مدیحہ عدن کا ’’دردِ وفا‘‘

انعم احسن  اتوار 16 جون 2019
مصنفہ اس ناول کے ذریعے ان مشرقی خواتین کی نمائندگی کر رہی ہیں جو روایات اور معاشرتی جبر کے باعث اپنے سپنے دفن کردیتی ہیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

مصنفہ اس ناول کے ذریعے ان مشرقی خواتین کی نمائندگی کر رہی ہیں جو روایات اور معاشرتی جبر کے باعث اپنے سپنے دفن کردیتی ہیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

ہر لڑکی کے کچھ خواب ہوتے ہیں، چھوٹے چھوٹے، گاؤں کے آنگن کی طرح اجلے اجلے، میٹھے پانیوں کی طرح شفاف اور اجلے خواب… جن کی گہرائی سمندروں سے زیادہ اور بلندی اوج ثریا تک ہوتی ہے۔ انہی سپنوں کی تکمیل کےلیے وہ اپنے راہ میں آنے والے ہر دریا کو چیر دیتی ہے، ہر رکاوٹ کے سامنے سینہ سپر ہوجاتی ہے۔ سنگلاخ چٹانوں کو بھی نیچا دکھا دیتی ہے۔ لیکن اکثر اوقات وہ ہار جاتی ہے، اپنے نصیب سے، اپنے جذبات سے اور سوسائٹی کے بے رحم طنعوں سے۔ یہ سب باتیں وقتی طور پر اس کی راہ گزر پر کانٹے بچھا دیتی ہیں، لیکن اگر وہ ان بلاؤں سے نبرد آزما ہوکر کامیابی سے ہمکنار ہوجائے تو اسے ستاروں سے آگے نکل جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

ایسی ہی ایک لڑکی کی داستان ایکسپریس نیوز کی بلاگر مدیحہ عدن (مدیحی عدن) نے بیان کی ہے، جن کے ناول کی ہیروئن ایک ایسی لڑکی ہے جس کا بھائی اور باپ انتہا کے نکمے ہیں جب کہ گھر کا خرچ چلانے کےلیے اس کی ماں اور اسے یونیورسٹی میں کیفے چلانا پڑتا ہے۔ یہیں ناول کی ہیروئن ایدہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو دیکھتی ہے۔ شوخ اور چنچل لڑکیاں، باپ کے اے ٹی ایم پر عیاشیاں کرتے لڑکے روزانہ اسے نظر آتے ہیں۔ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ اسی دوران کیفے میں وہاج نامی لڑکا آتا ہے۔ انتہائی محنتی، کام سے کام رکھنے والا، ضرورت سے زیادہ خاموش لڑکا۔ ایدہ کو وہاج کی عادات سے خاموش عشق ہوجاتا ہے۔ وہ اس سے بات کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں اور پھر وہ شادی کرلیتے ہیں۔

مدیحہ نے اپنے ناول ’’دردِ وفا‘‘ میں قارئین کی دلچسپی برقرار رکھنے کےلیے اس کے پلاٹ پر خوب محنت کی ہے۔ ناول میں اچانک سے کوئی کردار آتا ہے اور ناول کی جان بن جاتا ہے۔ لیکن چند کردار وقت مقررہ پر منظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔ درد وفا گرچہ مدیحہ کا پہلا ناول ہے مگر انہوں نے اسے کچھ ایسے انداز میں تحریر کیا ہے کہ عام قاری کےلیے یہ یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ایک بلاگر جو سوشل ایشوز پر تحریر کرتی ہیں، وہ یکدم ناول نگاری کی دنیا میں قدم رکھتی ہیں اور کامیاب بھی رہتی ہیں۔ مدیحہ کے خیال میں وہ ناول کے ذریعے ان مشرقی خواتین کی نمائندگی کر رہی ہیں جو روایات اور معاشرتی جبر کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے سپنوں کو دفن کردیتی ہیں۔ ان کے ظاہری اطوار کو دیکھ کر لوگ ان کے بارے میں رائے قائم کرلیتے ہیں۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہیں۔

مدیحہ کا ناول پلاٹ کے اعتبار سے دو حصوں پر مشتمل ہے: اس کے پہلے حصے میں قاری ناول کی ہیروئن ایدہ سے نفرت کا اظہار کرتا ہے، جو اپنے شوہر کو محض اس کے جذباتی فیصلوں کی بدولت چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ اس کا شوہر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی سافٹ ویئر کمپنی کا مالک بن جاتا ہے جبکہ وہ خود اپنی سانسیں چلانے کےلیے شب و روز محنت کرتی ہے جس کےلیے وہ کئی جگہوں پر نوکری کرتی ہے۔ پھر اسی نوکری کے دوران اس کی ملاقات اپنی ایک دوست سے ہوتی ہے جو ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور زمانہ طالب علمی کے دوران سے ہی وہ ایک دوسرے کی بدترین حریف ہیں۔ اسی دوست کے توسط سے اسے وہاج کی کامیابی کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔

پھر ناول کا دوسرا حصہ شروع ہوجاتا ہے جس میں وہاج کو ایدہ کے بارے میں علم ہوتا ہے اور جو اس کے قریب آنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہاج اس قربت کی وجہ اپنی دولت کو سمجھتا ہے اور اس سے جان چھڑانے کےلیے اسے پیسوں کا لالچ دیتا ہے۔ پیسوں سے انکار پر اسے لالچی، بے وفا اور موقع پرست جیسے الفاظ سے نوازتا ہے۔ ان طعنوں کو ایدہ برداشت نہیں کرتی اور پھر وہ بیمار ہوجاتی ہے۔

اسی دوران ایدہ کی پرانی ڈائری وہاج کے ہاتھ لگتی ہے، جس سے اسے حقائق کا علم ہوتا ہے۔ احساس شرمندگی کے بعد وہ ایدہ سے رابطہ کرتا ہے اور دوبارہ ساتھ نباہنے کی قسمیں کھاتا ہے۔

مدیحہ عدن کا ’’دردِ وفا‘‘ دراصل معاشرتی جبر سے پسی ہوئی لڑکی کا نمائندہ ہے، جو اپنے ارمان، خواب اور سپنے ادھورے چھوڑ کر بس ایک گھریلو خاتون بن جاتی ہے۔ جس کا محور اس کے خاوند کی ذات ہوتی ہے۔ جو اپنے خاوند کو اپنے باپ اور بھائی سے جدا دیکھنا چاہتی ہے۔ جو چاہتی ہے کہ مرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو، اسے ہر فیصلہ کرنے اور قدم اٹھانے سے قبل اپنی شریک حیات سے مشورہ کرنا چاہیے۔ اس میں اپنی محنت کے سہارے آگے بڑھنے کی جستجو اور ہمت ہونی چاہیے۔

ایدہ بھی وہاج میں ایسی ہی خوبیاں دیکھنا چاہتی تھی کیوں کہ وہ اپنے باپ اور بھائی کے کردار سے انتہائی دکھی تھی، لیکن وہاج نے اس سے مشورہ کیے بغیر نوکری چھوڑ دی اور یوں ان کے درمیان قائم اعتماد کے رشتے میں دراڑ پیدا ہوگئی اور وہ مزید ساتھ نباہنے سے تھک گئی۔ لیکن ناول کے دوسرے حصے میں ایدہ کے بارے میں یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ وہ وہاج کی ناکامیوں کی وجہ خود کو سمجھتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہ جب سے وہاج کی زندگی میں آئی ہے وہ آگے نہیں بڑھ رہا، اور وہاج کی کامیابی کےلیے وہ اپنے پیار کی قربانی دے دیتی ہے۔

’’دردِ وفا‘‘ کی خاص بات اس کی ضخامت ہے۔ 222 صفحات پر مشتمل یہ ناول ہر لحاظ سے ایک مکمل اور بہترین ناول ہے۔ جس میں تمام کرداروں کے ساتھ انصاف کیا گیا ہے۔ گلوبل ولیج کی اس دنیا میں وقت کی کمی کے باعث یہ ناول ایک بہترین تخلیق ہے، جس کا مطالعہ یقیناً ایک بہترین مشغلہ ہوسکتا ہے۔ اس ناول کو فکشن ہاؤس نے شائع کیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

انعم احسن

انعم احسن

بلاگر نے ادارہ علوم ابلاغیات جامعہ پنجاب سے ڈویلپمنٹ جرنلزم میں ماسٹر کیا ہوا ہے۔ قومی اخبارات میں "ادراک " کے نام سے قلم کے رنگ بکھیرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ادب، تعلیم ،ظلم نا انصافی اور معاشرتی مسائل پر تحریر کرنے کی سعی کرتی ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔