نوسر باز پیر ، ٹھگ عامل اور اللہ کے برگزیدہ بندے

ظفر سجاد  اتوار 16 جون 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

’’ٹھگ پیر اور اُسکے چیلوں کی کہانی‘‘

متحدہ ہندوستان کے زمانے کا ذکر ہے کہ سخاوت نامی ٹھگ پیر کا بڑا شہرہ ہوا، یہ ٹھگ پیر اپنے دوتین چیلوں کے ہمراہ مسلمانوں کی کسی نہ کسی آبادی میں پہنچتا، اپنی بزرگی اور کرامات کی دھاک بٹھاتا، جب کافی سارے عقیدت مند اس کے آس پاس آجاتے تو ان کا مال اور سونا ، چاندی دُگنا کرنے کا جھانسہ دیتا، اپنے نئے مریدوں کو کہتا کہ اپنا سارا مال اور سونا چاندی ایک پوٹلی میں باندھ کر کمرے میں ایک مٹکے میں ڈال دیں، چاند کی آخری جمعرات کو مٹکے سے اپنی مال نکال لیں۔ انکا مال دُگنا ہوگا، وہ پوٹلی کی خاص نشانی لگانے کا بھی کہتا۔
ایک دفعہ وہ ’’یوپی‘‘ بھارت کے قصبے شاہ جہان پور پہنچا، اس قصبے میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔

زیادہ تر مسلمان چھو ٹے موٹے کام کرکے پیٹ پالتے تھے، مگر بے شمار مسلمان صاحب حیثیت متمول اور جاگیر دار بھی تھے، ایک دفعہ دن چڑھے لوگوں نے دیکھا کہ نورانی چہرے والا باریش شخص اپنے تین عقیدت مندوں کے ہمراہ ’’ شاہجہان پور‘‘ آیا اور وہاں کی جامع مسجد میں کونے میں بیٹھ گیا، لوگوں کے تجسس پر اس کے ساتھیوں نے بتایا کہ یہ پیر سخاوت شاہ ہیں، منزل اور چلہ کاٹنے یہاں آئے ہیں، نمازیوں نے دیکھا کہ پیر صاحب ہر وقت عبادت میںمعروف رہتے ہیں پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرتے ہیں، رفتہ رفتہ ان کے گِرد لوگ اکٹھا ہونا شروع ہوگئے مگر وہ کسی کا نذرانہ قبول نہیں کرتے تھے، کسی کی طرف سے آیا ہوا کھانا بھی نہ کھاتے، سوکھی ہوئی روٹی کا ایک ٹکڑا پانی میں بھگو کر کھا لیتے، لوگ ان کے پاس مختلف مسائل کیلئے حاضر ہوتے اور دعا کیلئے کہتے، ایک مرتبہ وہ جلال میں آگئے، جلال کے عالم میں ان کے منہ سے یہ الفاظ نِکلے ’’ ہر شے دُگنی، سونا دُگنا ، چاندی دُگنی ۔

ساتھ آئے مریدین جُھومنا شروع ہوگئے ۔ لوگوں کے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ پیر صاحب لوگوں کے مسائل اور غربت کی وجہ سے دُکھی ہوئے ہیں اور انھوں نے جلال کے عالم میں لوگوں کا سونا چاندی اور دولت دُگنی کرنے کا حکم سنا دیا ہے، جس کے پاس جو کچھ ہے پوٹلی میں باندھ کر یہاں لے آئے پوٹلی پر اپنا نام لکھ دے اور مسجد میں رکھے پانی کے مٹکے کو خالی کرکے اس میں ڈال دے، چاند کی آخری جمعرات سب اپنی اپنی پوٹلیاںنکال لیں ۔ مگر اب پیر صاحب کو تنگ کوئی نہ کرے ان کی ’’عبادت ‘‘ میں خلل پیدا ہوتا ہے۔

پورے قصبے میں یہ بات آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ جوق درجوق اپنا مال اور جمع پونجی لیکر وہاں پہنچنا شروع ہوگئے اور مٹکے میں اپنی پوٹلیاں ڈالنے لگے دو دن میںمٹکا بھر گیا، پیر صاحب کے چیلوں نے لوگوں کو دو مٹکے اور لانے کا حکم دیا ، کوئی سات روز لگے ہونگے کہ یہ مٹکے بھی بھر گئے۔ اب جامع مسجد میں اور اس کے گردونواح میں پیر صاحب کے عقیدت مندوں کا رش رہنے لگا، ایک رات بارش شروع ہوگئی صبح جب لوگ نماز کیلئے مسجد پہنچے تو پیر صاحب اور انکے چیلے غائب تھے۔ مٹکوں کو چیک کیا گیا تو وہ خالی تھے، اب لو گوںکی سمجھ میں آیا کہ ان کے سا تھ ہاتھ ہوگیا ہے، اس زمانے میں نہ ٹی وی چینل ہوتے تھے، نہ سی سی ٹی وی کیمرے ہوتے تھے، نہ ہی ایلیٹ فورس، ٖڈولفِن فورس یا دوسرے خفیہ محکموں کی بہتات تھی لوگ صبر شکر کر کے چپ ہوگئے، کچھ روز بعد پتہ چلا کہ پیر صاحب کا نام ’’سخاوت ٹھگ‘‘ ہے جو لو گوں کی ’’بزرگان دین ‘‘ سے عقیدت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں لوٹتا ہے۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا ۔

’’نگینہ‘‘ کا طفیل ٹھگ
اسی طرح ’’یوپی ‘‘بھارت کے ہی ایک چھوٹے سے قصبے ’’نگینہ‘‘ میں بھی طفیل نامی ٹھگ نے پیری فقیری کے چکر میں سینکڑوں مسلمانوں کو کنگال کردیا، اس قصبے میں بھی مسلمانوں کی اکثریت تھی، یہ مسلمان بھی اولیاکرام اور بزرگان دین سے خاص رغبت رکھتے تھے، طفیل نامی ٹھگ نے کافی سارے شعبدے سیکھ لئے، آنے والوں کے سامنے وہ اپنی کرامات کا مظاہرہ کرتا۔ اس کے کمالات کی دھوم دُور دُور تک پھیل گئی، لوگ اسکی شعبدہ بازیوں کو اسکی کرامات اور کمالات خیال کرتے تھے، یہ پیر صاحب بھی مال دُگنا کرنے کا جھانسہ دیکر بہت سارا مال اکٹھا کرکے رفو چکر ہوگئے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ’’ٹھگ پیروں ‘‘ نے اپنے کام میں مزید بہتری بھی پیدا کی اورمال لوٹ کر راہ فرار حاصل کرنے کی بجائے اسی جگہ ٹکے رہے، برصغیرپاک و ہند میں یہ خیال عام ہے کہ دنیا کے ہر مسئلے کا حل ’’پیر صاحب ‘‘ کے پاس ہوتا ہے۔ ’’ بے پیر‘‘ مسلمان کو ایک بیکار اور غافل انسان تصور کیا جاتا ہے یہ تصور بھی عام ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی جانب جانے کا راستہ ’’پیر صاحب ‘‘ کی طرف سے ہی کُھلتا ہے، اس تصور نے عاملوں اور پیروں کے کاروبارکو بڑی وسعت پیدا کی ہے، یہ عامل اور پیر جہاں بھی خالی جگہ دیکھتے ہیں اُسے ’’پُر‘‘ کرنے کیلئے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔

’’تشہیری پیر اور عامل‘‘
جب جعلی پیروں اور عاملوں کی بہتات شروع ہوئی تو اُ ن کے مابین آگے نکلنے کا مقابلہ شروع ہوگیا ، مرّوجہ طریقوں اور اُصولوں سے آگے نِکل کر کام کرنے کے طریقے نکالے گئے۔’’مشہوری ‘‘ کیلئے اخبارات ، جرائد اور رسالوں کے علاوہ دیواروں پر لکھنے کا سہارا بھی لیا گیا ۔ عاملوں کی طرف سے ہر کام ہر حال میں ہونے کے دعویٰ لکھے گئے۔کئی عاملوں نے اخبارات اور رسائل میں اپنا اشتہار اس طرح دیا کہ خود ہی سوال لکھا خود ہی جواب لکھا مگر ساتھ ہی مسئلے کے حل کیلئے ذاتی طور پر ملنے کی ترغیب بھی دی گئی۔ زیادہ تر سادہ لوح افراد کو علم ہی نہیں ہوتا کہ یہ ’’ اشتہار ‘‘ ہے جو رقم ادا کرکے چھپوایا گیا ہے۔ کئی عامل ٹی وی چینلزمیں بھی آتے ہیں اور وہ اس کے لئے مخصوص رقم بھی چینل کو ادا کرتے ہیں، اب تمام ہوشیار قسم کے عامل اور جعلی پیر سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیتے ہیں ۔ لو گو ں کو ورغلانے، لبھانے اور بیوقوف بنانے کے جد ید طریقے استعمال کئے جا رہے یں۔

’’ڈبہ پیر‘‘
ماضی میں بعض جعلی پیروں نے بڑی شہرت پائی۔ پاکستان بننے کے بعد آج سے تقربیاً 45 سال پہلے ایک جعلی پیر جو ڈبہ پیر کہلایا، نے فراڈ کے ذریعے لوگوں کو لوٹنے کے نِت نئے طریقے نکالے جس میں ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ ڈبے میں مال ڈالو، دُگنا ہو جائے گا۔ یہ پیر بھی آخر کار پکڑا گیا اور اخبارات میں ’’ڈبہ پیر ‘‘ کے نام سے شہرت پائی۔

’’فارم پُر کروا کے بلیک میلنگ‘‘
اسی شہر لاہور میں ایک ایسا نام نہاد عامل بھی ہے جو تشہیر کا فن بخوبی جانتا ہے۔ جب کوئی فرد بھی اُس کے پاس پہنچتا ہے، اسے ایک فارم دیا جاتا ہے جس میں نام پتے کے ساتھ اصل مسئلہ بھی تحریر کرنا ہوتا ہے ، اس کا اسسٹنٹ فا رم پُر کرواتے ہوئے سائل کی حوصلہ افزائی کرتا رہتا ہے کہ فارم میں اپنا مسئلہ تفصیل سے لکھ دیں۔ فارم پُر کرنے کے بعد سائلوں خصوصاً خواتین کو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ’’ واردات ‘‘ ہوگئی ہے۔ زیادہ تر خواتین پسند کی شادی، شوہر یا ساس سے چھٹکا رے کی خواہشمند ، محبوب کو پانے کی تمنائی ہوئی ہیں۔ ان خواتین سے کام کروانے کے عوض بھاری رقم حاصل کی جاتی ہے، جب کام نہیں ہوتا اور کوئی رقم واپسی کا مطالبہ کرے تو اُسے اسکا پُر کردہ فارم دکھا یا جاتا ہے اور یہ فارم اس کے مخالفین یا گھر والوں کو دکھانے کی دھمکی لگا کر مزید رقم وصول کی جاتی ہے۔

اس قسم کے فراڈ تقریباً ہر گلی محلے میں ہو رہے ہیں، ٹھگ اور نوسر باز پیروں اور عاملوں کا روپ دھارے سیدھی سادی عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں ۔ اگرچہ دیکھا جائے تو میڈیا بھی بعض اوقات ان کی سہولت کاری کا کردار سر انجام دیتا ہے مگر میڈیا ایسے نوسر باز اور ٹھگ پیروں اور عاملوں کے کرتوت بھی بے نقاب کرتا ہے۔ ان کے فراڈ ، جرائم ، عورتوں کا مالی و جنسی استحصال، سیدھے سادے اور ان پڑھ مسلمانوںکو گمراہ کرنا اور غلط کاریاں عوام کے سامنے لائی جاتی ہیں مگر شائد عوام کی آنکھوں پر عقیدت کی پٹی کچھ اس طرح سے بندھی ہوئی ہے کہ اُترنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ایک نوسر باز پیر کے پاس پولیس اور بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران حاضر ی بھی دیتے ہیں اور اُسے ہر معاملے میں تحفظ بھی دیتے ہیں، اس پیر کے ’’آستانے ‘‘ پر عورتوں کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے مگر یہ خواتین ’’ پیر صاحب ’’ کے اعلیٰ سطحی ‘‘ تعلقات کی وجہ سے خاموش رہتی ہیں۔

’’ فلیکس والے پیر اور عامل‘‘
پنجاب کے ایک صنعتی شہر سے تعلق رکھنے والے ایک پیر صاحب نے میڈیا میں ’’ اِن‘‘ ہونے کی بڑی کوشش کی مگر اخبارات اور چینلز کے مرکزی دفاتر زیادہ تر لاہور یا کراچی میں ہیں اس لئے ان کا میڈیا میں ’’صحیح ہاتھ ‘‘ نہیں پڑا، علاقائی صحافی ان کی رقم بھی ہڑپ کرگئے چنانچہ انھیں ایک نئی ترکیب سُوجھی انھوں نے پنجاب کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں رکشوں کی پشت پر فلیکس لگوا دئیے پھر تو کام کچھ زیادہ ہی چل نِکلا، ان کی دیکھا دیکھی لا تعداد پیروں اور عاملوں نے تشہیر کا یہی طریقہ اپنایا، اب بے شمار رکشوں کے پیچھے اور دیواروں پر ان پیر صاحبان اور عاملوں کے فلیکس دکھائی دیتے ہیں۔ ’’ فری دم‘‘ کروانے کی ترغیب دی جاتی ہے کہا جاتا ہے ان جھوٹے پیروں اور عاملوں کے پاس جانے کا راستہ ہوتا ہے واپسی کا راستہ نہیں ہوتا ۔ اپنے مسائل کی دلدل میں ڈوبے لوگ شرک اور مزید مشکلات میں ڈوبتے جا رہے ہیں ۔

وہ یہ بھی نہیں سوچتے اللہ کے نیک بندے فلیکس، اخبارات ، جرائد ، چینلز یا سوشل میڈیا کا سہارا نہیں لیتے، میڈیا کے ذریعے اپنی تعریف کے پُل نہیں باندھتے، خدائی دعوے نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ نے آقائے دوجہانﷺ کو وحی کے ذریعے کہہ دیا ’’ کہ آپﷺ کہہ دیجئے کہ میں کسی فائدے یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتا اگر میں کسی فائدے کا اختیار رکھتا تو اپنے لئے بہت سارے فوائد اکٹھا کر لیتا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے کہ وہ جس کی چاہتا ہے سفارش اور دعا بھی قبول کرتا ہے مگر جس کی اللہ چاہے ۔ ہر مسلمان کیلئے قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنا اور قرآن کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ ’’جو لوگ حتمی دعوے ‘‘ کرتے ہیں وہ شِرکیہ کلمات بولتے ہیں یا لکھتے ہیں، نعوذ باللہ یہ تاثر پیش کرتے ہیں کہ نظام قدرت ان کے حکم سے چل رہا ہے۔ بعض پیر صاحب تو محض لاوڈاسپیکر پر پھونک مار کر ہی ہر کام ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔

’’ جدید نام نہاد پیروں اور عاملوں کا اصل شکار تارکین وطن‘‘
جب سے کچھ چالاک اور نوسر باز ٹھگ پیر اور عامل سوشل میڈیا میں ’’ اِن ‘‘ ہوئے ہیں ان کا اصل ٹارگٹ مسائل میں دھنسے ہوئے تارکین وطن ہیں وہ انھیں ’’اُلو‘‘ بنانے کی فیس ڈالروں، پاؤنڈز اور غیر ملکی کرنسی میں وصول کرتے ہیں، ہر سال تقریباً 90 ہزار تارکین وطن جعلی پیروں اور عاملوں کے ہاتھوں لوٹے جاتے ہیں ۔ اس کی اصل وجہ کمزور ایمان ، اسلامی تعلیمات سے دُوری اور اعتقاد کی خامی ہے ۔

’’ اولیاء کرام کی تعلیمات‘‘
کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں اسلام اولیاء کرام کی تعلیمات کے نتیجے میں پھیلا ، اگر ان اولیاء کرام کی زندگیوں کا بغورجائزہ لیا جائے تو فوراً یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ اپنے دورکے سب سے بڑے عا لم فاضل تھے، حضرت داتا گنج بخشؒ کی حیات مبارکہ پر نظر دوڑانے سے ان کا علمی مقام سامنے آتا ہے، کشف المحجوب اور دوسری تصانیف کے علاہ ’’دیوان‘‘ کے نام سے شاعری کا مجموعہ بھی موجود ہے، آپ نے شہر شہر گھوم کر بہت سے اساتذہ سے علم حا صل کیا۔ علِم کی تلاش میں ہزاورں میل کا سفر کیا، سلسلہ چشتیہ کے حضرت خواجہ معین الدینؒ چشتی نے آپ کے مزا پر چلہ کشی کی اور اپنا مطلوب پایا تو بے اختیار انکی زبان پر یہ شعر جاری ہوگیا۔
’’گنج بخش فیض عالم مظہر نورِ خدا
نا قصاں را پیر کامل کا ملاں را را ہنما‘‘
تمام اولیاء کرام نے علم میںکمال حاصل کیا ۔ تما م اولیاء کرام نے اللہ کی وحدانیت کا درس دیا۔ خود بھی شرع کے پابند رہے دوسروں کوبھی شرع کی پابندی کا درس دیا ۔ نفس کشی کے ذریعے روحانی کمالات حاصل کئے ،غیر مسلموںکو اسلام کی جانب مائل کرنے کیلئے انھوں نے بعض اوقات کمالات اور کرامات کا مظاہرہ بھی کیا ۔ ان کی دعاؤں میں خاص تاثیر تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو قبو لیت کا شرف بخشا مگر ان کے عقیدت مند ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی بجائے غیرشرعی حرکات کرتے ہیں اور بعض اوقات شرک کے مرتکب ہوئے ہیں ۔

’’گندے برتن میں پاک چیز نہیں ڈالی جاتی‘‘
میرے ایک دوست جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر دنیاوی نعمت سے نواز ہوا تھا، وسیع و عریض کاروبا، لاہور ڈیفنس میں شاندار بنگلہ اس کے علاوہ بھی بے پناہ جائیداد، خوبصورت بیوی اور بچے، معاشرتی اسٹیٹس، عزیزوں اور دوستوں میں ہر دلعزیز، چند سال پہلے چولستان میں ہونے والی کا ریس میں شامل ہونے کیلئے چند دوستوں کے ساتھ لاہور سے روانہ ہوئے، یہ لوگ گھومتے پھرتے چولستان کی طرف رواں دواں تھے، دوران سفر ایک سنسان جگہ پر ایک کٹیا سی نظر آئی ویسے تو راستے میں ایسے بے شمار مناظر ملتے ہیں، مگر نجانے اس کے دل میں کیا خیال آیا اپنے باقی دوستوں کو کہنے لگا، ’’یہاں کچھ دیر رُکتے ہیں اگر یہاں گرما گرم چائے ملتی ہے تو پی کر آگے نکِلتے ہیں‘‘ وہ اپنی جیپ کٹیاکے پاس لے گئے وہاں ایک ستر یا پچھتر سال کے بابا جی بیٹھے ہوئے تھے، سلام دعا کے بعد انھوں نے چائے پینے کی غرض وغائیت بیان کی، باباجی نے چولھے میں لکڑیاں سلگائیں اور چائے بننے کیلئے رکھ دی ۔ وقت گذارنے کیلئے چند باتیںشروع ہوئیں پتہ چلا کہ باباجی عرصہ دراز سے یہاں رہتے ہیں۔

ا ن کی تھوڑی سی زمین ہے ۔ کھیتی باڑی کرتے ہیں اس سے جو رقم حاصل ہوتی ہے اس سے اپنا بھی گزارہ کرتے اور مسافروں کی بھی خاطر تواضع کرتے ہیں اگر کسی کی گاڑی وغیرہ خراب ہو جائے تو ان کی ہر ممکن مددکرنے کی کوشش کرتے ہیں اگر کوئی اپنی خوشی سے کوئی معاوضہ دینے کی کوشش کرے تو انکار کردیتے ہیں۔ جب یہ لوگ چائے پی کرچلنے لگے تو میرے دوست نے دعا کیلئے کہا، بابا جی نے ہاتھ اٹھا ئے اور کہا کہ ’’ اے مییرے مالک ، تیرے ان بندوں نے مجھ حقیرکو دعا کے لئے کہا ہے تو ان کی دنیا و آخرت سنواردے‘‘ یہ لوگ آ گے چلے گئے مگر جب واپس آ ئے تو عجیب سی بات ہوئی کہ میرے دوست کو پے در پے مالی نقصانات شروع ہوگئے، صرف ڈھائی سال کے اندر یہ صورتحال ہوگئی کہ اس کی ساری جائیداد، بزنس اور ہر چیز ختم ہوگئی۔ پیسے پیسے کو محتاج ہوگیا، جب کچھ بھی نہ رہا تواُسے ایک دم بابا جی یاد آئے ۔ دل میں خیال آیا کہ انھیں مِلنا چاہیے، مِلنے والوں سے کچھ پیسے لئے۔ بس کے ذریعے اس جگہ پہنچا، بابا جی وہاں موجود تھے، اُس نے سلام و دعا لینے کے بعد باباجی کو اپنے حالات بتائے، لوگوں کے روّیے کے متعلق بتایا کہ کسِ طرح سب نے اُسے ذلیل و خوار کیا ہے اب لوگ اُسے کیسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

حتیٰ کہ تمام قریبی عزیز اور دوست جو اچھے وقتوں میںاُسے ایک آئیڈیل شخصیت قراردیتے تھے کس طرح اس کا مذاق اڑاتے تھے اُسے مِلنے سے ہی گریز کرتے تھے کہ کہیںوہ پیسے نہ مانگ لے۔ وہ بولتا جا رہا تھا اپنے دل کا غبار نکال رہا تھا ۔ جب وہ خاموش ہوا تو بابا جی بولے’’ یہ دنیاوی اور پیسے کے رشتے ہیں جو صرف مفادات اور پیسے سے ہی جڑے ہوتے ہیں، غرض و غائیت کے رشتے پائیدار نہیں ہوتے، اگر پائیدار بھی ہوں تو مرنے کے بعد یہ رشتے بھی ختم ہو جاتے ہیں سب اپنے ہی ہاتھوں سے منوں مٹی تلے دبا کر جلدی جلدی واپسی کا راستہ لیتے ہیں، یہ دنیا نا پائیدار، یہ رشتے ناپائیدار ، یہ دولت ، یہ کاروبار یہ شان وشوکت غرض ہر شے ناپائیدار، یہ سب کچھ بندے کو اپنے خالق ومالک سے دورُ کرتے ہیں ، یہ سب کچھ انسان کواس طرح الجھا دیتا ہے کہ اُسے اللہ کو یاد کرنے کا موقع ہی نہیں ملتاِ، حتیٰ کہ فرض پورے کرنے کا موقع نہیں ملتاِ، اتنا بھی وقت نہیں ملتا کہ سوچ سکیں کہ یہ سب کچھ کس نے دیا ہے؟ کیوں دیا ہے؟ اور اب ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اس کا شکر ادا کرنے کا اصل طریقہ کیا ہے؟ ’’کہنے لگے کہ انسان اگر اس شان و شوکت اور آسائشوں کے ساتھ اس طرح مر جائے کہ حقوق اللہ ایک طرف اس کا شکر ادا کرنے کا موقع بھی نہ مِلے تو اس کا قبر اور آخرت میں کیا حال ہوگا؟ زندگی باقی ہو تو اس کی طرف رجوع کرنے کا موقع بھی مِل جاتا ہے۔

کھیل تماشوں نے ہمیں بڑی غفلت میں ڈال دیا ہے، ہمارے پاس سب چیزوں کیلئے وقت ہے اس کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے، اس کا شکر ادا کرنے کا وقت نہیں ہے، اس کی مخلوقات کی خدمت کرنے کا وقت نہیں ہے، ہنستے ہوئے لوگوں میں ہلہّ گلہ کرنے کا وقت ہے۔ دّکھی اور بے کس لوگوں کے آنسو پونچھنے کا وقت نہیںہیں، یہاں سب کچھ ختم ہو جاتا ہے صرف ایک تعلق ہی باقی رہتا ہے، اللہ کے ساتھ تعلق ، جو پیدا ہونے سے پہلے بھی تھا، اب بھی ہے، عالم نزع میں بھی ہوگا ، قبر میں بھی ہوگا، مرنے کے بعد بھی ہوگا، قیامت والے دن بھی ہوگا اور قیامت کے بعد بھی ہوگیا ، یہ کہہ کروہ خاموش ہو گئے، میرا دوست ایک گہری سوچ میں چلا گیا۔ باباجی نے پوچھا ’’اب اس کے پاس کچھ موجود ہے؟ کہنے لگا کہ اس کی بیوی کے پاس تین چار تولے سونا ابھی تک موجود ہے‘‘۔ باباجی خاموش ہوگئے۔

اُس نے پینے کیلئے پانی مانگا ۔ باباجی ایک گندے سے برتن میں جس میں کچھ گدلا پانی بھی موجود تھا، دودھ ڈالنے لگے تو اس نے منع کردیا ، کہنے لگا کہ برتن تو صاف کر لیں‘‘ باباجی نے کہا ’’ہم بھی تو اپنے مالک وخالق اور رازق کو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ’’گندے مال والے برتن میں اپنا پاک مال بھی ڈال دو، ہمارے گندے باطن میں’’حق ڈال دو‘‘۔ یہ کہہ کر وہ کچھ دیر خاموش رہے پھرایک دم جیسے عالم استغراق میں کھو گئے اور ’’ سبحان اللہ ‘‘ کا وَرد کرنے لگے کچھ توقف کے بعد دوبارہ گویا ہوئے’’ اللہ پاک ‘‘ ہے، اس کے قریب پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے، اپنے باطن کوپاک کرو، اپنے مال کو پاک کرو، اپنے رشتوں کو پاک کرو، اپنے اعمال کو پاک کرو، اپنی زبان کو پاک کرو، اپنے خیالات کوپاک کرو، جب سب کچھ پاک ہو جاتا ہے تو پھر یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ وہ سب کو پالنے والا ہے، اس کی صفات میں اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں، وہ اس کائنات کا سب سے بڑا ہے، اس کائنات کا خالق ومالک اور سب کو پالنے والا ہے، وہ اپنے بندوں کو خوش دیکھ کر خوش ہوتا ہے انھیں پریشان دیکھ کر نہیں، اپنے بندوں کو معاف کردینے میں خوش ہوتا ہے، انھیں’’سزا دیکر نہیں‘‘ ۔ وہ بولتے رہے میرا دوست کہتا ہے کہ اس کے اندر کی دنیا ہی بدل گئی ۔

وہ واپس آیا تو اُس نے اپنے ’’ اسٹیٹس‘‘ کی پروا کئے بغیر زیور بیچ کر چھوٹا سا کام شروع کیا، لوگوں نے بڑے طعنے دیئے مذاق اڑایا مگر اس نے کسی چیز کی پرواہ نہیں کی مگر اب صرف حرام و حلال کا خیال رکھا، نماز کی پابندی کی، اللہّٰ نے اس کی مدد کی اور وہ دوبارہ خوشحال ہوگیا، سب پرانے دوستوں نے اس کے ساتھ چمٹنے کی کوشش کی مگر اب اس کا سارا دھیان اللہّٰ اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی کی طرف تھا ۔ مجھے ایک دفعہ اُس نے کہا کہ باباجی کی دعا سے اس کے دونوں جہاں سنور گئے ہیں۔

’’ اپنے لئے خود دعا کرو‘‘
مجھے ایک دفعہ ایک ایسی صاحب کمال ہستی سے ملنے کا اتفاق ہوا کہ جن کی زندگی صرف شریعت کے تا بع تھی، رزق حلال کماتے، اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اخراجات انہی پیسوں میں پورے کرتے ، لوگ نقدی اور اجناس کی صورت میں نذرانے بھی پیش کرتے مگر اُسے اُسی وقت ضرورتمندوں میں بانٹ دیتے ، کہتے’’ میں تو صرف تقسیم کار ہوں یہ مال اللہ تعالیٰ نے دوسروں کیلئے بھیجا ہے‘‘ میں نے انھیں اپنے لئے دعا کیلئے کہا تو کہنے لگے’’ آپ اپنے لئے خود دعا کریں آپ کی اللہ تعالیٰ سے کوئی لڑائی ہے کیا؟ اگر وہ آپ کی دعا ہی نہیں سنے گا تو دوسرے کی آپ کے حق میں کی گئی دعا کیوںسنے گا ؟ آپ اپنے حق میں زیادہ رقت، دل سوزی اور خشوع وخضوع کے ساتھ دعا مانگ سکتے ہیں‘‘ کچھ توقف کے بعد کہنے لگے کہ آج کل کے پیر اپنے سب مُریدوں کو اپنے اعمال کی درستگی سے یہ کہہ کر روک دیتے ہیں کہ ہماری دعائیں تمھار ا ’’ بیڑا پار ‘‘کردیں گی۔ اس سے بندے اور رب کا تعلق کمزور ہوتا ہے، سب سے پہلا تعلق معبود اور بندے کا ہی ہوتا ہے۔

اس تعلق میں کوئی پردہ کوئی چیز حائل نہیں ہے حتیٰ کہ انسان کے گناہ بھی حائل نہیں ہیں وہ گناہ گاروں کی پکار بھی سُنتا ہے بلکہ زیادہ سنتا ہے کہ ہر قسم کے گناہ کرنے کے باوجود میرا بندہ مجھے ربّ تو تسلیم کرتا ہے، مانگتا تو مجھ سے ہی ہے اس کا بھروسہ تو مجھ پر ہی ہے‘‘ ان کے چہرے پر ایک لازوال قسم کا تبسم تھا۔ پھر دوبارہ کہنے لگے’’اگر آپ کی دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں تو اللہ کو راضی کر لو، اس کے اور بندے کے درمیان کوئی نہیں ہے۔ اللہ کا کہا مانو اس کا حکم مانو اس کی اطاعت کرو، اور اس کا طریقہ ہمیں ہمارے رسولﷺ ، صحابہ کرامؓؓ، اولیا کرامؒ اور بزرگانِ دین نے بتایا ہے۔ اللہ والے بندے اور اللہ کا تعلق مضبوط بناتے ہیں، شرک سے منع کرتے ہیں‘‘ ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے کہ ’’ آؤ مل کر دعا کرتے ہیں‘‘ پھر یہ الفاظ بولے ’’ اللہ تیری رحمتیں اور مہربانیاں پوری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہیں تیری رحمتوں کی روشینوں نے تیرے غضب ،غصے اور جلال کو بھی چھپا دیا ہے ہماری زندگیوں میں اپنی برکات شامل فرمادے، ہمیں ایسا بنادے کہ ہم شیطانی وسوسوں سے بچ سکیں ، ہماری شیاطین سے دوری فرما دے ،اپنے نزدیک کر لے، ہمیں شیطان کے لشکر میں شامل نہ ہونے دینا، ہمیں اپنے لشکر میں شامل فرما۔آمین‘‘اس دن کے بعد آج تک مجھے ایک ہی خیال رہا کہ بندے اور معبود کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے، وہ سب کا رب ہے اور سب کی طرف متوجہ ہے۔

’’ اللہ کے بندے کی دعاؤں کا اثر‘‘
ایک دفعہ ایک ایسی روحانی شخصیت سے ملِنے کا اتفاق ہوا کہ جن کی زبان پر خاص تاثیر ہے،کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس پہنچنے والوں کی دعائیں رَد نہیں ہوتیں ۔ یہ شخصیت اب بھی حیات ہیں۔ میں نے اُن سے سوال کیا ’’ آپ کی دعاؤں کی قبولیت یا زبان کی تاثیر کی اصل وجہ کیا ہے؟ کچھ دیر خاموش بیٹھے میری طرف دیکھتے رہے جیسے کچھ سوچ رہے ہوں پھر کہنے لگے ’’ جب میرے پاس کوئی دعا کیلئے آتا ہے تو میں اللہ تعالیٰ سے صرف یہ دعا مانگتا ہوں کہ ایک بندہ تیرے راستے پر چل کر آگیا ہے اُسے اس راستے سے نَکلنے نہ دینا اس کی حاجات پوری کرنا تاکہ یہ صرف تجھ سے مانگیں ، تیرے اوپر بھروسہ رکھیں، ساتھ ہی میں انھیں دین کے بنیادی احکامات سے آگاہ کرتا ہوں ۔

شریعت اور دین کا راستہ بتاتے ہیں، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا کا راستہ بتاتے ہیں ہر گناہ سے بچنے کی ہدایت کرتے ہیں‘‘۔کہنے لگے کہ اگر شیخ (پیر صاحب) کامل ہو یعنی شریعت کا پابند ہو تو وہ اپنے مریدین کی اپنے ساتھ محبت اور عقیدت کو انھیں گمراہی کے راستے سے روکنے کیلئے استعمال کرتا ہے، مریدین اپنے شیخ کی ناراضگی کے خوف سے ایسا کام کرنے سے اجتناب کرتے ہیں کہ پیر صاحب ناراض نہ ہو جائیں مگر پہلی بات ہی یہ کرتے ہیں کہ ’’ اگر اللہ تعالی آپ کے حق میں کی گئی دعا قبول کرے تو دوبارہ کبھی کوئی ایسا کام نہ کرنا کہ آپ کی اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے دُوری ہو‘‘ ، میرے ایک اور سوال کے جواب میں انھوںنے کہا ’’اللہ والوں کا بندے اور معبود کے تعلق کو مضبوط بنانے کیلئے اپنا اپنا طریقہ ہے، دراصل اللہ اپنے جن بندوں سے خوش ہوتا ہے ان کی اس دنیا میں عز ت و توقیر بڑھانے کیلئے ، مخلوق کو اُن کی طرف رجوع کرنے کیلئے ان کی زبان میں تاثیر پیدا کر دیتا ہے، اپنے بندوں کی دلجوئی کیلئے ان کی زبان سے نِکلے ہوئے الفاظ کو رَد نہیں کرتا، وہ اپنی تمام مخلوق کو اپنی نعمتوںسے نوازنا چاہتا ہے، کبھی وہ اپنے ہی محبوب بندوں کو بھی وسیلہ بنا دیتا ہے۔ وہ بڑا بے نیاز ہے مگر شرط صرف یہ ہے کہ اس کے ’’ملک‘‘ میں اسکی حکم عدولی نہ کی جائے۔

’’ ہر موسم اپنا وقت پورا کرتا ہے‘‘
میرے ایک دوست کے مالی حالات ایک دم خراب ہوگئے، رشتہ داروں اور دوستوں نے بھی نظر پھیر لی ، وہ جس کام میں ہاتھ ڈالتا اسے ناکامی ہوتی، تنگ آکر اُس نے پیروں، فقیروں اور عاملوں کی طرف رجوع کیا، کسی نے اُسے کہا کہ اس پر جُادو کروایا گیا ہے، کسی نے کہا کہ بندش کروائی گئی ہے کسی نے نظر بَدکا بتایا، ایک اشتہاری عامل نے اُسے کاغذ پر چھپی ایک ’’ لوح ‘‘ بھی دی اور اس کا بھاری ’’ ہدیہ‘‘ وصول کیا، پیروں فقیروں سے دعا کروانے اور انھیں ’’نذرانے ‘‘ پیش کرنے سے مزید زیر بار ہوگیا، ایک دفعہ وہ پریشان حال کسی پوش علاقے کی گرین بیلٹ میں بیٹھا تھا کہ کسی کوٹھی کا چوکیدار اس کے پاس آگیا، دُبلا پتلا جسم چھوٹا قد اور سیاہی مائل رنگت ، پوچھنے لگا ’’پریشان کیوں ہو؟ دوست کا تذبذب دیکھ کر کہنے لگا، ’’ بتا دو شائد اللہ تعالیٰ کچھ سبیل پیدا کردے‘‘۔

دوست نے اسے اپنے حالات اور کوششوں کی ناکامی کے متعلق بتایا ، کہنے لگا ’’ اگر جادو ہے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نہیں ہو سکتا، اللہ کی طرف متوجہ رہو۔ حق آخر کار باطل پر غالب آکر رہتا ہے، اپنے اعمال ٹھیک کرو اور اللہ تعالیٰ کو ہر شے پر قادر سمجھو، اگر بَد نظرہے تو شکر کرو کہ جان کی بجائے مال پر لگی ہے۔ اگر بندش ہے تو بھی اللہ تعالیٰ ’’ فتاح‘‘ ہے وہ ہر بندش کھول دیتا ہے مگر یاد رکھو انسان کی زندگی میں جب گرمی کا موسم آتا ہے تو وہ وقت پورا کر کے ہی جاتا ہے تمھاری زندگی میں گرمی کا موسم ‘‘ آگیا ہے یہ وقت پورا کر کے ہی جائے گا، مگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کی پیروی کرو، صرف اللہ ہی سے مدد مانگو، اگر وہ ابھی نہیں بھی دیتا تب بھی صرف اُسی کو پکارو، پھر بھی نہیں دیتا ، تب بھی اُسی کو پکارو، اگر اس دنیا میںکبھی بھی نہیں دیتا، تب بھی صرف ’’ رزاق‘‘کو ہی پکارا جا سکتا ہے۔

اس کے سوا کوئی اور عطا نہیں کر سکتا، اس کے سوا کوئی پکار سننے والا نہیں ہے، مومن کا ایمان یہی ہے کہ اُسے صرف اللہ پر ہی یقین اور بھروسہ ہوتا ہے، اس کے سوا کسی اور پر بھروسہ رکھنے والا کامل ایمان والا نہیںہوتا، اس کے ’’در‘‘ پر بیٹھ جاؤ اور اس وقت تک نہ اٹھنا جب تک تمھارے دل میں دعا کی قبولیت کا خیال پیدا نہ ہو جائے‘‘ ۔ میرا دوست اسکی باتیںسنتا رہا اس کی شکل دیکھتا رہا ، جب وہ وہاں سے اٹھ کر آیا تو اسے احساس ہوا کہ ’’ اسلام میں گورے کو کالے اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیں مگر تقویٰ کی بنیاد پر‘‘۔

اُس نے عہد کیا کہ وہ غیر اللہ سے کوئی توقع نہیں رکھے گا اور عبادات کے ذریعے اپنی زندگی میں آنے والا ’’گرمی کا یہ موسم ‘‘ گزارنے کی کوشش کرے گا، کچھ عرصہ بعد اس کے مالی حالات بہتر ہوگئے مگر وہ آج تک اس بات کا شکر اد اکرتا ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں اُس نے ’’غیر اللہ ‘‘ پر بھروسہ کیا نہ ان کی مدد مانگی اور نہ ہی حالات کی بہتری کیلئے شرح سے ھٹ کر کوئی کام کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے صبر عطا کیا، خراب حالات میں اس کی عاقبت خراب نہیں ہوئی وگرنہ لوگ جلد ہی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عاملوں، جادوگروں، نوسر باز وں، ٹھگوں اور عجیب و غریب غیر شرعی عملیات کے ذریعے دنیاوی حالات بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اکثر کہتا ہے کہ خراب حالات میں ہی بندے کے ایمان کا پتہ چلتا ہے اور یہ کہ اس کا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہے یا وہ اپنے حالات بہتر بنانے کیلئے دوسرے سہارے بھی ڈھونڈتا ہے، اللہ کے سوا کسی اور سے گمان رکھنا کہ وہ اس کی بگڑی سنوار سکتا ہے بد ترین شرک ہے، اس کے علاوہ غلط طریقے سے مالی حالات بہتر کرنے کی کوشش کرنا بھی بد ترین گناہ ہے، کہنے لگا کہ ایمان کی پہلی منزل ہی بندے اور معبود کا تعلق اور صر ف اللہ پر ہی بھروسہ کرنا ہے ۔

آج جب ہم اپنے آس پاس دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ بندے اورمعبود کا تعلق کمزور ہوتا جا رہا ہے، ہم نوسر بازوں، پیروں اور عاملوں کو نجات دہندہ اور دنیاوی کامیابیوںکا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ اللہ کے نیک اور بر گزیدہ بندے معبود اور بندے کے تعلق کو مضبوط اور گہرا کرتے ہیں، وہ بندے کو شرک سے نکالتے ہیں، ان کے اعمال کی درستگی کی تعلیم دیتے ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کرنے کی تلقین کرتے ہیں، اخلاقی پہلو سنوارنے کی تاکید کرتے ہیں، دوسروں کی دل آزاری اورغیبت سے منع کرتے ہیں ۔ خودغرضی کی بجائے ایثار کا درس دیتے ہیں ، روح کو پاک کرنے کے طریقے بتاتے ہیں، نام نہاد پیروں اور ٹھگ عاملوں نے مسلمانوں کا ایمان بہت کمزور کردیا ہے، معاشرے سے یہ فضا ختم کرنے کیلئے اجتماعی جدو جہد کی ضرورت ہے۔

’’ سائیں پار کروا دیںگے‘‘
ایک ایسے آستانے پر جانے کا اتفاق ہوا کہ جہاں وقت نماز کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔’’ پیر صاحب اور مریدین‘‘ نماز ادا کرنے کی بجا ئے ا پنی اپنی جگہ بیٹھے رہے، جب مریدین سے کہا گیا کہ نماز ایسا فرض ہے کہ جس کی کسی بھی صورت چھوّٹ نہیں ہے تو ایک مرید نے با آواز بلند کہا کہ ’’قیامت والے دن بھی سائیںبیڑا پار کروا دیں گے‘‘ ۔ پیر صاحب نے طنز یہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور اپنے معاملات میں مصروف ہوگئے۔

جادوگروں کے اشتہارات پر پابندی نہیں
یہ بھی عجیب بات ہے کہ بے شمار ٹھگ جادوگراور عامل ’’عمل ‘‘ کے ذریعے دشمنوں کو ہلاک اور تباہ وبرباد کرنے کے اشتہارات بھی علاقائی اور چھوٹے اخبارات اور رسالوں پر علی الاعلان چھپواتے ہیں ۔ ہر جگہ’’ وال چاکنگ ‘‘بھی کرواتے ہیں، مگر انھیں بھی گرفتار نہیں کیا جاتا، نہ ان کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے اور نہ ہی ایسے اشتہارات اور تشہیر پر کسی قسم کی کوئی پابندی ہے۔

’’ کالم نگار کی عقیدت‘‘
ایک دفعہ ایک نامورکالم نگارکی نواسی کو کسی پیر صاحب کی ’’پھونک ‘‘ سے افاقہ ہوگیا انھوں نے کالم میں اس بات کا ذکر کردیا ، پھر کیا تھا جس نے یہ کالم پڑھا وہ لاہور کے سرحدی علاقے میں رہائش پذیر’’ پیر صاحب ‘‘ کی طرف چل پڑا ، کافی عرصہ بعد حالات معمول پر آئے ۔ صحافیوں کی ’’ عقیدت ‘‘ سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔