سندھ بجٹ: حکومت کی کراچی میں آبی بحران پر عدم دلچسپی

سید اشرف علی  ہفتہ 15 جون 2019
نظرثانی شدہ پی سی ون کی وجہ سے دونوں منصوبے متنازع ہو گئے، وفاق کے تحفظات ہیں۔ فوٹو : فائل

نظرثانی شدہ پی سی ون کی وجہ سے دونوں منصوبے متنازع ہو گئے، وفاق کے تحفظات ہیں۔ فوٹو : فائل

کراچی:  سندھ حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں کراچی کے لیے پانی کے میگا منصوبےK-IVکے لیے صرف80کروڑ روپے مختص کیے ہیں جبکہ سیوریج کے میگا منصوبے SIII کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

کے فور میں تاخیر کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کو آئندہ برسوں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جو پہلے ہی پانی کی قلت سے دوچار ہیں جبکہ ایس تھری منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے لیاری و ملیر ندی کا گندا پانی بدستور بغیر ٹریٹمنٹ ہوئے سمندر میں گرتا رہے گا اور سمندری حیات کو بدستور نقصان پہنچتا رہے گا۔

وفاقی حکومت اور بالخصوص سندھ حکومت کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کا پانی کے بحران کا دیرینہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا، سندھ حکومت اور واٹر بورڈ کی نااہل افسران کی وجہ سے کے فور منصوبے کی لاگت 25.5ارب روپے سے بڑھ کر اب 75ارب روپے ہوگئی ہے۔

سندھ حکومت نے اپنی خامی چھپاتے ہوئے لاگت میں اضافے کی اسکروٹنی کے لیے کنسلٹنٹ کمپنی نیسپاک کو ٹاسک دیا ہے، سندھ حکومت کو بھی اندازہ ہے کہ کے فور منصوبہ متنازع بن چکا ہے۔ اس لیے صوبائی حکومت نے اگلے مالی سال میں صرف 800ملین روپے مختص کیے ہیں، ان امور کی وجہ کے فور منصوبے کی تکمیل اب انتہائی مشکل نظر آرہی ہے اور کراچی کے شہریوں کا ابھی مزید کئی سال پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر کراچی میں پانی کی فراہمی صرف 460ملین گیلن یومیہ ہے جبکہ ضرورت1100ایم جی ڈی ہے،640ایم جی ڈی کا شارٹ فال ہے، واٹر بورڈ نے 10 سال قبل کے فور منصوبے کی تشکیل کی تھی جس کے تحت650ایم جی ڈی پانی شہر میں سپلائی ہونا ہے، 2016 میںKIV کے فیز ون260ایم جی ڈی کا تعمیراتی کام شروع ہوا۔

منصوبے کے سنگ بنیاد کے موقع پر تعمیراتی لاگت 25.5ارب روپے تھی جس کیلیے وفاقی وصوبائی حکومتوں نے مساوی50فیصد فنڈ کے اجراکی منظوری دی ہے، منصوبے کو 2018 میں مکمل ہونا تھا تاہم لاگت میں اضافے اور واٹر بورڈ کی سست روی کی وجہ سے ابھی تک صرف20فیصد کام ہوسکا ہے۔

وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کے فور کے حوالے سے کہاہے کہ وفاقی حکومت نے اس منصوبے میں ابھی تک6.9ارب روپے فراہم کیے ہیں جبکہ سندھ حکومت7.9ارب روپے جاری کرچکی ہے، اس وقت یہ منصوبہ نیسپاک کے پاس ڈیزائن اور لاگت کے لیے بھیجا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ نے اپنی تقریر میں کے فور کی تکمیل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ S-IIIُ پروجیکٹ کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے اپنے بجٹ تقریر میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے2019-20کے پی ایس ڈی پی سے سیوریج کے میگا منصوبے S-III کو خارج کردیا ہے اور اس کا سبب یہ بتایا ہے کہ ایکنک نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت صرف اصل لاگت7.9ارب روپے کا50فیصد ادا کرے گی اور اس طرح وفاقی حکومت نے صرف3.9بلین روپے ادا کرنے کی ذمے داری قبول کی ہے۔

واٹر بورڈ کے متعلقہ افسران نے ایکسپریس کو بتایاکہ ایس تھری منصوبے کے ذریعے 460 ملین گیلن یومیہ گھریلو سیوریج کو صاف کرکے سمندر برد کیا جانا ہے، پہلے اس پر لاگت کا تخمینہ7.9 ارب روپے تھا تاہم بعدازاں کئی اجزا شامل ہونے اور دیگر وجوہ کے باعث نظرثانی شدہ لاگت36ارب ہوگئی، سپریم کورٹ کی ہدایت پر یہ منصوبہ 2020تک مکمل کیا جانا ہے اگر وفاقی حکومت نے مساوی50فیصد شیئر ادا نہیں کیا تو منصوبہ مزید کئی سال تاخیر کا شکار ہوجائے گا۔

وزیراعلیٰ نے اپنی تقریر میں دعویٰ کیاہے کہ ایس تھری منصوبے کے تحت ہارون آباد ٹریٹمنٹ پلانٹ پر رواں سال دسمبر میں کام شروع ہوجائے گا، لیاری ندی میں33.32کلومیٹر ٹرانسمیشن لائن کا کام رواں سال جولائی تک مکمل کرلیا جائے گا جبکہ فیز ٹو ملیر ندی بیسن میں ٹرنک سیوریج اور180ایم جی ڈی ٹریٹمنٹ پلانٹ فور کورنگی کا ترقیاتی کام مالی سال 2019-20میں شروع ہوجائے گا جس کے لیے سندھ حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں5ارب روپے مختص کیے ہیں۔

واضح رہے کہ سیوریج کے گریٹر SIII منصوبے کے ماری پور ٹریٹمنٹ پلانٹ تھریTPIIIکی تعمیر نو اور بحالی کا کام گذشتہ سال جولائی میں مکمل کرلیا گیا ہے جس کے تحت77ملین گیلن یومیہ سیوریج ٹریٹمنٹ کرکے سمندر میںڈالا جارہاہے، منصوبے کا افتتاح سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے گذشتہ سال 22جولائی کو کیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔