا تھا لیکن حکومت نے سکھوں کے اس تاریخی عمارت کو پھر سے تعمیر کردیا ہے۔ یہاں اسی طرز پر نقش ونگار بنائے گئے جس طرح پرانی عمارت پر تھے۔ کبھی یہاں پہلوانوں کا اکھاڑہ ہوتا تھاتاہم 1980 میں وہ اکھاڑہ ختم ہوگیا۔ وہ بھارتی حکومت سے کہیں گے کہ جس طرح پاکستان میں سکھوں اورہندوؤں کے مقدس اورتاریخی مقامات کی حفاظت کی جارہی ہے بھارت میں بھی مسلمانوں کی مساجد اورتاریخی مقامات کی حفاظت کی جانی چاہیے۔

محمد افضل خان نے مزیدبتایا کہ پنجاب حکومت نے لاہورکے اس پوشیدہ ورثے کو دنیاکے سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان مقامات کو سیاحت کے حوالے سے فروغ دیاجائیگا،وفاقی حکومت کو تجویزدی جائیگی کے بھارت سمیت مختلف ممالک سے مذہبی رسومات منانے ہزاروں سکھ یاتری ہرسال پاکستان آتے ہیں۔لاہورمیں قیام کے دوران سکھ یاتریوں کوسمادھی شیرسنگھ سمیت دیگرمقامات کی سیربھی کروائی جانی چاہیے تاکہ وہ جان سکیں کہ پاکستان میں سکھوں کے ورثے کو حکومت نے کس طرح سینے سے لگا کر رکھا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔