دم دلا دور کڑک پنچھی رفت

وسعت اللہ خان  پير 2 ستمبر 2013

اس وقت دنیا میں مال بردار جہازوں یعنی کنٹینر شپس کی سات اقسام ہیں۔بڑے سے بڑا کنٹینر شپ چالیس بائی بیس فٹ کے سولہ ہزار اور چھوٹے سے چھوٹا شپ ایک ہزار کنٹینرز کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ پاکستان کی دو مرکزی بندرگاہوں یعنی کیماڑی اور پورٹ قاسم تک زیادہ تر جو کنٹینر شپ آتے ہیں یا جاتے ہیں، ان کی عمومی گنجائش تین ہزار سے دس ہزار کنٹینرز کی ہوتی ہے۔

جب سے سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل رضوان اختر نے سپریم کورٹ کے روبرو یہ بیان دیا ہے کہ کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں جو اسلحہ پھیلا ہے اس کا ایک سبب وہ انیس ہزار کنٹینرز بھی ہیں جو گزشتہ وفاقی وزیر برائے جہاز رانی و بندرگاہ بابر غوری کے دور میں کراچی کی بندرگاہوں پر اتارے گئے۔(ان میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ، ناٹو افواج اور پاکستان کے لائسنس یافتہ اسلحہ ڈیلروں کے کنٹینرز شامل تھے جو غائب ہوگئے یا ان کے اندر موجود سامان غائب ہوگیا )۔تب سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اسلحے سے بھرے انیس ہزار کنٹینرز دو یا تین جہازوں میں آئے ہوں گے یا دو یا تین سو جہازوں میں یا پھر دس برس میں جتنے بھی مال بردار جہاز کیماڑی یا پورٹ قاسم پر لنگر انداز ہوئے ان سب میں کم ازکم ایک کنٹینر ضرور اسلحے سے بھرا ہوا ہوگا۔

چلیں ایسا ہی کچھ ہوا ہوگا۔مگر کسی بھی ملک کی بندرگاہ تو ویسے ہی ہوتی ہے جیسے واہگہ ، کھوکرا پار ، طورخم ، چمن اور تافتان کے سرحدی ٹرانزٹ پوائنٹس یا ایرپورٹس کے انٹرنیشنل ڈیپارچر اور آرائیول لاؤنج۔اور ان تمام مقامات پر پولیس کی اسپیشل برانچ سے لے کر عسکری و نیم عسکری اداروں اور تمام اہم خفیہ ایجنسیوں کی آنکھیں بھی چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہیں۔تو پھر کیماڑی اور پورٹ قاسم پر بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا۔پاکستان کی سمندری حدود کی نگرانی میری ٹائم ایجنسی اور کوسٹ گارڈز کرتے ہوں گے۔

ریڈاروں پر سمندری نقل و حرکت اور جہازوں کی آمد جامد دیکھی جاسکتی ہوگی۔کسٹمز انٹیلی جینس ، آئی ایس آئی ، ملٹری انٹیلی جینس، انٹی نارکوٹکس فورس، سینٹرل بورڈ آف ریونیو اور اسپیشل برانچ کا ایک ایک کارندہ تو ضرور ہی ہر شفٹ کی نگرانی پر مامور ہوتا ہوگا۔کون سا کنٹینر کس نام کے جہاز پر کہاں سے آرہا ہے ، کہاں جارہا ہے۔کس گودام میں کتنے دن رکھا جائے گا۔کس کے نام پر کس شپنگ کمپنی کے ذریعے آیا ہے۔جہاز کہاں سے چلا ، کہاں کہاں رکتا آرہا ہے اور آگے کی منزل کیا ہے۔کونسی کلئیرنگ فارورڈنگ ایجنسی اس کنٹینر کی نقل و حرکت کی ذمے دار ہے۔

ہر کنٹینر کے ساتھ کچھ نا کچھ لازمی دستاویزات بھی منسلک ہوتی ہوں گی۔اور ان دستاویزات کی کاربن کاپیاں بھی ہوتی ہوں گی۔اتنے بڑے نظام کے جال سے بھی انیس ہزار اسلحے سے بھرے کنٹینرز نکل جاتے ہیں اور کوئی بھی فرد یا ادارہ ان میں سے آدھے نہیں تو ایک چوتھائی ، ایک چوتھائی نہیں تو دس فیصد اور دس فیصد نہیں تو ایک فیصد کنٹینرز پکڑنے میں بھی ناکام رہتا ہے ؟

ایسا تب ہی ممکن ہے جب نگرانی و جانچ پڑتال پر مامور تمام افراد نابینا ہوں یا نشے میں دھت رہتے ہوں یا ٹیلی فون کے سگنلز پر اٹھنے بیٹھنے والے ریموٹ کنٹرولڈ روبوٹ ہوں یا انھیں کھانے پینے میں ایسی شے دے دی جاتی ہو کہ وہ نوکری کے آٹھ گھنٹے سوتے یا اونگھتے گذار دیتے ہوں یا ان کی آنکھوں پر نوٹوں کی پٹیاں باندھ دی گئی ہوں یا وہ انگوٹھا چھاپ ہوں یا ان میں سے کوئی اہلکار دراصل ایسا عامل ہو جس کے قبضے میں بہت سے جنات ہوں اور وہ جنات بندرگاہ کے قلیوں، ڈرائیوروں اور سامان کلیئر کرنے والے افسروں کی شکلیں دھار کے کام کرتے ہوں یا اپنی ہتھیلی پر کوئی بھی کنٹینر رکھ کے ہوا میں پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں یا کنٹینر جیب میں ڈال کے سیٹی بجاتے ہوئے بندرگاہ کے ٹرمینل سے باہر چلے جاتے ہوں۔یا ایسی بڑی بڑی کشتیوں میں تبدیل ہوجاتے ہوں جن میں جہاز کے بندرگاہ میں داخلے سے پہلے ہی کھلے سمندر میں ٹنوں وزنی کنٹینرز اتار کے منتقل کردیے جاتے ہوں۔

لیکن ایک منٹ…میں اپنے تمام الفاظ فوری طور پر واپس لیتا ہوں۔اگر میری اوپر کی تحریر سے کسی فرد یا ادارے کی دل آزاری ہوئی ہو تو انتہائی معذرت خواہ ہوں۔کیونکہ مجھے اچانک یاد آیا کہ یہ تو وہی جگہ ہے جہاں سے صرف ایک سائنسداں جوہری ٹیکنالوجی اپنی جیب میں ڈال کر برسوں دنیا بھرمیں لنگر کی طرح بانٹتا رہا اور کسی ادارے کو بھنک تک نہیں لگنے دی۔اور اگر کسی ادارے کو خبر بھی تھی تو وہ اپنی وضع داری اور روایتی شرافت میں چپ رہا اور پھر بادلِ نخواستہ اس ایک سائنسداں پر ہاتھ ڈالنا پڑ گیا۔کیونکہ وہ صرف ایک ہی تھا۔دوسرا کوئی بھی نا تھا۔بخدا دوسرا کوئی نا تھا۔

جب اتنے سارے افغان پناہ گزین ، بنگالی و سری لنکن کارکن، ایرانی منحرفین ، ازبک و چیچن و عرب و افریقی جنگجو آ رہے ہوں جا رہے ہوں۔جب ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل قاتل، اشتہاری اور غبن کار امیگریشن کے عملے پر ’’ دم دلا دور کڑک پنچھی رفت‘‘ کا دم پڑھ کر ملک سے فرار ہوجاتے ہوں۔جب اربوں روپے کی زمین ایک دن ہوتی ہے اور دوسرے دن نہیں ہوتی۔جب اربوں روپے کے قرضے نا جاتے اور نا ہی آتے دکھائی دیتے ہوں۔جب اربوں ڈالر کے قرضے اور امداد غیر ترقیاتی بلیک ہول میں گم ہوگئی ہو۔جب اٹھارہ کروڑ میں سے سترہ کروڑ پچاس لاکھ لوگ آ نکھ والوں کی نگاہوں تلے سے ہی غائب ہوگئے ہوں تو صرف انیس ہزار اسلحہ کنٹینروں کی غیابت کا کیا رونا رونا۔۔

مگر ایک بات کی تو داد دینی ہی پڑے گی۔بھلے پکڑے نہیں جاسکے لیکن پورے انیس ہزار گنے ضرور گئے۔بھلے یہ پتہ نا چلے کہ کس کا ہاتھ ہے۔مگر یہ ضرور معلوم ہے کہ خفیہ ہاتھ ہے۔بھلے قابو میں آئے نا آئے لیکن اس کا تعین سو فیصد کر لیا جاتا ہے کہ یہ چوری یقیناً کسی چور کی کارروائی ہے اور اس ڈکیتی کے پیچھے ہو نا ہو کسی ڈاکو کا ہاتھ ہے۔۔تو پھر کاٹ دیجیے ایک اور ایف آئی آر نامعلوم ملزمان کے خلاف کہ جنہوں نے انیس ہزار کنٹینرز غائب کردیے…

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے  bbcurdu.comپر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔