ایران امریکا کشیدگی تاریخی تناظر میں

سید جواد حسین رضوی  ہفتہ 15 جون 2019
 ایران و امریکا 
کے تعلقات 1979 کے بعد کبھی 
خوشگوار نہیں رہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایران و امریکا کے تعلقات 1979 کے بعد کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امریکا کے تعلقات اس ملک کے ساتھ کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ اس سے قبل شاہ ایران مشرق وسطیٰ میں استعمار کا پولیس مین سمجھا جاتا تھا۔ جس کا کام امریکا و برطانیہ کے مفادات کا تحفظ تھا۔ اس وقت جبکہ تمام اسلامی دنیا اسرائیل کی مخالف تھی، شاہ ایران کے اسرائیل سے بہترین مراسم تھے۔

ایران کے روحانی پیشوا اور پہلے سپریم لیڈر سید روح اللہ الخمینی جن کو دنیا امام خمینی کے نام سے جانتی ہے، ترکی اور عراق میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور ایرانی قوم اپنے ملک کے شہنشاہ کے خلاف اکٹھی ہورہی تھی۔ اس عوامی بیداری کے پیچھے بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات تھے، جس کو ایران کی مذہبی اشرافیہ اور عوام پسند نہیں کرتے تھے۔ امام خمینی نے اپنی تقریروں میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی اور شاہ کے اقدامات کو اسلام کے زرّیں اصولوں کے خلاف غداری قرار دیا۔

وقت کے ساتھ شاہ ایران کے خلاف عوامی تحریک میں تیزی آتی گئی۔ اس صورتحال میں امریکا نے شاہ ایران کا بھرپور ساتھ دیا۔ یہیں سے امریکا اور ایرانی عوام کے درمیان مخالفت کا آغاز ہوا۔ پورا ملک ’’مردہ باد امریکا‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ شاہ ایران نے طاقت کے زور سے بغاوت کو ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن عوامی سیلاب کے سامنے وہ ٹھہر نہ سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شاہ ایران کو ملک سے فرار ہونا پڑا۔ امام خمینی جو صدام حسین سے اختلافات کے بعد عراق کو خیر باد کہہ کر فرانس میں مقیم تھے، فاتحانہ انداز میں تہران واپس آئے۔ ایرانی عوام نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور اس طرح حکومت کی باگ ڈور مذہبی علما کے ہاتھوں میں آگئی۔

انقلاب کی کامیابی کے فوراً بعد خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی آئی۔ اسرائیل ایران کا دشمن قرار پایا اور امریکا سے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ ایرانی طلاّب نے مظاہروں کے دوران تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرلیا اور 52 سفارتکاروں کو یرغمال بنالیا۔ یہ سفارتکار 444 دن ایران کی تحویل میں رہے۔ اس دوران امریکا نے ہر ممکن کوشش کی کہ اپنے سفارتکاروں کو بازیاب کروایا جاسکے۔ آخری کوشش کے طور پر خفیہ فوجی آپریشن بنام پنجۂ عقاب (Operation Eagle Claw) کا آغاز کیا، لیکن راتوں رات ’’دشت کویر‘‘ صحرا میں طبس کے مقام پر امریکی جہاز اور ہیلی کاپٹر تباہ ہوگئے۔ اس واقعے کو ایران کے روحانی پیشوا امام خمینی نے معجزے سے تعبیر کیا۔

دوسری طرف عراق نے ایران پر حملہ کردیا اور اس خوفناک جنگ کا آغاز ہوا جو آٹھ سال تک جاری رہا۔ ایرانی حکومت اور عوام یہ باور کرتے رہے کہ عراق کے پیچھے درحقیقت امریکا ہے۔ جس سے امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتا گیا۔ شدت یہاں تک پہنچی کہ ایران بھر میں ہر باجماعت نماز کے بعد ’’مردہ باد امریکا‘‘ کے نعرے لگنے کا سلسلہ جاری ہوا جو آج بھی جاری ہے۔

جنگ کے بعد امریکا اور اسرائیل ایران پر الزامات لگاتے رہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے حصول کےلیے کوشاں ہے۔ ایران اس دوران لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں حماس نامی تنظیموں کی علانیہ مدد کرتا رہا، جو اسرائیل سے برسر پیکار تھے۔ چنانچہ اسرائیل ایران کو اپنے وجود کے لیے خطرہ تصور کرتا رہا۔ نتیجتاً امریکا جو پہلے ہی ایرانی عوام کی امریکا دشمنی سے نالاں تھا، اسرائیلی مفادات کا محافظ ہونے کے ناتے ایران کے ان مبینہ جرائم کو نظرانداز نہ کرسکا۔

2007 میں ایران پر امریکا سمیت دنیا کے اہم ممالک نے پابندیاں عائد کردیں، جبکہ ایران جوہری ہتھیاروں سے انکار کرتا رہا اور اپنے جوہری پروگرام کو انرجی کے حصول کا ذریعہ قرار دیا۔ ایران میں اس دوران سیاسی اتار چڑھاؤ جاری رہا۔ 2013 میں اعتدال پسند حسن روحانی برسر اقتدار آئے۔ حسن روحانی نے ایرانی قوم سے وعدہ کیا کہ وہ ایرانی قوم کی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر بحال کرے گا، جس سے پابندیاں ختم ہوں گی اور معاشی مسائل حل ہوں گے۔

حسن روحانی جیسے معتدل صدر کے برسراقتدار آنے کے فوراً بعد امریکا نے عندیہ دیا کہ وہ ایران سے مذاکرات کےلیے آمادہ ہے۔ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد 2015 میں کامیابی ہوئی اور یہ طے پایا کہ ایران یورینیم کی افزودگی روک لے گا اور عالمی طاقتیں ایران پر سے پابندیاں ختم کریں گی۔ اس معاہدے کو عالمی سطح پر بہت پذیرائی ملی۔ اقوام متحدہ نے بھی اس بات کو سراہا کہ یہ مسئلہ طاقت کے بجائے بات چیت سے طے ہوا۔ اس معاہدے کو ایک طرف اسرائیل اور سعودی عرب نے مسترد کیا، دوسری طرف ایران میں سخت گیر علما نے اس معاہدے کی شدید مخالفت کی، اور صدر حسن روحانی و وزیر خارجہ جواد ظریف پر الزام لگایا کہ وہ اسلامی انقلاب کے اہم اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے عالمی طاقتوں کے سامنے پست ہوگئے۔

کچھ عرصے بعد امریکا میں عام انتخابات ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنا، جو ابتدا سے ہی اس معاہدے کا مخالف تھا، اپنی انتخابی مہم میں شدید نکتہ چینی کرتا رہا اور عندیہ دیا کہ برسر اقتدار آنے کے بعد اس معاہدے کو ختم کیا جائے گا۔ پھر یہی ہوا حالانکہ عالمی جوہری کمیشن (IAEC) تصدیق کرچکا تھا کہ ایران جوہری معاہدے کی مکمل پاسداری کررہا ہے۔ اسی وجہ سے اس معاہدے کے دوسرے شریک جرمنی، فرانس، روس، چین اور برطانیہ نے معاہدے کو ختم کرنے سے انکار کیا۔ ان کے نزدیک اس معاہدے کو ختم کرنا مشرق وسطیٰ کے تناؤ میں اضافے کا باعث ہے، جس کے بعد ایران کی طرف سے یورینیم کی افزودگی کو روکنا ممکن نہ ہوگا۔

امریکا اور اس کا مشرق وسطیٰ کا اہم اتحادی سعودی عرب، ایران کو مشرق وسطیٰ کی بدترین صورتحال کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ شام میں بشارالاسد کے مسئلے پر ایران شامی حکومت کے ساتھ ہے، اور اس کی بھرپور مدد کررہا ہے۔ ایران اور لبنان کے حزب اللہ ملیشیا کے درمیان بشارالاسد ایک پل کا کام کرتا ہے، لہٰذا ایران کبھی نہیں چاہے گا کہ وہاں کوئی امریکا نواز حکومت قائم ہو۔ جبکہ سعودی عرب اور امریکا دونوں بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور شامی باغیوں کی مدد کرتے ہیں۔ روس کی شمولیت نے بھی شام کے مسئلے کو ناقابل حل بنادیا ہے۔ ادھر یمن میں سعودی عرب یمنی حکومت کا ساتھ دیتا ہے جبکہ ایران حوثی جنگجوؤں کے ساتھ ہے۔

شام اور یمن دونوں ممالک میں انسانی حقوق کا المیہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کی باہمی چپقلش اور مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے معصوم اور نہتے عوام بھوک، افلاس اور قتل و غارت کا شکار ہورہے ہیں، جبکہ یمن میں قحط کی صورتحال نہایت سنگین ہوچکی ہے۔

امریکا مشرق وسطیٰ کی اس دگرگوں صورتحال کا الزام ایران پر لگاتا ہے، حالانکہ غیر جانبدار ہو کر دیکھا جائے تو امریکا اور اس کے اتحادی، خصوصاً سعودی عرب بھی اتنا ہی حصہ دار ہے جتنا ایران۔ وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن ان افراد میں سے ہیں جو ایران میں مذہبی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور جنگ کے بھرپور حامی ہیں۔ اس پوری کشیدگی میں جان بولٹن کے منفی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ ٹرمپ ذاتی طور پر جنگ کا حامی نہیں ہے۔ صدارتی مہم کے دوران امریکی قوم کو باور کراتا رہا کہ وہ امریکا کو بیرونی جنگوں کی دلدل سے باہر نکالے گا۔ امریکا رفتہ رفتہ افغانستان، عراق اور شام سے اپنی افواج کے انخلاء کے پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ اس صورتحال میں ایران کی شکل میں ایک اور خطرناک محاذ صدر ٹرمپ کےلیے ممکن نہیں۔ اور یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ ایران خطے کے دیگر ممالک کی طرح تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا۔

یہ بات امریکا کو بری طرح خائف کررہی ہے کہ پورے خطّے میں ایران اپنے حمایت یافتہ عناصر کے ساتھ بھرپور طریقے سے موجود ہے۔ لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثی ملیشیا ’’انصار اللہ‘‘ کے ذریعے ایران بھرپور انداز میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات پر حملہ کرسکتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے مراسم بھی امریکا کےلیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ ایران امریکا کو دھمکی دے رہا ہے کہ ایران پر کسی قسم کے مسلّح حملے کی صورت میں وہ بھرپور جواب دے گا۔ آبنائے ہرمز اس صورتحال میں محفوظ نہیں ہوگا، جہاں سے بین الاقوامی تیل کی ترسیل کا چوتھائی حصہ گزرتا ہے۔ اس کی جھلک حالیہ کچھ واقعات میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مثلاً متحدہ عرب امارات میں ’’الفجیرہ‘‘ بندرگاہ پر راکٹ حملہ، سعودی عرب میں اہم تنصیبات پر یمنی انصار اللہ کی طرف سے ڈرون حملے اور بغداد میں امریکی سفارتخانے کے نزدیک راکٹ حملہ۔

بظاہر یوں لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اقتصادی پابندیاں لگا کر، بحری بیڑے خلیج فارس میں تعینات کرکے اور لشکر کشی کا خوف دلا کر ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے، تاکہ اپنی شرائط پر دوبارہ مذاکرات شروع کیے جاسکیں اور اس کامیابی کو اگلے الیکشن میں استعمال کرسکے۔ اس کام کے لیے ٹرمپ جاپان کو ثالث بنانا چاہ رہا ہے۔ لیکن امریکا کی عہد شکنی کے بعد ایران کےلیے بہت مشکل ہے کہ وہ امریکا پر دوبارہ اعتماد کرے، جس کا اظہار ان کی قیادت برملا کرتی رہی ہے۔ روئٹرز اور ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق حسن روحانی نے مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ کشیدگی آنے والے دنوں میں کیا رخ اختیار کرتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید جواد حسین رضوی

سید جواد حسین رضوی

بلاگر اسلامی بینکاری کے شعبے سے منسلک ہیں۔ اس وقت ایک نجی بینک کے شریعہ کمپلائنس ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔ تعلیمی لحاظ سے وفاق المدارس سے ’’الشہادۃ العالمیہ‘‘ اور عصری علوم کے لحاظ سے ایم بی اے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی jawadhussainrizvi پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔