ہمیں مکالمے کی ضرورت ہے

جاوید چوہدری  پير 2 ستمبر 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

یکم ستمبر ازبکستان کا قومی دن تھا‘ یہ ملک یکم ستمبر 1991ء کو آزاد ہوا تھا‘ یہ لوگ 31 اگست کی شام آزادی کی تقریبات شروع کرتے ہیں‘ اہم ترین تقریب تاشقند میں ہوتی ہے‘ صدر اسلام کریموف تقریب کا آغاز کرتے ہیں‘ یہ تقریب تاشقند کے سب سے بڑے پارک میں ہوتی ہے‘ میں اس تقریب میں شرکت کے لیے تاشقند آیا تھا‘ ہم نے31 اگست کی شام چھ بجے تقریب کی جگہ پہنچنا تھا‘ ہمارے کارڈز پر لکھا تھا آپ اپنے ساتھ موبائل فون‘ پرس‘ کیمرہ اور چابیاں نہ لائیں لہٰذا ہمارے پاس پاسپورٹ اور کارڈ کے علاوہ کچھ نہیں تھا‘ گاڑیاں پانچ کلو میٹر دور روک لی گئیں‘ سیکیورٹی کے پہلے حصار پر ہمارے پاسپورٹ اور دعوتی کارڈ چیک کیے گئے‘ ازبکستان میں شناختی کارڈ نہیں ہوتے‘ شہریوں کو بالغ ہونے پر پاسپورٹ جاری کر دیے جاتے ہیں‘ یہ پاسپورٹ لوگوں کا شناختی کارڈ ہوتا ہے اور یہ اسے ہر جگہ بطور شناختی کارڈ استعمال کرتے ہیں۔

آج سے چند سال پہلے تک بچوں کے نام اور تفاصیل ماؤں کے پاسپورٹ پر درج ہوتی تھیں لیکن حکومت اب بچوں کو بھی پاسپورٹ جاری کر دیتی ہے تاہم کوئی ازبک شہری پاسپورٹ پر بیرون ملک سفر نہیں کر سکتا‘ شہریوں کو غیر ملکی سفر سے قبل رجسٹریشن آفس جانا پڑتا ہے اور وہاں سے پاسپورٹ پر غیر ملکی سفر کے لیے اجازت کی مہر لگوانی پڑتی ہے‘ اس قانون کی وجہ سے یہ دنیا میں جس جگہ جاتے ہیں ازبکستان حکومت ان سے واقف ہوتی ہے‘ حکومت شہریوں کے بارے میں تمام ہدایات بھی اس پاسپورٹ پر درج کر دیتی ہے‘ آپ اگر شادی شدہ ہیں تو آپ کے پاسپورٹ پر شادی کی باقاعدہ مہر لگے گی اور آپ اور آپ کے خاوند کے بارے میں اس پر تفصیلات درج ہوں گی اور آپ اگر طلاق یافتہ ہیں تو اس کی تفصیل بھی پاسپورٹ پر درج ہو گی‘ ازبک پاسپورٹ بنیادی طور پر پاسپورٹ نہیں‘ یہ معاشرتی نامہ اعمال ہے اور اس کی وجہ سے شہریوں کا ہر جھوٹ پکڑا جاتا ہے۔

میں نے اور ڈاکٹر رازق داد نے پاسپورٹ اور دعوتی پاس دکھا کر سیکیورٹی کا پہلا حصار عبور کیا‘ پولیس اور فوج نے گاڑیاں لگا کر پورا علاقہ ٹریفک اور آمد و رفت کے لیے بند کر دیا تھا‘ شرکاء کے لیے شٹل سروس کا بندوبست تھا‘ لوگ منی بسوں پر بیٹھ کر پارک کے قریب پہنچے‘ وہاں سکینر لگے تھے‘ ہمارا پاسپورٹ اور کارڈ دوبارہ چیک ہوا‘ ہم سکین کیے گئے اور اس کے بعد دو کلو میٹر سفر طے کر کے تیسرے حصار تک پہنچے‘ وہاں بھی پاسپورٹ اور کارڈ چیک ہوا اور ہماری جسمانی تلاشی بھی ہوئی‘ اس کے بعد سیکیورٹی کا چوتھا‘ پانچواں اور چھٹا حصار آیا اور اس پر بھی ہماری باریک بینی سے تلاشی ہوئی‘ تقریب میں شریک ہونے والا ہر شخص اس عمل سے گزرا‘ یہاں تک کہ ہم تقریب کے مقام پر پہنچ گئے۔

تقریب کے مقام پر لوہے کے بلند پائپوں پر لوہے کی مچانیں بنا کر عارضی اسٹیڈیم بنایا گیا تھا‘ ہر نشست مارک تھی اور ہر قطار کے آخر میں سیکیورٹی کے لوگ بیٹھے تھے‘ اسٹیڈیم میں دس ہزار لوگ تھے مگر ہر طرف ڈسپلن اور صفائی دکھائی دیتی تھی‘ لوگ سوٹ بوٹ پہن کر آئے تھے‘ خواتین نے بھی بہترین اور صاف ستھرے کپڑے پہن رکھے تھے‘ اسٹیڈیم میں پانی اور کھانے پینے کی اشیاء لے جانے کی ممانعت تھی چنانچہ وہاں کوئی شخص منہ ہلاتا یا کھاتا پیتا دکھائی نہیں دیا‘ اسٹیڈیم میں چاروں طرف بڑی بڑی سیکرینیں اور ہیوی لائیٹس لگی تھیں‘ کیمروں کا بندوبست بھی تھا اور تمام چینلز تقریب کی لائیو کوریج بھی کر رہے تھے‘ اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوان ‘ بچیاں اور بچے مختلف ثقافتی لباس پہن کر کھڑے تھے‘ شام آہستہ آہستہ رات کی طرف بڑھ رہی تھی‘ سورج مغرب کی گود میں گم ہو رہا تھا‘ شام ساڑھے سات بجے جوں ہی سورج کی آخری کرن نے رات میں پناہ لی‘ سیکڑوں نوجوان لوہے کے پندرہ پندرہ فٹ بلند پائپوں پر جھنڈے لہراتے ہوئے اسٹیڈیم میں داخل ہو گئے۔

اس کے ساتھ ہی صدر اسلام کریموف بھی اسٹیڈیم میں داخل ہوئے اور تمام شرکاء نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا‘ تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا‘یہ تقریب اسلامی ممالک کے برعکس صدر کی تقریر سے شروع ہوئی‘ ہم لوگ اپنی سرکاری تقریبات کا آغاز ہمیشہ تلاوت قرآن پاک سے کرتے ہیں مگر ازبک حکومت شاید یہ تکلف نہیں کرتی چنانچہ یہ تقریب صدارتی خطاب سے شروع ہوئی‘ صدر اسلام کریموف نے خطاب شروع کیا اور اس کے بعد اٹھک بیٹھک کا عجیب سلسلہ شروع ہو گیا‘ صدر کی تقریر کے ہر پیرا گراف کے بعد تمام شرکاء نشستوں سے کھڑے ہوتے اور دیر تک تالیاں بجاتے اور صدر جب تک اگلا پیرا گراف شروع کرتے شرکاء تالیاں بجاتے رہتے‘ صدر جوں ہی اگلا پیرا گراف شروع کرتے شرکاء تالیاں بجانا بند کرتے اور نشستوں پر بیٹھ جاتے‘ صدردو منٹ بعد دوبارہ خاموش ہوتے اور تمام شرکاء نشستوں پر کھڑے ہو کر تالیاں بجانا شروع کر دیتے‘ یہ سلسلہ آدھ گھنٹہ جاری رہا یہاں تک کہ صدر کی تقریر ختم ہوئی اور شرکاء نے دیر تک تالیاں بجا کر ان کا شکریہ ادا کیا‘ میرے لیے صدر کی تقریر پر بار بار کھڑا ہونا انوکھا تجربہ تھا‘ صدر کی تقریر کے بعد قومی ترانہ بجایا گیا۔

اس کی دھن اور بعض الفاظ پاکستانی ترانے سے ملتے جلتے ہیں‘ مجھے دھن کے اکثر مقامات پر پاک سرزمین شاد باد کا گمان ہوا‘ یہ شاید اردو اور ازبک زبان کے صوتی اشتراک کی وجہ سے تھا‘ اردو زبان میں ہزاروں ازبک الفاظ موجود ہیں اور ان میں سے چند لفظ ہمارے اور ازبک ترانے میں بھی ہیں‘ ترانے کے بعد آزادی کی تقریب شروع ہوئی‘ غبارے چھوڑے گئے‘ غباروں کے ساتھ کپڑوں کی لمبی پٹیاں بندھی تھیں‘ یہ پٹیاں فضا میں خوبصورت رنگین لکیریں بنا رہی تھیں‘ اسٹیڈیم میں مختلف بینڈز اور طائفے آتے رہے اور اپنی پرفارمنس دیتے رہے‘ یہ طائفے ازبکستان کی مختلف ثقافتوں کی نمایندگی کر رہے تھے‘ حکومت نے اٹلی کے کسی مشہور بینڈ کو خصوصی دعوت دے رکھی تھی‘ اس بینڈ نے شائقین کو مبہوت کر دیا‘ ان کی پرفارمنس ختم ہوئی تو لوگوں نے نشستوں پر کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں‘ اسٹیڈیم میں نوجوان لڑکیاں‘ لڑکے اور بچے خوبصورت ازبک لباس پہن کر ناچ رہے تھے‘ موسیقی کی لے بلند ہوتی تھی تو پورا اسٹیڈیم ہاتھ ہلانے لگتا تھا‘ لوگوں نے تقریب کے درمیان میں کرسیوں سے اٹھ کر ناچنا شروع کر دیا‘ میرے آگے ایک خاندان بیٹھا تھا‘ خاندان میں نوجوان لڑکیاں اور لڑکے شامل تھے‘ ان کی ماں بار بار انھیں اٹھنے اور اٹھ کر ناچنے کا حکم دے رہی تھی مگر بچے شرما جاتے تھے یہاں تک کہ ماں نے انھیں گھورنا شروع کر دیا۔

وہ ماں کی ناراضی سے پریشان ہو کر اٹھے‘ نشستوں کا بلاک عبور کر کے کھلی جگہ پر پہنچے اور موسیقی کی لے پر ناچنا شروع کر دیا‘ انھیں دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اٹھے اور وہ بھی ان میں شامل ہو گئے‘ آخر میں بچوں کی ماں اور والد بھی ان میں شامل ہو گئے‘ میں نے غور کیا تو لوگ نشستوں کے تمام بلاکس میں کھڑے ہو کر ناچ رہے تھے‘ ہم لوگ بھی سیٹ سے اٹھ کر آگے گئے وہاں سے ازبک صدر اور ان کی کابینہ دکھائی دے رہی تھی‘ ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے‘ ازبک صدر اپنی پوری کابینہ کے ساتھ ناچ رہے تھے‘ اب منظر کچھ یوں تھا صدر اور ان کی کابینہ ناچ رہی تھی‘ اسٹیڈیم میں موجود نصف سے زائد لوگ ناچ رہے ہیں‘نشستوں پر بیٹھے لوگ ٹانگیں اور بازو ہلا رہے ہیں جب کہ اسٹیڈیم کے درمیان فنکار اچھل کود کر رہے ہیں اور فضا میں اس سارے عمل کے دوران غبارے چھوڑے جا رہے ہیں اور روشنیوں سے آسمان پر تصویریں بنائی جا رہی ہیں۔

رقص کے اس سلسلے کے آخر میں آتش بازی شروع ہو گئی‘ آسمان آتشی رنگوں سے رنگین ہو گیا‘ اسٹیڈیم کے دائرے میں موجود توپ نما مشینیں آن ہوئیں اور ان میں سے چمکیلے کاغذوں کی چھوٹی چھوٹی پتیاں نکلنے لگیں‘ پتیوں نے چند لمحوں میں پورے اسٹیڈیم کو ڈھانپ لیا‘ اب وہاں موسیقی تھی‘ دس ہزار ناچتے ہوئے مرد و زن‘ بچے اور بوڑھے تھے‘ آسمان پر آتش بازی کے آتشیں رنگ تھے‘ لرزتی کانپتی روشنیاں تھیں اور کاغذ کی کھربوں تتلیاں تھیں اور پھر آخری لمحہ آ گیا‘ موسیقی نے آخری سانس لی اور اناؤنسر نے تقریب کے خاتمے کا اعلان کر دیا‘ شرکاء خاص نظم و نسق کے ساتھ اٹھے اور واپسی کا سفر شروع ہو گیا‘ آتے ہوئے کوئی ہڑبونگ مچی اور نہ ہی جاتے ہوئے کسی نے کسی کو دھکا دیا‘ پوری تقریب عزت اور آبرو کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی۔

ہم ازبکستان کے قومی دن کی تقریب سے واپس آتے ہوئے پاکستان کی وہ تمام تقریبات یاد کر رہے تھے جو ہم نے بچپن اور جوانی میں دیکھی تھیں‘ ہم ہر سال 23 مارچ اور 14 اگست کا دن جوش اور جذبے سے منایا کرتے تھے‘ 23 مارچ کو اسلام آباد میں مارچ ہوتا تھا‘ افواج پاکستان صدر کو سلامی پیش کرتی تھیں مگر پھر دہشت گردی کے خوف سے یہ تقریب ختم کر دی گئی‘ ہم 14 اگست کو عید کی طرح مناتے تھے‘ بچے پاکٹ منی جمع کر کے جھنڈے اور جھنڈیاں خریدتے تھے‘ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں جشن آزادی منایا جاتا تھا‘ جلوس نکلتے تھے‘ جلسے ہوتے تھے اور قومی نغمے گائے اور سنائے جاتے تھے‘ اسلام آباد میں بڑی تقریب ہوتی تھی‘ صبح کے آٹھ بجے ٹریفک روک دی جاتی تھی‘ جھنڈا لہرانے کی تقریب ہوتی تھی۔

قومی ترانہ بجایا جاتا تھا اور اس کے بعد ملی نغموں کا مقابلہ ہوتا تھا مگر ہم سے یہ خوشیاں چھن گئیں اور وزیراعظم اب وزیراعظم ہاؤس میں پولیس اور فوج کے کڑے پہرے میں پرچم لہراتے ہیں‘ کنونشن سینٹر کے محفوظ مورچے میں زبردستی بٹھائے ہوئے لوگوں کے سامنے بیس سال پرانی تقریر کرتے ہیں اوربس تقریب ختم‘ ہم اب آتش بازی کرتے ہیں اور نہ ہی جشن مناتے ہیں‘ موسیقی اور لوک رقص گناہ بن چکا ہے‘ ازبک صدر ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں ناچ رہا تھا اور پوری قوم ٹیلی ویژن پر اسے ناچتے دیکھ رہی تھی اور ہم لوگ سوچ رہے تھے کیا ہمارے صدر یا وزیراعظم یہ جسارت کر سکتے ہیں‘ ناچنا تو دور یہ لوگ اگر کسی لوک فنکار سے ہاتھ ملا لیں یا یہ اس کی تعریف کر دیں یا اپنی کرسی سے اٹھ کر کسی فنکار کا استقبال کر لیں تو شاید قوم انھیں سنگ سار کر دے مگر حضرت امام بخاریؒ اور امام ترمذیؒ کی سرزمین کا صدر اپنی پوری کابینہ کے ساتھ اسٹیڈیم میں سرے عام ناچ رہا تھا‘ قوم گا کر‘ ناچ کر آزادی کا جشن منا رہی تھی اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا‘ ہمارے بچپن میں تمام شہروں میں میلے لگتے تھے‘ میلوں میں لوک فنکار فن کا مظاہرہ کرتے تھے‘ ملک کے تمام چائے خانوں‘ بسوں اور وینوں میں پاکستانی گلو کاروں کے گانے چلتے تھے‘ درگاہوں پر قوالیاں ہوتی تھیں اور اسکولوں‘ کالجوں میں بیت بازی‘ موسیقی اور گلوکاری کے مقابلے ہوتے تھے‘ کالجوں میں ڈرامیٹک کلب اور بزم ادب ہوتی تھیں مگر ہم نے یہ سارا کلچر برباد کر دیا‘ اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ آج شادی بیاہ کی تقریبات سے لے کر فوجی بینڈ تک بھارتی دھنیں بجاتے ہیں‘ کیا یہ ہمارا قومی مقصد تھا؟

دنیا سعودی عرب سمیت شدت سے توازن کی طرف بڑھ رہی ہے‘ ریاض میں ہر سال جنادریہ کا میلہ ہوتا ہے‘ جس میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جو ہمارے ملک میں بیس تیس سال پہلے ہوتا تھا مگر ہم معاشرے کو اس سطح پر لے آئے ہیں جس میں اب ہر شخص کا اپنا اسلام ہے اور وہ اپنے ذاتی اسلام کو دوسروں پر نافذ کرنا عین عبادت سمجھتا ہے اور جو اس کا ذاتی اسلام قبول نہیں کرتا وہ اسے قابل گردن زنی سمجھتا ہے‘ دنیا کھل رہی ہے‘ یہ برداشت بڑھا رہی ہے‘ یہ آرٹ اور کلچر کی طرف بڑھ رہی ہے مگر ہم اسے غاروں کی طرف دھکیل رہے ہیں‘ ہم اسے بنیاد کے ان پتھروں کی طرف لے جا رہے ہیں جن سے نکلنے کے لیے انسان کو دس ہزار سال لگ گئے تھے‘ میں ہرگز ہرگز یہ نہیں کہتا ہم غلط ہیں‘ ہو سکتا ہے ہمارا نظریہ سو فیصد درست ہو مگر سوال یہ ہے اگر یہ درست ہے تو پھر آج 67 سال بعد اس کے نتائج اتنے بھیانک کیوں نکل رہے ہیں؟ ہم آج اپنے ہی لوگوں کے گلے کیوں کاٹ رہے ہیں‘ ہمارے معاشرے کو توازن اور مکالمے کی جتنی ضرورت آج ہے‘ اتنی کبھی نہیں تھی لہٰذا آئیے بات کریں‘ مکالمہ کریں‘ اس سے راستے کھلیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔