شام کی صورتحال پر امریکا اور روس آمنے سامنے دونوں کے جنگی بیڑے خلیج فارس پہنچ گئے

نیٹ نیوز / خبر ایجنسیاں  منگل 3 ستمبر 2013
 امریکی بحریہ کی جانب سے جاری کردہ تصویر کے مطابق بحیرہ عرب میں موجودطیارہ بردار جہاز یوایس ایس نمیٹزشام کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ فوٹو : اے ایف پی

امریکی بحریہ کی جانب سے جاری کردہ تصویر کے مطابق بحیرہ عرب میں موجودطیارہ بردار جہاز یوایس ایس نمیٹزشام کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ فوٹو : اے ایف پی

دمشق / پیرس / ماسکو / برسلز:  شام کے صدر بشارالاسد نے خبردار کیا ہے کہ شام کیخلاف فوجی کارروائی کی گئی تو مشرق وسطیٰ میں جنگ کی آّگ بھڑک سکتی ہے۔

فرانسیسی اخبار کو انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ فرانس نے اگر امریکی حملے کا ساتھ دیا تو اسے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ دوسری جانب شام نے امریکی حملہ ٹالنے کیلیے اقوام متحدہ سے رابطہ کرلیا، شامی سفیر بشار جعفری نے اقوام متحدہ کے نام خط میں کہا کہ عالمی ادارہ امریکی جارحیت رکوانے کیلیے کردار ادا کرے۔ شامی نائب وزیرِ خارجہ فیصل مقداد نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ شامی حکومت کا کہنا ہے کہ اسکے خلاف امریکی فوجی مداخلت القاعدہ اور اس کے حلیفوں کی مدد کرنے کے مترادف ہوگی۔ شامی فوج نے نہیں بلکہ امریکی حمایت یافتہ مسلح گروہوں نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ دریں اثنا فرانس نے کہا ہے کہ شام میں کیمیائی حملے میں کم از کم281 افراد مارے گئے، فرانسیسی وزیراعظم نے پارلیمنٹ میںکیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق شواہد پیش کیے۔

اطلاعات کے مطابق انٹیلیجنس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام نے ایک ہزار ٹن سے زیادہ کیمیائی مواد ذخیرہ کر رکھا ہے جس میں سارین گیس بھی شامل ہے۔اس مسئلے پر فرانسیسی پارلیمنٹ میں بدھ کو بحث کی جائے گی۔ امریکی صدر اوباما نے بھی حملے کی حمایت کیلیے لابنگ تیز کر دی ہے جبکہ روس نے انٹیلی جنس معلومات کے حصول کیلیے اپنا بحری جہاز شام کے ساحل پر بھجوا دیا۔ دوسری جانب ممکنہ حملے کے خلاف شامی عوام نے ’’over our bodies‘‘ یعنی ’’ہماری لاشوں پر سے‘‘ کے نام سے انسانی ڈھال بنانے کی مہم شروع کردی جس کا مقصد اہم جگہوں کی حفاظت کرنا ہے۔ شامی عوام کی بڑی تعداد دمشق کے ایک اہم یادگاری مقام ماؤنٹ کیسوئن میں جمع ہوئی، بعض افراد نے ان جگہوں پر اپنے خیمے لگانا شروع کر دیے اور واضح کیا ہے کہ وہ حملوں کی منسوخی یا پھر فوجی کارروائی کی صورت میں مرتے دم تک یہیں رہیں گے۔ ہزاروں افراد نے امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاج کیا اور شدید نعرے بازی کی ۔

مظاہرین میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے اور انھوں نے پلے کارڈ اور بینرز اٹھا رکھے تھے۔ ادھر نیٹو کے سیکریٹری جنرل آنرس فو راسموسن نے کہا ہے کہ انھیں ذاتی طور پر یقین ہے کہ صدر بشار الاسد کی حکومت کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کرنے کی ذمے دار ہے۔ برسلز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو روکنے کے لیے ایک مضبوط عالمی ردعمل بہت ضروری ہے۔ کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال پرخاموش تماشائی بنے رہے تو یہ دنیا میں ڈکٹیٹروں کو ایک خطرناک پیغام دے گا۔ مزیدبراں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے امریکی شواہد کو مسترد کردیا، انھوں نے کہا کہ ہمارے امریکی، برطانوی اور فرانسیسی دوستوں نے جو کچھ ہمیں دکھایا اس سے ہم قطعاً قائل نہیں ہوئے۔ حملے کے شواہد و تصاویر کے بارے میں شکوک شبہات ہیں۔

علاوہ ازیں ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان نے کہا کہ شام کے خلاف فوجی مداخلت کا مقصد صدر اسد کی حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ترکی کے وزیراعظم نے شام کے صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔ علاوہ ازیں بی بی سی کے سروے کے مطابق تین چوتھائی برطانوی شام پر حملے کے مخالف ہیں اور یہ کہ برطانوی دارالعوام کے اراکین شام پر فوجی کارروائی کو رد کرنے میں درست تھے۔ 72فیصد افراد یہ سمجھتے ہیں کہ اس اقدام سے امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات متاثر ہوں گے اور دو تہائی افراد نے کہا کہ اگر اس سے تعلقات متاثر ہوتے بھی تو انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔40 فیصد افراد نے وزیر اعظم کی کارکردگی پر مثبت رائے دی جبکہ42 فیصد نے منفی رائے دی، برطانوی وزیراعظم کے دفتر کا کہنا ہے کہ شام پر دوبارہ دارالعوام میں ووٹ نہیں لیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔