پاکستان کے مثبت اقدام کے باوجود بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے باز نہ آیا

ویب ڈیسک  جمعرات 13 جون 2019
پاکستان نے بھارت کی درخواست قبول کرکے مودی کے طیارے کو فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی تھی، فوٹو: فائل

پاکستان نے بھارت کی درخواست قبول کرکے مودی کے طیارے کو فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی تھی، فوٹو: فائل

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کی جانب سے فضائی حدود استعمال کرنے کے مثبت اقدام پر روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام آباد کی فراخ دلی کو نظر انداز کردیا۔

تنگ نظر بھارتی وزیراعظم کو پاکستان کا بڑا پن ایک آنکھ نہ بھایا، پاکستان کی جانب سے مودی کو فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت ملنے کے باوجود بھارتی وزیراعظم نے اس پیشکش کو مسترد کردیا۔

کرغزستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے نئی دہلی حکومت نے بھارتی وزیراعظم کا طیارہ پاکستان کی حدود سے گزر کر بشکیک جائے نے کے لیے  طیارے کو پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ پاکستان نے غور و خوض کے بعد بھارت کی درخواست قبول کرکے مودی کے طیارے کو فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی۔

پاکستان کے مثبت اقدام پر بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بشکیک کے لیے پاکستان سے وسط ایشیائی ملک کے لیے براہ راست راستہ اپنانے کی بجائے طویل فاصلے کے روٹ کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔

بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم مودی کے بشکیک کے لیے 2 آپشن موجود ہیں، ایک روٹ پاکستان اور دوسرا اومان ،ایران کا، حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وی  وی آئی پی فلائٹ کے لیے اومان ،ایران کا لمبا فضائی راستہ اختیار کیا جائے گا۔

واضح فروری میں پاک بھارت کشیدگی کے بعد پاکستان نے اپنی فضائی حدود بھارت کے لیے بند کردی تھی جس سے بھارت کو روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ دہلی سے ایمسٹر ڈیم اور یورپ کے دیگر شہروں کی پرواز کے دورانیے میں22فیصد اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے بھارتی ایئرلائنز کو اوسطاً 913کلومیٹر زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑرہا ہے۔

طویل پروازوں کے سبب ہونے والے اخراجات کے باعث بھارتی ایئرلائن جیٹ ایئر اپنے طیارے گراؤنڈ کرچکی ہے یہاں تک کہ اسٹاف کو تنخواہوں کی ادائیگی سے بھی قاصر ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے بشکیک پہنچ چکے ہیں تاہم اس دوران ان کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کا امکان نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔