ایک ادیب، ایک کردار کی موت انور سجاد

مبین مرزا  اتوار 16 جون 2019
انور سجاد ایک ہمہ جہت فن کارانہ شخصیت کے مالک تھے۔ فوٹو: فائل

انور سجاد ایک ہمہ جہت فن کارانہ شخصیت کے مالک تھے۔ فوٹو: فائل

انور سجاد صاحب نے بھی 6 جون 2019ء کو داعیِ اجل کو لبیک کہا اور راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ وہ ہماری ادبی دنیا کے ان لوگوں میں تھے جن کی زندگی اور ادبی کارگزاری پیشِ نظر ہو تو بجا طور پر کہا جاسکتا ہے:

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

ایک عرصے سے وہ علیل تھے اور بالکل خانہ نشین ہوکر رہ گئے تھے۔ ادبی، فنی اور سماجی روابط سے یوں تو انھیں زندگی بھر کوئی خاصا سروکار نہیں رہا، اور انھوں نے خود کو ہمیشہ ایک محدود دائرے میں رکھنا ہی پسند کیا، لیکن علالت کے اس زمانے میں تو وہ اس تنہائی کا شکار بھی ہوئے جو ہمارے یہاں گوشہ نشین ہوجانے والے ادیبوں اور فن کاروں کا مشترک اور ناگزیر تجربہ ہے۔

انور سجاد ایک ہمہ جہت فن کارانہ شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے ادب کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ کے دوسرے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی وڑن کے لیے نہ صرف اعلیٰ درجے کے ڈرامے لکھے، بلکہ ٹی وی اسکرین پر اداکار کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا۔ اسی طرح ایک زمانے میں فن کارانہ پیاس انھیں رقص کے شعبے میں لے گئی۔ انھوں نے اس فن کی باضابطہ تعلیم و تربیت حاصل کی۔ مصوری ان کے شوق و ذوق کی ایک اور اہم جہت تھی۔

انھوں نے دنیا کے بڑے مصوروں خصوصاً عہدِجدید کی مصوری کا نہ صرف گہرا مطالعہ کیا، بلکہ خود بھی اس شعبے میں اپنے ہنر کو حسبِ مقدرت آزمایا۔ افسانے اور ناول کی طرح مصوری کے فن میں بھی ان کا پیرایۂ اظہار علامتی اور تجریدی اسالیب کا حامل رہا۔ ان کی ادبی و فنی زندگی کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہ یک وقت مختلف شعبوں میں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے باوجود انور سجاد ہمیں کہیں بھی ماند پڑتے یا اپنی ایک خاص سطح سے گرتے ہوئے محسوس نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس انھوں نے جس پیرائے کو اختیار کیا اور جس اسلوب میں اظہار کیا، ان کا فن کارانہ جوہر اْس میں سرخ رو نظر آتا ہے۔

کم و بیش پینتیس برس اُدھر کی بات ہے جب انور سجاد صاحب سے ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ یہ گذشتہ صدی کی نویں دہائی کے وسط کا دور تھا۔ وطنِ عزیز پر ضیائی آمریت مسلط تھی اور ابھی تک اس کا زور نہیں ٹوٹا تھا۔ سیاسی کارکنوں پر ہی نہیں، صحافیوں اور ادیبوں شاعروں پر بھی صبح و شام جبر کے سائے منڈلاتے اور وحشت و خوف کی ہوائیں چلتی تھیں۔ جبر و استحصال کے اسی دور میں انور سجاد بھی اپنے ریڈیکل خیالات اور باغیانہ مزاج کی وجہ سے قید و بند کاٹ آئے تھے۔ کہا جاسکتا ہے کہ جب ان سے ہماری صاحب سلامت کا سلسلہ? آغاز ہوا اْس وقت تک وہ اپنی زندگی کے بیشتر بڑے بڑے کام کرچکے تھے۔

افسانہ نگار کی حیثیت سے تو وہ پچاس کی دہائی میں ہی پہچان حاصل کرچکے تھے، لیکن ستر کی دہائی کے آخری برسوں میں ان کے ناول ’’خوشیوں کا باغ‘‘ نے ناول نگار کے طور پر بھی انھیں مستحکم شناخت عطا کردی تھی۔ اس ناول کی داد دینے والوں میں اگر پاکستان میں زاہد ڈار، صفدر میر، مظفر علی سیّد، خالدہ حسین اور فتح محمد ملک جیسے لوگ تھے تو دوسری طرف ہندوستان میں شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی، سریندر پرکاش، بلراج مین را، وہاب اشرفی اور صغیر افراہیم جیسے لوگ بھی شامل تھے۔

اس کے علاوہ مترجم کی حیثیت سے ان کے تعارف کے لیے عمانوئیل کریکووچ کا مختصر ناول ہی کافی تھا جسے انھوں نے ’’نیلی نوٹ بک‘‘ کے عنوان سے اردو کے قالب میں ڈھالا تھا۔ یہی نہیں، بلکہ وہ ایک زیرک نقاد اور دانش ور کے طور پر بھی اپنا ایک تأثر قائم کرچکے تھے۔ اس تأثر کی بنیاد اُن کے چند ایک ناقدانہ مضامین کے علاوہ ٹی وی پر حلقۂ اربابِ ذوق اور ادبی تقاریب میں کی گئی گفتگوئیں تھیں جن میں انھوں نے اپنے نظریاتی افکار اور تجزیاتی صلاحیت کا پورا پورا مظاہرہ کیا تھا۔ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’تلاشِ وجود‘‘ اگرچہ اس وقت تک شائع نہیں ہوا تھا۔ غرضے کہ ہماری عمر کے لوگوں کا انور سجاد سے تعارف ایک نہیں، کئی ایک حوالوں سے بہ یک وقت ہوا تھا اور ان میں ہر حوالہ اپنا ایک تأثر رکھتا تھا۔

اس دور کے کئی بڑے ادیبوں کی طرح انور سجاد صاحب سے بھی ہماری پہلی ملاقات پاک ٹی ہاؤس میں ہوئی تھی۔ یہ ایک مختصر سی، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جھٹپٹے کی ملاقات تھی۔ وہ زمانہ تھا جب پاک ٹی ہاؤس کی مرکزی حیثیت پوری طرح قائم تھی۔ ادب، صحافت اور فن کی دنیا کے کتنے ہی بڑے چھوٹے لوگ یہاں آیا کرتے تھے۔ ہم نے اور ہمارے ہم جلیسوں نے اپنی ادبی زندگی کے اوائل میں پاک ٹی ہاؤس کو ادب و فن کے صدر کے طور پر دیکھا تھا۔ اْس وقت ہماری عمر کے لوگ یوں ہی منہ اٹھا کر ٹی ہاؤس جانے کی ہمت نہیں کرتے تھے۔ اکیلے جانے کا تو سوال ہی نہ تھا، پہلی دوسری بار تو ضرور کوئی نہ کوئی سنیئر ہی ساتھ لے کر جاتا یا کم سے کم وہاں آنے کی دعوت دیتا تو کسی جونیئر کے پاک ٹی ہاؤس کی طرف قدم اٹھتے تھے۔

خیر، جب ہماری انور سجاد سے ملاقات ہوئی تو اس وقت تک ہم ٹی ہاؤس خود سے آنے جانے لگے تھے۔ اس روز بھی، ہم وہاں انتظار حسین صاحب سے ملنے کے لیے پہنچے تھے۔ انتظار صاحب ابھی نہیں آئے تھے۔ دیکھا کہ انور سجاد اچانک ہوا کے گھوڑے پر ٹی ہاؤس میں داخل ہوئے۔ قدرے تمکنت سے ایک اچٹتی ہوئی نظر اِدھر اُدھر ڈالی اور پھر صفدر میر صاحب کی میز پر جابیٹھے۔ ہم نے ذرا ہمت باندھی اور جاکر انھیں سلام کیا۔ انھوں نے خندہ پیشانی اور بے نیازی کے ملے جلے سے انداز میں جواب دیا۔ عرض کیا کہ ہم آپ کو پڑھتے اور ٹی وی پر دیکھتے رہتے ہیں۔ ملنے کے خواہش مند تھے اور اس اچانک ملاقات پر بہت خوش ہیں۔ اس بیان پر انور سجاد صاحب کی بے نیازی یک دم تقریباً ختم ہوگئی اور وہ زیادہ خندہ پیشانی سے متوجہ ہوئے اور بولے، ’’ینگ مین! پڑھنا تو بہت ضروری ہوتا ہے، لیکن یہ بتاؤ کہ خود بھی کچھ لکھتے ہو؟‘‘

بس اب کیا تھا۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ ہم نے ایک ہی سانس میں اپنے تخلیقی کارنامے گنا کر رکھ دیے۔

انور سجاد مسکرائے اور پوچھا، کن ادبی پرچوں میں چھپتے ہو؟

ہم نے سینہ چوڑا کرکے کہا، ’’فنون، ’’اوراق‘‘، ’’ماہِ نو‘‘، فلاں، فلاں اور فلاں بھی۔

انور سجاد کی مسکراہٹ یک لخت سمٹ گئی اور وہ تیزی سے بولے، ’’زیادہ چھپنا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی، بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ زیادہ چھپنا لکھنے والے کو خراب کرتا ہے۔ اس عمر میں آدمی کو چھپنے کا شوق زیادہ ہوتا ہے، ضرور چھپو، لیکن کم اور صرف اچھے پرچوں میں، مثلاً۔۔۔۔‘‘ ان کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ انتظار حسین پاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوئے۔ اُن کی نگاہ انور سجاد پر شاید سب سے پہلے پڑی اور وہ اسی میز پر آگئے، اور بس اس کے بعد تو جیسے آن کی آن میں ماحول بالکل ہی بدل گیا۔

انتظار حسین کو دیکھ کر پہلے تو انور سجاد کی تیوری پر بل پڑے اور جب وہ اسی میز پر آبیٹھے تو کسی تمہید یا تنبیہ کے بغیر آناً فاناً انور سجاد راشن پانی لے کر اُن پر چڑھ دوڑے۔ پھر دیکھنے والوں نے بڑے تعجب سے دیکھا کہ وہ انتظار صاحب کو کھری کھری سنا رہے تھے۔ اس وقت ٹی ہاؤس میں بہت رش تو نہیں تھا، لیکن جو لوگ بھی تھے سب کے سب اسی میز پر ہونے والی عالمی جنگ کی طرف متوجہ تھے۔ انور سجاد کے لہجے کی تندی و تیزی تھی کہ تھمنے میں ہی نہ آتی تھی۔ انتظار صاحب ’’میرے عزیز، تم کسی کے بھرے میں آگئے ہو‘‘، ’’یار میں نے ایسا کیا لکھ دیا‘‘، ’’تم کیوں بپھرے پڑتے ہو، کوئی بات کہی گئی ہے تو اس کا جواب دے دو‘‘، ’’ارے یار، وہ تو ایک کالم کی بات ہے اور کالم کی بات آئی گئی‘‘ جیسے فقرے کہہ کر انھیں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہے تھے، لیکن انور سجاد کو نہ ٹھنڈا ہونا تھا اور نہ وہ ہوئے۔ خیر، اس اثنا میں صفدر میر صاحب بھی اس مسئلے کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے۔ اب انھوں نے معاملہ رفع دفع کرانے کی کوشش کی۔

اتنے میں چائے آگئی۔ ویٹر نے معلوم نہیں، صفدر میر یا انتظار حسین کے اشارے پر یا پھر ماحول کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے خود ہی پیالیوں میں چائے انڈیلی اور ان لوگوں کے آگے رکھ دی۔ ماحول کے تناؤ میں کچھ کمی ہوئی، لیکن انتظار حسین نے شاید پھر کوئی فقرہ جڑ دیا اور انور سجاد نے پھر تاؤ کھایا۔ اچھی خاصی گرما گرمی کے بعد جب وہ خاموش ہوئے تو انتظار حسین کی طرف دیکھا اور ایک قہقہہ لگایا۔ یہ بالکل ایسا ہی قہقہہ تھا جیسا ہم نے انگریزی فلموں میں دیکھا سنا تھا۔ اس میں بہ یک وقت فلم کے ہیرو کی تسکین اور ولن کے طنز کا رنگ شامل تھا۔ اس کے بعد وہ اٹھے اور جتنی تیزی سے چلتے ہوئے ٹی ہاؤس میں داخل ہوئے تھے، اسی تیزی سے رخصت ہوگئے۔ یہ تھی انور سجاد سے ہماری پہلی ملاقات، جس کے اختتام پر، بلکہ اس کے بعد بھی بہت دن تک ہم ان کے مزاج کی تیزی اور لہجے کی تندی کو یاد کرتے رہے۔ اس لیے کہ پہلی ملاقات کا سب سے گہرا اور دیرپا تأثر یہی تھا۔

انور سجاد کی طبیعت میں واقعی تیزی تھی۔ یہ تیزی گاہے گاہے وجودی اضطراب کی صورت میں بھی ان کے یہاں نظر آتی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ کسی بھی بات، نکتے، خیال یا احساس کو وہ اپنے وجود اور روح پر بہ یک وقت محسوس کرتے ہیں اور نہایت شدت کے ساتھ۔ ان سے ملتے ہوئے اور بات کرتے ہوئے اکثر یہ لگتا کہ وہ کسی طرح کی عجلت کے دباؤ میں ہیں، جیسے انھیں کسی بات کے کہنے یا کسی کام کے کرنے کی جلدی ہو، اور وہ فوراً ان سے نمٹنا چاہتے ہوں۔ بات کرتے ہوئے بھی وہ عام طور سے اسی کیفیت میں محسوس ہوتے تھے۔ ایک عرصے تک انھیں اسی حال میں دیکھا۔ البتہ زندگی کے آخری برسوں میں یہ کیفیت نمایاں حد تک کم ہوگئی تھی، گو کہ مکمل طور پر ختم تو اب بھی نہیں ہوئی تھی۔

نظریاتی ادیب کیا ہوتا ہے، اس کی ہمارے عہد میں اگر چند ایک بہت اچھی مثالیں پیش کی جائیں تو ان میں ایک نام بلاشبہ انور سجاد کا ہوگا، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا کہ وہ ان میں بھی پہلے درجے کے آدمی تھے۔ ان کی نظریاتی وابستگی ان کے لیے ہمیشہ جینے مرنے کا مسئلہ رہی۔ ہم سب جانتے ہیں، وہ ایک عرصے تک اشتراکیت کے قائل رہے۔ اس کے لیے انھوں نے مسائل کا سامنا بھی کیا، یہاں تک قیدوبند کی صعوبت بھی اٹھائی، لیکن اپنے نظریاتی رشتے پر انھوں نے کوئی سمجھوتا کیا اور نہ ہی اس کے اظہار سے کبھی خراب سے خراب تر صورتِ حال میں بھی چوکے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جب وہ اشتراکیت کے زیرِاثر تھے، روس کے سیاسی نظام اور لینن اور مارکس کو دنیا کی نجات کا ذریعہ سمجھتے، بلکہ زورشور سے اس کا اظہار اور مبالغے کی حد تک اس پر اصرار کرتے تھے۔

اس دور میں بھی بہت سے روشن خیال ادیبوں اور دانش وروں کی طرح ہم نے انھیں مذہب دشمنی کی طرف مائل نہیں دیکھا۔ وہ مذہب کے ان نمائندوں سے تو ضرور شاکی نظر آتے جو مذہب کو بعض دوسرے اہداف کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ وہ ان کی دنیا داری کی بڑے سخت لفظوں میں ملامت کرتے، لیکن مذہب کو رد نہ کرتے۔ البتہ ابتدا میں ہمیں کچھ ایسا تأثر ملا جیسے وہ وجودِ باری کے کچھ ایسے قائل نہیں ہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت، کردار اور تعلیمات کے معاملے میں وہ ہمیشہ ادب آداب کا لحاظ رکھتے۔ بعدازاں جب ان سے قدرے بے تکلفی کے مراسم ہوگئے تو ہم نے ایک بار اس کا اظہار بھی کیا تھا۔ انھوں نے فی الفور اس تأثر کی تردید کی اور ایمانیات کے سلسلے میں اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا جیسے ایک راسخ العقیدہ شخص کرتا ہے۔ اللہ کے قادرِ مطلق ہونے، رسول ﷺ کی محبت اور اہلِ بیتؓ سے اپنے تعلقِ خاص کا انھوں نے برملا اقرار کیا۔

گذشتہ صدی کی آخری دہائی میں تو وہ مذہب کی طرف خاصے مائل ہوگئے تھے۔ اب ان کی گفتگو میں مذہبی تعلیمات اور صوفیا کے حوالے بھی آتے تھے۔ اس زمانے میں مسلمانانِ عالم خصوصاً پاکستان کے عوام اور سماج کی اصلاح اور ترقی کے لیے وہ مذہب کو ناگزیر تقاضا گردانتے تھے۔ دل و نظر کی اس تبدیلی میں ایک کردار یقیناً ان کی طبیعت کی تندی کا بھی رہا ہوگا۔ تاہم انصاف کی بات یہ ہے کہ وہ ایک دیانت دار دانش ور اور باکردار ادیب تھے۔ وقت اور زندگی نے، ان کے مشاہدات اور تجربات نے انھیں جو کچھ دکھایا، سجھایا اور سمجھایا، انھوں نے برملا اس کا اظہار کیا۔ جس دور میں ان کے یہاں مذہب کا نام تک نہیں آتا تھا، اس وقت بھی وہ ایک سچے ادیب تھے اور جب وہ مذہب پسند نظر آنے لگے تو اس زمانے میں بھی یہ ان کی فطرت کے داعیے کا اظہار تھا۔ انھوں نے عمر کے ہر دور میں اپنے افکار، خیالات اور ادبی نگارشات کو اپنے ضمیر کی آواز سے روشن رکھا، اور بلاتکلف اس کا اظہار بھی کیا۔

کراچی آجانے کے بعد انور سجاد سے ہمارا رابطہ خاصا کم ہوگیا۔ کچھ تو زندگی کے اپنے تھکا دینے والے تقاضے اور کچھ اس دور کے اپنے مسائل بھی تھے۔ سوشل میڈیا کا تو خیر تصور ہی نہ تھا، فون پر بھی رابطے کی سہولت ایسی نہ تھی۔ لمبے لمبے وقفوں میں کبھی کبھار خیر خیریت اور سلام دعا کا تبادلہ ہوتا۔ ان کی زندگی کا بھی یہ قدرے مختلف دور تھا۔ وہ ایک اداکارہ سے دوسری شادی کرچکے تھے۔ وہی جسے ٹی پر بڑھانے چڑھانے کے لیے انھوں نے خاصی محنت کی تھی۔ خود بھی اس زمانے میں ٹی وی کے لیے خوب ڈرامے لکھے تھے۔

یہ وہ دور تھا جب ٹی ہاؤس میں بھی ان کا آنا جانا تقریباً ختم ہوگیا تھا۔ دوستوں سے ان کی مسلسل غیرحاضری کی خبر ملتی تھی۔ خیر، پہلے بھی وہ روز کے حاضر باشوں میں تو نہ تھے، لیکن اب تو بالکل ہی غائب ہوگئے۔ پھر جیو ٹی وی قائم ہوا تو اس کے اسکرپٹ کے شعبے سے وابستہ ہوکر وہ بھی کراچی منتقل ہوگئے۔ نئی بیوی بھی یہیں آگئیں۔ خاصے دن بعد ملاقات ہوئی اور وہ بھی شکیل عادل زادہ کے توسط سے۔ انھوں نے ایک پروگرام کے اسکرپٹ کے لیے ہمیں بلایا تھا۔ انور سجاد محبت سے ملے۔ ادب پر اور ادیبوں پر باتیں کرتے رہے۔ ہم سے تفصیل سے ہمارے کاموں کے بارے میں پوچھا۔ اس کے بعد دو ایک ملاقاتیں اور بھی ہوئیں، لیکن پھر بہت دن یوں نکل گئے۔

اب جو ملاقات ہوئی تو لاہور میں الحمرا کے ایک ہال میں ہوئی جہاں ہم دونوں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے پہنچے تھے۔ انھیں دیکھ کر جھٹکا سا لگا۔ یک بہ یک ڈھل گئے تھے۔ عمر چہرے پر، آنکھوں اور لہجے تک میں اتر آئی تھی۔ ہم نے خیریت دریافت کی۔ کہنے لگے، صحت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ علاج چل رہا ہے اور کچھ ٹیسٹ وغیرہ بھی ہورہے ہیں۔ پھر موضوع بدل دیا اور ادب پر بات کرنے لگے۔ بتایا کہ ہمارا ایک مضمون جو معاصر افسانے کے حوالے سے لکھا گیا تھا، اور ’’اسالیب‘‘ میں شائع ہوا تھا، ان کی نظر سے گزرا تھا۔ بڑی کشادہ دلی سے اس کی داد دی۔ اس کے بعد کہنے لگے، آپ نے جن پہلوؤں سے معاصر افسانے کا جائزہ لیا ہے، وہ تو سب کے سب ہنگامہ خیزیِ حیات سے متعلق ہیں۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس دور کی زندگی میں ثبات کے بھی کچھ عناصر ہوں گے۔

عرض کیا ضرور ہوں گے۔ بولے، تو پھر ان پر کیوں نہیں لکھا؟ عرض کیا کہ یقیناً ہیں، لیکن ان سب کا احاطہ بھی اسی مضمون میں کرنے کی کوشش کی جاتی تو مضمون، مضمون نہ رہتا، بلکہ کتاب بن جاتا۔ ہنس دیے۔ بولے، لیکن ان پر بھی لکھیے ضرور۔ ایک الگ مضمون بنالیجیے۔ تعمیلِ ارشاد کی ہامی بھری تو کہنے لگے، آپ کو بہت دن بعد دیکھا تو اندازہ ہوا کہ سر میں سفیدی بہت بڑھ گئی ہے۔ مجھے تشویش ہوئی تھی، لیکن یہ دیکھ کر میں خوش ہوں کہ اس کے ساتھ فرماں برداری پیدا ہوگئی ہے۔ یہ کہہ کر قہقہہ لگایا جس میں ہمیں گئے زمانے کی کھنک محسوس ہوئی تو دل شاد ہوا۔

کراچی میں علاج معالجہ شاید زیادہ کارگر نہیں رہا۔ کچھ نئے ازدواجی رشتے میں بھی وہ بات نہ رہی تھی۔ ایک روز سنا کہ انور سجاد لاہور واپس چلے گئے۔ وہیں پہلی بیوی کے پاس۔ نقاہت بڑھتی گئی تھی۔ ادیبوں شاعروں سے، بلکہ ادب سے بھی وہ ایک مدت سے تقریباً کٹ کر ہی رہ گئے تھے۔ چند ماہ پہلے سنا کہ پریشانی میں ہیں۔ تشویش ہوئی۔ کسی طرح نمبر حاصل کرکے بات کی، مگر ڈھنگ سے بات نہ ہوپائی۔ بہت کوشش کی کہ کچھ بحالی محسوس کریں، کچھ بات کریں۔ گراں گوشی مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ ذہن کی سوئی بھی بار بار اٹکتی تھی۔

کہے جاتے تھے، یار میں بہت بڈھا ہوگیا ہوں۔ اب کچھ یاد نہیں ہے۔ عرض کیا، پرانے دوستوں کا سوچیں، بہت سی باتیں یاد آجائیں گی۔ کہنے لگے، نہیں کچھ یاد نہیں آتا۔ انھیں اس کیفیت میں پاکر دکھ ہوا۔ لاہور میں عزیز دوست امجد طفیل کو فون کیا اور کہا کہ بھائی جاکر دیکھو اور پرسانِ حال رہو۔ شاید کیفیت میں کچھ بہتری آئے۔ سوشل میڈیا پر چند ماہ پہلے اُن کی علامت اور مالی پریشانی کا غلغلہ بلند ہوا۔ کچھ لوگوں نے ان کے پاس جاکر ایسے بیانات بھی ریکارڈ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ لوگوں اور حکومت کی شکایت کریں اور مالی مدد طلب کریں۔ لاحول ولا، لاحول ولا۔ یہ کیسی ہم دردی ہے کہ آدمی کی رسوائی کا سامان کرتی ہے۔

انور سجاد اور نصرت بھابی نے حتی الوسع اپنی سفید پوشی کا بھرم آخری وقت تک رکھا۔ وہ کھرے، وضع دار، بے باک اور باکردار آدمی تھے۔ ان کا نام ہمارے ادب کی تاریخ میں اور محبتیں لوگوں کے دلوں میں تادیر تازہ رہیں گی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔