سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  ہفتہ 15 جون 2019

خانہ پُری
اتنا ’’سونا‘‘ ٹھیک نہیں۔۔۔!
ر۔ ط۔ م

گئے وقتوں میں لین دین کے لیے سونے چاندی کو بطور تبادلۂ جنس استعمال کیا جاتا تھا۔۔۔ پھر ذرا ترقی جوہوئی تو سونا چاندنی تو ہوا ایک طرف، ایک چھوٹے سے کاغذ پر اس کی ’مالیت‘ لکھ کر اس کی ’قیمت‘ اور اس کے ذریعے ہماری ’امارت‘ کا تعین کر دیا گیا۔ اب حجم کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ ایک طبع شدہ کاغذ ہے، جس پر اس کی ’رقم‘ درج ہے اور یہاں سے وہاں تک اِسے ’زر‘ مان بھی لیا گیا ہے۔۔۔ مگر اس ’زر‘ کی قیمت بھی دراصل اُسی پرانے خزانے سے نتھی ہے، جن میں اب بھی سونا خاصا نمایاں ہے، اس لیے کچھ سیانے آج بھی اپنے ’اثاثے‘ سونے کی صورت میں محفوظ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ روپیے کا کیا بھروسا کب آج کے انسان سے بھی زیادہ گرا چلا جائے۔۔۔ لیکن بہت سے سمجھ دار لوگ سونے کے ذریعے اپنے مالی مقاصد بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ پھر آج کل تو لوگوں کے طرز زندگی پر خاص نظر رکھی جانے لگی ہے کہ کہیں سے کوئی سُن گُن ملے اور پھر اس کی رسیدیں مانگی جائیں، اور آمدن سے زائد اثاثوں کی کھوج لگے، پوری تفتیش ہو۔۔۔ تفیش سے ہمیں یاد آیا کہ کچھ بااثر افراد کے گھروں سے بھاری مقدار میں ’سونا‘ برآمد کی خبریں کسی نہ کسی طرح منظر عام پر آئی تھیں، لیکن بوجوہ ان خبروں سے مجموعی طور پر لاتعلقی کا ایسا رویہ رکھا گیا، ورنہ اگر ایسی اطلاعات اگر افواہ کی شکل میں بھی ہوں، تو کم سے کم ان کی تردید تو بڑے زور شور سے کر دی جاتی ہے۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

خیر، اب پتا نہیں انہیں بچپن میں یہ سبق پڑھایا گیا تھا یا نہیں کہ ’اتنا ’’سونا‘‘ ٹھیک نہیں۔۔۔!‘‘ کتنے دوراندیش لوگ تھے نا، ہمیں قبل از وقت ہی اگلے وقت کا سبق پڑھا گئے، حالاں کہ تب تو ’نیب‘ وغیرہ جیسے ادارے بھی نہیں تھے۔۔۔ اسی ’نظم‘ میں ہمیں آگے یہ بھی پڑھایا گیا کہ ’’سورج نکلا تارے بھاگے، دنیا والے سارے جاگے۔۔۔‘‘ اب آپ کہیں گے کہ میں اچھے بھلے نصاب کو سیاسی بنا رہا ہوں ، لیکن آپ خود سوچیں سیاسی اور سماجی دنیا کے کتنے ’تارے‘ ایسے ہیں جو سورج کی عدم موجودگی میں اپنی چمک دکھانے کا شوق پورا کرتے ہیں، کیوں کہ انہیں پتا ہوتا ہے، جس دن سورج نکل گیا اس دن تاروں کو بھاگنا ہی پڑے گا۔۔۔ (ہمارے تاروں کے بھاگنے کی من پسند جگہیں دبئی، لندن اور امریکا ہیں) پھر شاعر نے یہ بھی بتایا کہ تاروں کے بھاگتے کے ساتھ ہی دنیا والے جاگ جاتے ہیں، بہ الفاظ دیگر جب تک سورج کی غیر حاضری میں ستارے چمکتے ہیں، تب تک دنیا والے سونے میں لگے رہتے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔۔۔

بہت سے لوگ سورج کے آگے چادر تان کر بھی یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ سورج نہیں رہا۔۔۔ لیکن سورج اسی طرح چمک رہا ہوتا ہے، جب سورج کے آگے سے چادر ہٹتی تو وہ ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے پاس تو اتنا ’سونا‘ ہوتا ہے کہ وہ اپنے

بچوں تک کو سونے کے نوالے کھلاتے ہیں، لیکن دیکھتے شیر کی نگاہ سے ہیں۔

یوں تو سونے کا بنیادی ماخذ (بے نامی کھاتوں کے علاوہ) زمین ہی ہے، لیکن قیمتی زمین کے لیے بھی یہ محاورہ کہا جاتا ہے کہ یہاں ’زمین بھی سونا اُگلتی ہے‘ حالاں کہ ابھی زمین نے سونا اُگلا بھی نہیں ہوتا کہ اِسے نگلنے کے لیے دسیوں منہ آن لگتے ہیں۔۔۔ بہت سے اداروں اور عہدوں کو بھی سونے کی چڑیا سے تعبیر کیا جاتا ہے، مراد یہی ہوتی ہے کہ یہ بہت منفعت بخش ہیں اور ’سونے پہ سُہاگہ‘ یہ ہے کہ یہ ’سونے کی چڑیا‘ ملتی بھی انہیں ہی ہے جو پہلے ہی بہت سونا لیے بیٹھ ہوئے ہوتے ہیں۔

سونے کی ’سماجی‘ اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ہمارے ہاں لوگوں کی اچھائی بھی کچھ اس طرح بتائی جاتی ہے کہ ’بھئی فلاں آدمی تو ’سونا‘ ہے۔۔۔!‘ کچھ لوگوں کے من بھی سونے جیسے ہوتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس بہت سے من کالے بھی ہوتے ہیں۔۔۔ اس لیے ایک شاعر نے دعا کی کہ ’دل کے کالوں سے اللہ بچائے!‘

۔۔۔

تحریر کیسے رقم ہوتی ہے؟
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر
خوشی تخلیق کرنے کے لیے تکلیف کے اَن گنت سنگ میل عبور کرنے پڑتے ہیں۔ الفاظ صفحہ قرطاس پر ظاہر ہونے سے پہلے شعری وریدوں کو زہر میں بُجھے ہوئے خنجروں سے چھیدنے کا وصف رکھتے ہیں اور عین اسی لمحے جب ایک لکھاری گئی رات میں بستر کی راحت سے جدا، نیم روشن گوشے میں سر جھکائے سیاہ و سفید معجزے تخلیق کر رہا ہوتا ہے تو اس کے لہو میں پھیلتے احساس کے زہر سے اس کی بینائی دھندلانے لگتی ہے۔۔۔ پپوٹے نیلگوں ہو کر پھول جاتے ہیں۔۔۔ اور لہو کی نمکین چپچپاہٹ اس کی دریدہ انگلیوں سے رِس کر کاغذ پر بین السطور وہ حکایت دل رقم کرتی ہے جسے پڑھ پانا فقط سچے اہل بصیرت کے لیے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اس لیے تحریر کا۔۔۔ لکھاری کا۔۔۔ اس کے لفظ اور قلم کا احترام کیا کیجیے۔

۔۔۔
لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی ہے۔۔۔
مرسلہ: سید اظہر علی، گلشن اقبال

محل وقوع: ایک دو غلط فہمیاں البتہ ضرور رفع کرنا چاہتا ہوں۔ لاہور پنجاب میں واقع ہے، لیکن پنجاب اب پنج آب نہیں رہا۔ اس پانچ دریاؤں کی سرزمین میں اب صرف ساڑھے چار دریا بہتے ہیں اور جو نصف دریا ہے، وہ تو اب بہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اسی کو اصطلاح میں راوی ضعیف کہتے ہیں۔ ملنے کا پتا یہ ہے کہ شہر کے قریب دو پل بنے ہیں ایک کے نیچے ریت میں دریا لیٹا رہتا ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے اس لیے اب یہ بتانا بھی مشکل ہے کہ شہر دریا کے دائیں کنارے پر واقع ہے یا بائیں کنارے پر۔

لاہور تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں لیکن دو ان میں سے بہت مشہور ہیں۔ ایک پشاور سے آتا ہے اور دوسر دہلی سے۔ وسط ایشیا کے حملہ آور پشاور کے راستے، یوپی کے حملہ آور دہلی کے راستے وارد ہوتے ہیں۔ اول الذکر اہل سیف کہلاتے ہیں اور غزنوی یا غوری تخلص کرتے ہیں۔ موخر الذکر اہل زبان کہلاتے ہیں۔ یہ بھی تخلص کرتے ہیں اور اس میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔

حدود اربعہ: کہتے ہیں کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا لیکن طلبا کی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اسے منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے اور روز بروز واقع تر ہو رہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ دس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہوگا جس کا دارالخلافہ پنجاب ہوگا۔ یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصے پر ورم نمودار ہو رہا ہے، لیکن ہر ورم مواد فاسد سے بھرا ہے گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے جو اس کے جسم کو لاحق ہے۔

(’’پطرس کے مضامین‘‘ سے اخذ کیا گیا)

۔۔۔
’قاف‘ درست کرنے والی کہاوت
مرسلہ:سارہ شاداب،لانڈھی،کراچی
دلی کے شاہی قلعہ میں یہ رواج تھا کہ جس بچے کے منہ سے ’قاف‘ صاف نہ نکلتا تھا اُسے یہ کہاوت یاد کرائی جاتی تھی، اس کہاوت کو کہتے کہتے بچہ ’قاف‘ اچھی طرح سے کہنے لگتا تھا۔ یہ کہاوت کچھ یوں تھی ’’قاضی قوام الدین جی قربان بیگ کے قل پڑھنے جاتے ہوئے وہاں سے قلعہ قریب ہے، قلیدسے کہیو، کیا تو قانقیں کی قید میں مقید ہے، قصبہ کے قاضی قوی جی نے قاب قورمہ بھیجی ہے، قدم رنجہ کرو تو قوت قبول ہو۔‘‘

۔۔۔
پہلے ہمیں اپنے موبائل سے فرصت تو ملے۔۔۔
آمنہ احسن
زیادہ پرانی بات نہیں ہے، جب ہمارے گھروں میں ایک رواج یہ ہوتا تھا کہ جب بھی کسی چھوٹے بچے کو اس کی ماں، دادی دادا یا گھر کا کوئی بھی بڑا ساتھ لے کر بیٹھتا، تو اسے مختلف دل چسپ کہانیاں سناتا۔ وہ کہانیاں جن میں یہ بتایا جاتا تھا کہ کبھی خود سیگھر کا درواز نہیں کھولنا۔ وہ کہانیاں جن میں صلاح ہوتیکہ اکیلے سفر کرتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ وہ کہانیاں جو بتاتی تھیں کہ جان پہچان کتنی ہی پرانی ہو کسی پر خود سے زیادہ یقین نہیں کرنا چاہیے۔ وہ کہانیاں جن میں یہ سبق ہوتا تھا کہ مسائل سے دوچار ہونے کی صورت میں کیا احتیاطی تدابیر اپنائی جانا چاہییں۔ آج میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ جدید ذرایع اِبلاغ اور سوتے جاگتے ہر لمحہ فون کی اسکرین کی نذر کرنے والوں نے صرف کہانیاں سنانا ہی نہیں چھوڑیں، بلکہ اپنی ایک ایسی سنہری سماجی روایت کو کھو دیا جو ہمیں اپنے بچوں سے جوڑتی تھی اور انہیں اچھے برے کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی تھی۔ آج تو ہمیں اپنے موبائل فون سے فرصت نہیں، بلکہ بچے بھی اب موبائل میں چلتی پھرتی تصاویر سے ہی ’اچھا، برا‘ دیکھ لیتے ہیں، شاید اسی کا خمیازہ ہم ناخوش گوار واقعات کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

۔۔۔
وہ دن جو ٹھیرے نہیں کبھی۔۔۔
ہاجرہ غزالی، شادمان ٹائون،کراچی

زندگی کوئی گاڑی نہیں کہ چلتے چلتے رک جائے۔ کوئی چاہے اس کی کتنی ہی منتیں کرے ، یہ نہ سنتی ہے نہ سمجھتی۔ کبھی بہت سست روی کا مظاہرہ کرتی ہے، تو کبھی یک دم انتہائی تیز ہو جاتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب انسان چاہے کہ وقت تھم جائے تو زندگی ضد بن کر دوڑنے لگتی ہے اور جب وہ چاہے کہ یہ وقت تیزی سے گزر جائے، تو زندگی دھیمی ہو کر لمحے لمحے کے گزرنے کا احساس دلاتی ہے۔

یکایک اُس کی زندگی بھی دوڑنے لگی تھی۔ اْس نے چاہا کہ وقت رک جائے اور وہ ہر گزرتے لمحے کو اپنے اندر اتار لے۔ اپنی یادوں میں سمْو لے۔ اْس کچے آنگن میں پھولوں کے اْن گملوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سے باتیں کرے۔ اْن برساتوں کو یاد کرے جس میں برستی بارش میں وہ اپنی کاغذ کی کشتیاں نکالتی۔۔۔ اور ان کشتیوں کے بھیگ جانے پر کبھی تو ہنستی اور کبھی چڑ سی جاتی۔ اس کی کشتیاں کیوں منزل پر نہ پہنچ پاتیں، یہ اْس نے کبھی نہیں سوچا، لیکن اب سوچنا چاہتی تھی۔

وہ پھر گھر کی اُس چھت پر ایک بار پھر چڑھنا چاہتی ہے، جہاں جا کر ہمیشہ اْس نے اپنے گھر کو سجایا تھا۔ وہ گھر کے ارد گرد بکھری ان سڑکوں پر ٹہلنا چاہتی تھی، جن پر وہ شام گئے وہ سائیکل چلایا کرتی تھی۔ انہی گلیوں میں وہ کتنی دفعہ گری تھی، آج وہ اُن بھر جانے والے زخموں کو پھر سے محسوس کرنا چاہتی تھی۔ تب وہ گلی میں گھروں کے آگے بنے ہوئے تھلّوں اور چبوتروں پر ’اونچ نیچ کا پہاڑ‘ کھیلتی۔۔۔ آدھی رات تک تمام ہم عمر رشتے داروں کے ساتھ ’’کھو، کھو‘‘ کھیلا جاتا۔ وہ وقت کتنا خوب صورت تھا، جو اب خواب ہوا۔

وہ ہر بقرعید پر وہ محلے بھر کا گشت کرتی اور اکثر جانوروں کو ہاتھ لگا کر ’اللہ حافظ‘ کہا کرتی۔ جان بوجھ کر گھر سے پرے جا کر نئی گلیوں میں بھٹکتی اور گھر پہنچ کر امی سے ڈانٹ سنتی۔ انہیں کُوچوں سے تو اس نے زیست کی راہ میں کٹھنائیوں کا فلسفہ سمجھا تھا۔ وہ ایک بار پھر اسی طرح اپنے محلے میں گھومنا چاہتی تھی۔

وہ اْن 29 کچی سیڑھیوں کو ایک بار پھر گننا چاہتی تھی۔۔۔ وہ 29 زینے، جہاں کتنی ہی باربیٹھ کر وہ گھر والوں سے الگ بیٹھ کر روئی تھی۔ گھر کی دونوں منزلوں کو جوڑتی ہوئی یہ سیڑھیاں کتنی دفعہ اس کے آنسوئوں کی گواہ بنی تھیں۔۔۔ انہوں نے اِسے کبھی تنہا نہ چھوڑا۔۔۔ ایک اچھے اور باوفا دوست اور ساتھی کی طرح ہمہ وقت وہاں موجود رہیں۔

اسے اپنے اُس مکان سے کبھی محبت نہ تھی۔۔۔ اسے تو مسلسل ہجرتوں کی خواہش تھی۔۔۔ اس نے تو کہیں دور پہاڑوں کے درمیاں ایک چھوٹے سے مٹی کے گھر کا خواب دیکھا تھا، لیکن یہ مکان بھی تو اس کا گھر ہی تھا۔ وہ کیسے بھول جاتی اسے؟ اسے معلوم تھا ایک دن یہ آنگن مسمار کر دیا جائے گا اور یہاں پھر ایک پکا فرش تعمیر ہوگا۔۔۔ یہ برسوں پرانی وضع کی تعمیر والا مکان اب جلد ہی جدید طرزِ رہایش کا شاہ کار ہوگا۔

آج یہ جانتے ہوئے بھی کہ وقت نہیں رکتا وہ ایک دفعہ وقت روک دینا چاہتی ہے، بلکہ بیتے پلوں کی طرف پلٹ دینا چاہتی ہے، انہی لمحوں کو پھر ایک زندگی تک سوچنا چاہتی ہے۔۔۔ کچی عمر اور نہ پختہ سپنوں اور سچے جذبوں کو جینا چاہتی ہے، اپنا وہی ہنستا گاتا بے فکرا بچپن دُہرانا چاہتی تھی۔۔۔ بس ایک بار حقیقتًا زندگی جینا چاہتی ہے۔

صد لفظی کتھا
’’مسئلہ۔۔۔!‘‘
رضوان طاہر مبین

کی کچرا کنڈی کے قریب کچرا جلانے کے خلاف مظاہرہ ہو رہا تھا۔
بہت سے اساتذہ اور طالب علم شعور اجاگر کرتی ’تحریریں‘ تھامے کھڑے تھے۔
ایک کونے میں کچرا چُننے والے کچھ بچے بھی خوب نعرے لگا رہے تھے۔۔۔
’’ان بے چاروں کا تو روزگار ہی کچرے سے وابستہ ہے۔۔۔!‘‘
میں نے خود کلامی کی۔
پھر ایک بچے کے قریب جا کر اس بات کی تصدیق چاہی، وہ بولا:
’’نہیں صاحب۔۔۔!
ہمیں ’کچرا‘ تو کہیں نہ کہیں سے مل ہی جاتا ہے۔۔۔
لیکن کچرے کو آگ لگانے سے یہاں پڑے روٹی کے ٹکڑے بالکل نہیں کھائے جاتے۔۔۔!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔