سندھ کا 12 کھرب 17 ارب کا بجٹ پیش، تنخواہوں و پنشن میں 15 فیصد اضافہ

اسٹاف رپورٹر  جمعـء 14 جون 2019
بجٹ بغیر خسارے کا ہے جس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے (فوٹو: نیوز ایجنسی)

بجٹ بغیر خسارے کا ہے جس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے (فوٹو: نیوز ایجنسی)

 کراچی: سندھ حکومت نے مالی سال 20-2019ء کے لیے 12 کھرب 17 ارب 89 کروڑ 79 لاکھ روپے کا بغیر خسارے کا بجٹ سندھ اسمبلی میں پیش کردیا جس میں تنخواہوں اور پنشن میں 15 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے جمعہ کو آئندہ مالی سال 20-2019ء کے لیے صوبے کا بجٹ میزانیہ سندھ اسمبلی میں پیش کیا۔  بجٹ اخراجات کا تخمینہ 12 کھرب 17 ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں وفاقی حکومت سے صوبے کو 835 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے جبکہ صوبائی حکومت کے محصولات کا ہدف 355 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔

سندھ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کی مد میں 15 فیصد ایڈہاک اضافے اور محنت کشوں کی کم از کم ماہانہ اجرت 17 ہزار 500 روپے مقرر کرنے اور محکمہ پولیس میں 3 ہزار سے زائد پولیس اہلکار بھرتی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سندھ میں غربت میں کمی کے لیے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے انتخابی وعدے کے مطابق ” پیپلز پرومس پروگرام “ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے  نئے مالی سال کے بجٹ میں تعلیم صحت اور امن و امان کے شعبوں اور سماجی ترقی کواولین ترجیحات میں شامل کیا گیا ہے۔

سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 284 ارب روپے، تعلیم کے لیے 178 ارب، صحت کے لیے 114 ارب روپے اور امن و امان کے لیے 109 ارب روپے رکھے گئے ہیں، بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا مگر کئی ٹیکسوں میں ردوبدل کرکے متعدد شعبوں کو سیلز ٹیکس کے دائرے میں شامل کیا گیا ہے جس میں ای کامرس، آن لائن کاریں اور موٹرسائیکلیں چلانے والے، درزیوں، انشورنس ایجنٹوں، تعمیراتی مشینری فراہم کرنے والے، پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے والے، کچرا جمع کرنے والی کمپنیوں، غذائی اشیا اسٹوریج کرنے والوں کو بھی ٹیکس دائرے میں شامل کرلیا گیا ہے جب کہ  پروفیشنل ٹیکس اور انفرا اسٹرکچر سیس میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں وفاقی حکومت کے قابل تقسیم پول سے 761 ارب 1 کروڑ 62 لاکھ روپے، تیل اور گیس کی رائلٹی کی مد میں 53 ارب 90 کروڑ روپے اور آکٹرائے ٹیکس کے نقصانات کے مد میں 20 ارب 45 کروڑ 90 لاکھ روپے حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، محاصل اور غیر محاصل وصولیوں کی صورت میں 288 ارب 70 کروڑ 91 لاکھ روپے حاصل کرنے کی توقع ہے۔ ان میں صوبائی ٹیکسوں کی مد میں 121 ارب 51 کروڑ 68 لاکھ روپے، خدمات پر سیلز ٹیکس کی مد میں 145 ارب روپے اور غیر محاصل آمدنی کی مد میں 22 ارب 19 کروڑ 23 لاکھ روپے ملنے کی توقع ہے۔

مالیاتی ذرائع سے 11 ارب 20 کروڑ 50 لاکھ روپے حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، موجودہ بجٹ سے بچ جانے والے 5 ارب کو بھی آئندہ مالی سال کی آمدنی میں شامل کیا گیا ہے، محاصل اخراجات کا تخمینہ 870 ارب 21 کروڑ 72 لاکھ روپے لگایا گیا ہے اور کیپیٹل اخراجات 63 ارب 64 کروڑ 32 لاکھ روپے ہوں گے، 284 ارب 3 کروڑ 75 لاکھ روپے کے مجموعی سالانہ ترقیاتی پروگرام میں صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے 208 ارب روپے، غیر ملکی معاونت کے 51 ارب 14 کروڑ 80 لاکھ روپے، وفاقی گرانٹس کے 4 ارب 88 کروڑ 95 لاکھ روپے اور اضلاع کے ترقیاتی پروگرام کے 20 ارب روپے شامل ہیں۔ اس طرح صوبے کی مجموعی وصولیاں اور اخراجات 1 ہزار 217 ارب 89 کروڑ 79 لاکھ روپے کی یکساں سطح پر آگئے ہیں۔

وزیراعلی سندھ نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے وفاقی ٹرانسفرز کے 665.085 بلین روپے کے بجٹ تخمینہ سے 631.543 بلین روپے کی منظوری دی ہے لیکن اس طرح کے دعوے گمراہ کن ہیں، وفاقی حکومت اپنی مالی حیثیت کا جائزہ لینے میں ناکام رہی اور غلطی سے دو دن کے معاملات میں نظر ثانی شدہ وفاقی ٹرانسفارمرز کے دو مختلف اعداد و شمار کو مطلع کیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 11 ماہ میں، سندھ کو فیڈرل ٹرانسفرز کے حساب سے صرف 492.135 بلین روپے وصول ہوئے اور یہ متوقع ہے کہ مالی سال کے اختتام تک یہ کمی 117.527 بلین روپے تک پہنچ جائے۔

سندھ اسمبلی میں صوبائی بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ نے کہا کہ لگتا ہے کہ وفاقی حکومت نے کچھ اور ہی فیصلہ کیا ہوا ہے اپنی نااہلی اور کام نہ کرنے کے رجحان کے ساتھ وفاقی حکومت نے جانتے بوجھتے پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود کوخطرے کے نشان پر رکھ دیا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی تمام تر توانائیاں لوگوں کی خدمت کرنے پر صرف کر دی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ موجودہ وفاقی حکومت کی کام میں عدم دلچسپی دکھائی دیتی ہے کہ وہ اپنی محصولات کی وصولی کے اہداف کے حصول میں متواتر نا کام ہورہی ہے۔ 11 ماہ میں 447 ارب روپے کی ریکارڈ کمی کے ساتھ FBR کی کارکردگی گذشتہ سال کے دوران کم ترین سطح پررہی ہے نتیجے میں سندھ کو اس کے حصہ سے محروم رکھا گیا ہے اور وفاقی حکومت سے ہی حصہ نہ ملنے کی وجہ سے ہمیں 117.5 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔

وزیراعلی سندھ نے کہا کہ در حقیقت رواں مالی سال وفاقی حکومت نے اپنے سالان ترقیاتی پروگرام (ADP) میں سندھ کو مکمل نظر انداز کیا ہے سندھ کے لیے صرف 50 اسکیمیں رکھی گئی ہیں ہمیں ADP کا3.5 فیصد مل رہا ہے وفاقی حکومت کی سندھ اور اس کے عوام کے ساتھ کھلی دشمنی سے انکار نہیں کیا جاسکتا اس کے برعکس حکومت سندھ نہ صرف محصولات وصول کر رہی ہے بلک محصولات کی وصولی کے اہداف کوبھی عبور کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت کے اداروں اور وہ جو دیگر صوبوں میں ہیں کے برعکسSRBواحد محصولات وصول کرنے والا ادارہ ہے جو تواتر کے ساتھ کام کر رہا ہے۔

سال 11-2010ء کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیکس وصولی فقط 16.6 ارب روپے تھی لیکن سندھ حکومت نے رفتہ رفتہ این ٹیکس وصولیوں اضافہ کیا اور سال 18-2017 کے دوران ہم نے 100 ارب روپیلس وصول کیا جبکہ آئندہ مالی سال 20-2019 کے لیے ہم نے ٹیکس وصولی کا ہدف 145.0 ارب روپے مقرر کیا ہے۔

وزیراعلی سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے نشاندہی کی ہے کہ وفاقی منتقلیوں کے بجٹ تخمینے کے مطابق 665.085 ارب روپے پرنظرثانی کر کے 631.543 ارب روپے کر دیا گیا ہے لیکن تمام دعوے گمراہ کن ہیں۔ وفاقی حکومت اپنی مالی حالت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہی ہے اور کچھ ہی دنوں میں غلطی سے دو مختلف نظر ثانی شدہ منتقلیوں سے متعلق اعدادوشمار سے صوبوں کو مطلع کیا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 11 ماہ میں سندھ نے وفاقی منتقلیوں کی مد میں صرف 492.135 ارب روپے وصول کئے ہیں ۔ رواں مالی سال کے اختتام پر وفاقی منتقلیوں میں شارٹ فال 117.527 ارب روپے تک متوقع ہے۔ وفاقی حکومت آمدن بڑھانے میں ناقص کارکردگی کا الزام فیڈرل بورڈ آف ریونیو پر عائد کر رہی ہے لیکن یہ بالکل عیاں ہے کے ڈھانچے میں اصلاحات لا نا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔