گلوبل انٹرنیٹ سرحدوں میں قید!

سید بابر علی  اتوار 16 جون 2019
چین و روس مقامی اور خومختار انٹرنیٹ بنانے کے لیے کوشاں۔

چین و روس مقامی اور خومختار انٹرنیٹ بنانے کے لیے کوشاں۔

ویسٹ فیلیا معاہدے کو تاریخ میں نہایت اہمیت حاصل ہے۔24 اکتوبر 1648کو طے پانے والے اس معاہدے سے یورپ کی تاریخ میں ہونے والے سب سے تباہ کن تصادم کا خاتمہ ہوا۔

اس تصادم کا آغاز 1618میں اس وقت ہوا جب آسٹرین Habsburgs (جرمن شاہی خاندان، جس کی بنیاد کائونٹ آف ہپسبرگس البرٹ نے 1153ء میں رکھی، 1440عیسوی سے 1806عیسویں تک ہپسبرگس مقدس رومن ریاست کے بلاشرکت و غیرے بادشاہ رہے اور انہوں نے آسٹریا، اسپین، ہنگری اور بوہیمیا وغیرہ کو حکم راں بھی فراہم کیے) نے بوہیمیا میں پروٹسٹینٹ پر رومن کیتھولزم کو لاگو کرنے کی کوشش کی۔

اس حرکت نے پروٹسٹینٹ کو کیتھولک اور مقدس رومن ریاست کو فرانس کے خلاف کھڑا کردیا، جرمن شہزادوں اور چھوٹی عمل داریوں کے حاکم ایک دوسرے اور بادشاہ کے خلاف اور ہیپس برگس فرانس کے خلاف برسرپیکار ہوگیا۔ تیس سال بعد یورپی تاریخ کی سب سے تباہ کن جنگ کا خاتمہ شمال مغربی جرمنی کے علاقے ویسٹ فیلیا میں ہونے والے معاہدے پر ہوا اور اسی مناسبت سے اس معاہدے کو ’ویسٹ فیلیا معاہدہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے بعد ان یورپی ریاستوں کو خودمختاری حاصل ہوئی۔ ریاستوں کو اپنی حدود کو کنٹرول کرنے اور اس کا دفاع کرنے کے حقوق سے دنیا بھر میں سیاسی نظم و ضبط قائم کرنے کی بنیاد ڈالی گئی، اور یہ اب تک بلا روک ٹوک جاری ہے، لیکن چین، روس اور دنیا کے بہت سے ممالک انٹرنیٹ پر اپنی خودمختاری قائم کرنے کے خواہش مند ہیں۔

2010 میں مختلف ممالک پر مشتمل وفود بشمول شام اور روس نے اقوام متحدہ میں ایک انوکھی درخواست دائر کی، اس عجیب و غریب درخواست میں ڈیجیٹل دنیا میں خود مختار سرحدوں کا تعین کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ خود مختار انٹرنیٹ پالیسی کے مشاورت کار ہیسکل شارپ جو اس وقت ٹیکنالوجی کی ایک بڑی کمپنی Ciscoکے ڈائریکٹر برائے ٹیکنالوجی پالیسی تھے کا اس درخواست کے بارے میں کچھ یوں کہنا ہے ’اقوام متحدہ کو یہ انوکھی درخواست پیش کرنے والے ممالک کا مطالبہ تھا کہ ہر ملک کو اسی طرح ایک مخصوص انٹرنیٹ ایڈریس فراہم کیا جائے جس طرح ہر ملک کو فون نمبرز کے لیے کنٹری کوڈ فراہم کیا گیا ہے‘ اس درخواست پر کئی سالوں کی گفت و شنید کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا، کیوں کہ اس طرح کی سرحدوں سے ان ملکوں کو اپنے شہریوں پر سخت پابندیاں کرنے کی اجازت مل جاتی، جو کہ انٹرنیٹ کی اس بنیادی آزادی کے خلاف ہے۔

جس کے تحت انٹرنیٹ سرحدوں سے ماورا ایسی جگہ ہے جہاں انفرادی طور پر کسی حکومت کا فرمان نہیں چلتا۔ اقوام متحدہ سے خالی ہاتھ لوٹنے والی اقوام اپنی قوم کی اس غلط فہمی کو دور نہیں کرسکیں کہ آپ کیسے اپنے سائبر اسپیس کے کناروں پر ایک دیوار کھڑی کر سکتے ہیں۔ انہوں گذشتہ دہائی صرف اس بات کو ممکن بنانے کے راستے تلاش کرنے میں صرف کی۔ روس پہلے ہی سے ڈیجیٹل سرحدی دیوار تخلیق کرنے کی کوشش میں جتا ہوا ہے، اور رواں سال فروری میں روسی پارلیمنٹ میں دو بل پاس کیے گئے، جس میں روسی انٹرنیٹ کو دنیا کے انٹرنیٹ سے جداگانہ بنانے کے لیے تیکنیکی اور قانونی اقدامات کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ ان بلز کی منظوری کے بعد دارالحکومت ماسکو میں روس کی انٹرنیٹ پالیسیوں کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ روس ان ممالک کی بڑھتی ہوئی تعداد میں سے ہے جو کہ بہت زیادہ مغربی ساختہ اور مغرب سے کنٹرول ہونے والے انٹر نیٹ کی بیک بوں ہیں۔

جب کہ روس کے لیے درحقیقت اس بات کو ممکن بنانے کی پہلی کوشش کرنا بہت مشکل ثابت ہوگا کہ کس معلومات کو ملک میں داخل ہونا چاہیے اور کس معلومات کو نہیں۔ اس تک رسائی ماضی میں کی گئی کوششوں سے بنیادی انحراف ہے۔ روس کی جانب سے ڈیجیٹل سرحدوں کے قیام کی کوششوں پر امریکی تھنک ٹینک ’نیو امریکا فائونڈیشن‘ کے سینئر سائبر سیکیوریٹی تجزیہ کار رابرٹ مورگس کا کہنا ہے ’یہ ایک مختلف چیز ہے، روس کی یہ خواہش دنیا بھر میں انٹرنیٹ کا تسلسل توڑنے کے ساتھ ممکنہ طور پر شمالی کوریا اور ایران کے اعتراضات کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے۔ روس کی یہ خواہش مستقبل میں انٹرنیٹ کی خودمختاری کی ایک جھلک ہے۔

آج جو ممالک ڈیجیٹل ’ویسٹ فیلیانزم‘ کی تلاش میں ہے، وہ آمریت پسندانہ سوچ سے زیادہ کچھ نہیں، اور وہ داخلی طور پر اس کام کو پہلے سے زیادہ گہرائی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ ان کے اس منصوبے کو ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت سے بھی مدد مل رہی ہے، جس سے انہیں بڑھتے ہوئے عالمگیر خدشات لاحق ہورہے ہیں کہ بہرحال اوپن انٹرنیٹ کبھی اس کے آغاز کے لیے ایک اچھا تصور تھا۔ نئے طریقہ کار نے نہ صرف دنیا کے ممالک کے لیے خودمختار انٹرنیٹ بنانے کے امکانات کو بڑھا دیا ہے، بلکہ ایک جیسی سوچ کے حامل ممالک کے درمیان اس کی ساخت کی بنیاد پر متوازی انٹرنیٹ کے قیام پر اتحاد کی راہ ہموار کردی ہے۔

٭اوپن انٹرنیٹ کے ساتھ غلط کیا ہے؟
یہ بات تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ بہت سے ممالک انٹرنیٹ پر حکم رانی کرنے والے مغربی اتحاد سے ناخوش ہیں۔ یہ صرف مغرب کا تائید کردہ فلسفہ نہیں ہے جو کہ ان کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے، بلکہ جس طریقے سے ان فلسفوں کو انٹرنیٹ کی ساخت میں دوسروں کی شکست میں استعمال کیا جاتا ہے، بجائے اس کے کہ اسے عمدگی کے ساتھ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے بنایا جائے کہ کوئی بھی کسی کو کچھ بھی بھیجنے سے تحفظ حاصل نہیں کر سکتا۔ اور اس بات کے لیے انٹرنیٹ کے بنیادی پروٹوکول کا شکر گذار ہونا چاہیے جس پر کام کرنے کے لیے 2012ء میں مختلف ملکوں پر مشتمل وفد نے درخواست جمع کرائی تھی، ٹی سی پی /آئی پی ( ٹرانسمیشن کنٹرول پروٹوکول/انٹرنیٹ پروٹوکول)

معلومات کے بہائو کو کسی خطے یا جغرافیائی حدود کی قید سے آزاد رکھتے ہوئے جاری رہتا ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ، یہ معلومات کہاں بھیجی گئیں، یہ معلومات کس ملک سے آرہی ہیں یا ان معلومات کو وصول کرنے والے ملک کے قوانین کیا ہیں، یہ صرف اور صرف انٹرنیٹ ایڈریس پر کام کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے سے متعین کردہ راستے، جسے روکا یا اس کا رخ موڑا جاسکتا ہے پر ڈیٹا بھیجنے کے بجائے ٹی سی پی /آئی پی پوائنٹ اے سے پوائنٹ بی تک ضروری معلومات کے پیکٹ حاصل کرلیتا ہے۔ انٹرنیٹ پروٹوکول کے اس سیٹ اپ پر اعتراضات کو مسترد کرنا عالمگیر جمہوریت پسند طاقتوں کا چہرہ سجائے دم توڑتی آمرانہ حکومتوں کے لیے آسان ہے، لیکن یہ مشکلات صرٖف آمرانہ حکومتوں کو ہی متاثر نہیں کرتیں۔ کوئی بھی حکومت نقصان دہ معلومات سے متاثر ہوسکتی ہے۔

جس کی واضح مثال رواں سال مارچ میں مشرق وسطی اور شمالی امریکا میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے والے ’ مال ویئر‘ (کمپیوٹر نظام میں غیرقانونی طریقے سے رسائی حاصل کرنے اور اہم معلومات کو تباہ کرنے کے لیے تیارکردہ خصوصی سافٹ ویئر) Triton ہے جسے دنیا کا سب سے ہلاکت خیز اور قاتل مال ویئر قرار دیا گیا، اس کے علاوہ جھوٹی اور من گھڑت خبروں سے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونا، جس کی ایک بڑی مثال امریکا میں ہونے والے گذشتہ انتخابات ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح میں اہم کردار اوپن انٹرنیٹ کارہا۔ جعلی نیوز ویب سائٹس، فیس بک، ٹوئٹر، بلاگز اور فورمز پر ٹرمپ کے حق میں شایع ہونے والے ہزاروں جعلی مضامین اور جعلی خبروں نے ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے لیے راہ ہموار کی۔ ان جعلی خبروں اور مضامین کو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں اصلی خبروں سے زیادہ لائیک اور شیئر کیا گیا۔ خبر کی تصدیق کیے بنا اسے دوسرے لوگوں سے شیئر کرنے کی روایت نے ہی ٹرمپ جیسے شخص کے صدر بننے کی راہ ہموار کی۔

اوپن انٹرنیٹ کی بدولت مزاح، پروپیگنڈے یا کسی ایجنڈے پر کام کرنے والی یہ جعلی نیوز ویب سائٹس دنیا بھر میں سیاسی راہ نماؤں کی کام یابی کے لیے راہ ہموار کر رہی ہیں۔ یہ جعلی ویب سائٹس جنہیں ’’hoaxنیوز‘‘ ویب سائٹ بھی کہا جاتا ہے، یہ ویب سائٹس قارئین کو اپنی سائٹ تک لانے کے لیے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہیں۔ ان ویب سائٹس کا بنیادی مقصد معاشی اور دیگر فوائد حاصل کرنے کے لیے انٹرٹینمنٹ اور درست معلومات کے بجائے کسی مخصوص سیاسی، مذہبی جماعت کے حق یا مخالفت میں پروپیگنڈا یا رائے عامہ ہموار کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان، امریکا، جرمنی، فلپائن، سوئیڈن، میانمار، سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں سیاسی جماعتوں کے حق اور مخالفت میں جھوٹی خبریں شایع اور انہیں پھیلایا جاتا ہے اور کسی بھی قسم کی حدود و قیود سے آزاد ٹی سی پی /آئی پی ان معلومات کا بہائو جاری رکھتا ہے۔ روس اور چین نے دوسروں کی نسبت بڑے پیمانے پر اوپن انٹرنیٹ کی رو پر بہنے والی معلومات کے انسانوں اور ان کی قوت فیصلہ پر مرتب ہونے والے ممکنہ اثرات کو جلد سمجھ لیا۔ وہ اس کے سیاسی سطح پر ہونے والے اثرات کو بھی بخوبی سمجھ گئے۔

ان کا نظریہ یہ تھا کہ ملک کے شہریوں کی اہمیت بھی اسی طرح ہے، جس طرح ایک انتہائی اہمیت کے حامل پاورپلانٹ کی، اور انہیں بھی زمینی اثاثوں کی طرح نقصان دہ وائرسز اور جھوٹی خبروں پر مشتمل نقصان دہ معلومات سے تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بابت آکسفورڈ یونیورسٹی کے روسی اسکالر اور لندن کے ایک تھنک ٹینک فارن پالیسی سینٹر کے ریسرچ فیلو لنکن پگمین کا کہنا ہے کہ ’روسی حکومت کا انٹرنیٹ کو ڈیجیٹل سرحدوں میں قید کرنے کا مقصد عوام کے تحفظ سے زیادہ ان پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔‘ روس اور چین 2011ء اور2012 سے ہی برملا خود مختار انٹرنیٹ کے قیام پر گفتگو کا آغاز کرچکے ہیں۔ 2015ء کے اواخر میں چینی صدر زی جنگ پنگ نے دنیا کے تمام ممالک پر دوسرے ملکوں کی سائبر خودمختاری کا احترام کرنے اور انٹرنیٹ کے جداگانہ حکومتی ماڈل کے قیام پر زور دیا تھا۔ دارالحکومت بیجنگ میں ہونے والی ورلڈ انٹرنیٹ کانفرنس کے موقع پر چینی صدر نے کہا تھا کہ ہر ملک کو اس بات کا حق دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے انٹرنیٹ کو کیسے ڈیوپلپ اور ریگولیٹ کرتا ہے۔

واضح رہے کہ چین میں انٹرنیٹ کے استعمال پر سخت قوانین نافذ ہیں۔ چین میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 650ملین سے بھی تجاوز کرچکی ہے، لیکن انہیں گوگل، فیس بک اور اس جیسی بہت سی ویب سائٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ روسی صدر پیوٹن بھی اپنے شہریوں کو اوپن انٹرنیٹ سے ہونے والے انتشار سے بچانے کے لیے ڈیجیٹل سرحدوں کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو خودمختار انٹرنیٹ کا قیام اور خود کو گلوبل انٹرنیٹ سے علیحدہ کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ ایک سنگل کیبل ایک ملک کو گلوبل انٹرنیٹ سے منسلک کر دیتی ہے۔ آپ صرف ایک سوئچ گرا کر اس رابطے کو منقطع کر سکتے ہیں، کچھ ممالک اسی طرح کے انفرا اسٹرکچر پر عمل درآمد کرنے پر غور کر رہے ہیں، لیکن صرف ہارڈ ویئر کے تناظر میں ہی اسے دیکھا جائے تو یہ تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔

وسکونسن یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنٹسٹ پال بیرفورڈ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’ایسے ممالک جہاں بھرپور اور متنوع انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی ہے وہاں اصل میں داخلی اور خارجی پوائنٹس کی شناخت کرنا ناممکن ہوگا، یہاں تک کہ اگر روس معلومات کے بہائو کے لیے درکار تمام تر ہارڈ ویئر حاصل کر بھی لیتا ہے، تب وہ بھی اپنے شہریوں کو اس طرح کی انٹرنیٹ سروس فراہم نہیں کرسکے گا، یہ بات الگ ہے کہ وہ گلوبل اکنانومی سے علیحدہ ہوکر بھی خوش ہو۔ اب انٹرنیٹ دنیا بھر میں ہونے والی تجارت کا حقیقی اور اہم حصہ ہے، اور روس اپنی معیشت کو نقصان پہنچائے بنا خود کو اس نظام سے الگ نہیں کرسکتا ۔ دوسروں کی راہ میں مزاحم ہوکر کس طرح معلومات کے بہائو کو جاری رکھا جاسکتا ہے یا ٹی سی پی/آئی پی کو مادیت پرستی کا الزام دیتے ہوئے انٹرنیٹ کی خودمختاری جیسا کام کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟‘

امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشن کے سائبر سیکیوریٹی ایکسپرٹ ایڈم سیگل کا کہنا ہے کہ ’چین میں حکم ران مجاز انٹرنیٹ کے لیے مسائل کا سبب بن رہے ہیں۔‘‘ گولڈن شیلڈ جسے ’ گریٹ فائر وال آف چائنا‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ، مخصوص انٹرنیٹ ایڈریسز، مخصوص الفاظ، مخصوص آئی پی ایڈریسز کو بلاک کرتی ہے۔ اسے آپ بہت مہارت نہیں کہہ سکتے، یہ سب ایک سافٹ ویئر سے ختم کیا جاسکتا ہے، اور دنیا بھر میں ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک اور سینسر شپ کو ختم کرنے کے لیے Tor جیسے کئی سافٹ ویئر موجود ہیں۔

دوسری بات یہ کہ چین کا تیار کردہ خود مختار انٹرنیٹ کا نظام روس کے لیے کام نہیں کرے گا، یہ کانٹینٹ کو ڈائون کرنے والے بڑے چینی پلیٹ فارمز پر انحصار کرے گا، یہ گلوبل انٹرنیٹ کو اپنی سرحدوں میں داخل ہونے کے لیے بہت ہی محدود پیمانے پر داخلی اور خارجی پوائنٹس کی اجازت دے گا، جب کہ ابتدائی طور پر انٹرنیٹ کے پھیلائو کو خوش آمدید کہنے والے روس کے لیے یہ باہمی ربط مشکلات پیدا کرے گا۔ روس خود کو کارپوریٹ انٹر نیٹ سے دور کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یہ انٹرنیٹ کے چینی تصور کو اپنا سکتا ہے۔ چنانچہ روس کو ایک ایسے ہائی برڈ طریقۂ کار پر کام کرنا پڑے گا جو کہ نہ مکمل طور پر ہارڈویئر پر انحصار کرے اور نہ ہی سافٹ ویئر پر۔ اسے اپنا انٹرنیٹ پروٹوکول بنانے پڑے گا جو ٹریفک کو اس کے متعین کردہ مقامات پر پہنچا سکے۔

انٹرنیٹ پروٹوکول مختلف پیچیدہ چیزوں کا مرکب ہے جیسا کہ الگورتھم، آئی پی ایڈریسز، مختلف لیئرز وغیرہ۔ اور اس میں بنیادی چیز DNS کے معیارات ہیں، یہ وہ ایڈریس بک ہے جو انٹرنیٹ کو بتاتی ہے کہ آئی پی ایڈریس کو کیسے ٹرانسلیٹ کرنا ہے، مثال کے طور پر ایک آئی پی ایڈریس 38.160.150.31ہے، جیسے انسانوں کے سمجھنے کے لیےDNS bbc.co.uk میں ٹرانسلیٹ کرتا ہے ، اور یہ سب کرنا روس اور چین کے لیے اتنا آسان نہیں ہوگا۔ سائبر سیکیوریٹی کے ماہرین کے مطابق روس، چین اور خودمختار انٹرنیٹ کے حامی ممالک کا بنیاد ی مقصد خود مختار انٹرنیٹ سے زیادہ اپنے شہریوں کو کنٹرول کرنا ہے۔

٭ ڈیجیٹل فیصلہ ساز
دنیا بھر میں ایسے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جو خودانٹرنیٹ پر آمرانہ طرز کی حکومت قائم کرنے کے تصور میں بہت دل چسپی لے رہے ہیں۔ گذشتہ سال ایک تحقیقی جریدے میں ’دی ڈیجیٹل ڈیسائیڈر‘ کے عنوان سے شایع ہونے والے مقالے میں اس بات کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ’ڈیجیٹل فیصلہ ساز‘ریاستیں، جن میں اسرائیل، سنگاپور، برازیل، یوکرائن اور انڈیا کے ساتھ دیگر ممالک بھی شامل ہیں ان کا رجحان معلومات کے حصول میں زیادہ سے زیادہ خودمختاری حاصل کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔

ہر کسی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجوہات مختلف ہیں، لیکن ان میں سے بہت سے ممالک کے حالات یکساں ہیں، یوکرائن، اسرائیل اور جنوبی کوریا جو کہ ہمیشہ سے تنازعات کی کیفیت میں رہے ہیں، اپنے دشمن کو زیر کرنے کے لیے انٹرنیٹ کو بہ طور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی صنعت سے وابستہ ماہرین کے مطابق انٹرنیٹ کا اسٹریٹیجک استعمال خصوصاً سوشل میڈیا ایک میدان جنگ میں بدل چکا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی کھلی ڈُلی اور عالم گیر ساکھ کے باوجود جنوبی کوریا آن لائن موجود غیر قانونی معلومات کے خلاف کریک ڈائون کے لیے ایک بہترین تیکنیک تشکیل دے چکا ہے۔

جس کے تحت جنوبی کوریا نے حال ہی میں بڑی تعداد میں ایسی ویب سائیٹس کو بلاک کیا ہے جو جعل سازی، چوری شدہ مواد، قمار بازی اور فحش نگاری کو فروغ دے رہی تھیں۔ انٹرنیٹ پر دسترس حاصل کرنے کی اس پالیسی کا اعلان رواں سال فروری میں کورین کمیونیکیشنزکمیشن (کے سی سی) نے کیا تھا، جس کا بنیادی مقصد کوریا کے ایک حکومتی ادارے کورین کمیونیکیشن اسٹینڈرڈ کمیشن (کے سی ایس سی)کو مکمل طور پرانٹرنیٹ کو مانیٹر اور سینسر کرنے کے قابل بنانا، قماربازی اور فحش مواد دکھانے والی مخصوص ویب سائٹس تک رسائی کو روکنے کے قانون کو لاگو کرنا تھا۔ جنوبی کوریا کی یہ تیکنیک روس اور چین جیسے ممالک کے پالیسی سازوں کی طرف جھکائو بھی ہوگا جو کہ چین کی ’گریٹ فائر وال‘ یا روس کے نئے انٹرنیٹ کی کوریائی پالیسی کے مساوی ہیں۔ جنوبی کوریا کا یہ قانون امریکا کے مجوزہ قانون ’اسٹاپ آن لائن پائریسی ایکٹ (ایس او پی اے) اور پروٹیکشن آئی پی ایکٹ (پی آئی پی اے) سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔

یہ قانون جنوری 2012 میں اس وقت شہہ سرخیوں کی زینت بنا جب بہت سے بڑی انٹرنیٹ کمپنیوں نے اس مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنی ویب سائٹس پر’بلیک آئوٹ‘ کردیا۔ ابتدائی طور پر اس قانون کے تحت امریکی محکمۂ انصاف کو انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی امریکی کمپنیوں کو جعل سازی اور چوری شدہ مواد پیش کرنے والی ویب سائٹس تک رسائی کو روکنے کی اجازت دی گئی تھی، اگرچہ یہ بل منظور نہیں ہوسکا لیکن آف لائن (جمہوری طریقۂ کار کے ذریعے ) قانون کوآن لائن پر لاگو کردیا گیا۔ جنوبی کوریا بھی پہلے سے موجود قوانین کے ذریعے نیشنل کانٹینٹ فائر وال تشکیل دینے کی کوشش کر رہا ہے۔تاہم، اس کی بڑے پیمانے پر اثرپذیری دیکھنے کے لیے شہریوں کو انٹرنیٹ پر موجود نقصان دہ معلومات سے تحفظ فراہم کرتے ہوئے ان کی آزادی کو بھی برقراررکھنے کے لیے متوازن ذمے داری ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوریا اور اس جیسے دوسرے ڈیجیٹل فیصلہ ساز چینی یا روسی ماڈل کوکاپی کرسکتے ہیں؟

چین کی تیکنیک کا مطلب، چھوٹے ممالک کی پیش روی کے لیے ایک انوکھی طرز کی خود مختاری ہے، روسی ماڈل کا ابھی تک مکمل تجربہ نہیںکیا گیا ہے۔ ان دونوں ماڈل کو کاپی کرنے کی کم از کم لاگت بھی کروڑوں ڈالر ہے۔ دو بڑے ڈیجیٹل فیصلہ ساز ممالک انڈیا اور برازیل طویل عرصے سے ایک ایسے طریقۂ کار کے ذریعے گلوبل انٹرنیٹ کے متلاشی ہے جو کہ نہ ہی مغرب کی ’کھلی اقدار‘پر انحصار کرتا ہو اور قومی مفادات کے خلاف۔ ان کی انٹرنیٹ اور سیاسی اقدار ان دونوں کے وسط میں ہیںگذشتہ ایک دہائی یہ دونوں ممالک آج دکھائی دینے والے انٹرنیٹ کے دو مخالف ورژن کے لیے متبادل تلاش کرنے کی کوشش بھی کرچکے ہیں۔

اس تبدیلی کا اشارہ اس وقت دیا گیا تھا جب روس کی پروپیگنڈا ویب سائٹ RT نے یہ خبر شائع کی کہ برازیل اور انڈیا ایک متبادل ’برکس انٹرنیٹ‘ کی تشکیل میں روس، چین اور جنوبی افریقا کے ساتھ کام کریں گے۔ جب کہ ان ہی دنوں روس نے بھی ’بیرونی اثرات سے تحفظ فراہم‘ کرنے والے انفرا اسٹرکچرکی تخلیق کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم یہ منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکا کیوں کہ روس اور چیندونوں’برکس‘ میں بہت دل چسپی لے رہے تھے، اس میں شامل دیگر ممالک کی دل چسپی اس میں کم تھی۔

کچھ بین الاقوامی طاقتیں چین کے ’بیلٹ روڈ‘ منصوبے کو بھی اس تناظر میں دیکھ رہی ہیں، چین ’اکیسویں صدی کی شاہراہ ریشم‘ پراجیکٹ کے تحت ایشیا کو یورپ سے ملانے کے لیے تاجکستان، جبوتی، اور زمبابوے میں زمینی راستوں، شپنگ لینز اورمواصلاتی انفرا اسٹرکچرکا وسیع نیٹ ورک تعمیر کر رہا ہے۔لندن کے ’انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز‘کے ایک اندازے کے مطابق چین اس وقت دنیا کے تقریباً اسی مواصلاتی پراجیکٹ میں مصروف ہے، جس کے تحت وہ دوسرے ممالک میں کیبل بچھانے اور نیٹ ورک قائم کر رہا ہے ۔

اس سارے منظر نامے میں ایک امکان یہ بھی ہے کہ دیگر ممالک یکساں انفرا اسٹرکچر ڈیولپ کرنے کے لیے روس اور چین کے ساتھ مل جائیں، اس طرح وہ باقی دنیا سے کاروبار کیے بنامعاشی طور پر ایک دوسرے کو مستحکم رکھتے ہوئے خود کو مغربی انٹرنیٹ سے علیحدہ کر سکتے ہیں۔چھوٹے ممالک غالبا ایک مغربی معیارات سے بالاتر انٹرنیٹ کو ترجیح دیں گے، جو انہیں سیمی گلوبل معیشت میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرے، اور اس کے ساتھ ساتھ’انٹرنیٹ کے تجربات‘کے تناظر میںاپنی آبادی کو کنٹرول بھی کرسکیں۔

انٹرنیٹ پر آزادی اظہارکی مہم چلانے والی تنظیم ’اوپن رائٹس گروپ‘ کی ماریا فیرریل کا اس بابت کہنا ہے کہ ’چین کا ون بیلٹ ، ون روڈ منصوبہ فیصلہ ساز ممالک کو پلگ اینڈ پلے انٹرنیٹ کی پیش کش کر رہا ہے، اور پہلی بار مغربی انٹرنیٹ انفرا اسٹرکچر پر انحصار کیے بنا آن لائن ہونے کا یہ پہلا انتخاب ہے۔ یہ زمبابوے، جبوتی اور یوگنڈا جیسے ممالک کے لیے ایک بہترین انتخاب ہوگا جو انٹرنیٹ کو صرف گوگل اور فیس بک تک رسائی کے لیے حاصل نہیں کرنا چاہتے۔ روسDNSکو دوبارہ ایجاد کرنے پر کام کر رہا ہے اور بیلٹ روڈ منصوبے کا آمرانہ پلگ اینڈ پلے انٹرنیٹ ان ممالک کو چین کے اپنے انٹرنیٹ پروٹوکول میں سائن اپ تک رسائی دے رہے ہیں۔ اور وہ دن دور نہیں جب انٹرنیٹ پر مغربی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔