کٹھن راستہ طے کرکے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا، وزیراعظم 

ویب ڈیسک  ہفتہ 15 جون 2019
قرضوں سے متعلق بننے والا تحقیقاتی کمیشن اقامہ رکھنے والوں کا بھی حساب کرے گا، وزیراعظم 

قرضوں سے متعلق بننے والا تحقیقاتی کمیشن اقامہ رکھنے والوں کا بھی حساب کرے گا، وزیراعظم 

 اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی کمیشن جلد قائم کیا جائے گا جس کا مقصد 24 ہزار ارب کے قرضوں کا حساب ہے اور یہ کمیشن اقامہ رکھنے والوں کا حساب بھی کرے گا۔

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت بنی گالہ میں پارٹی رہنماؤں و ترجمان کا اجلاس ہوا، جس میں جہانگیر ترین، حفیظ شیخ، عمر ایوب، مراد سعید، شبر زیدی، سینیٹر فیصل جاوید، فردوس عاشق اعوان اور دیگر نے شرکت کی۔

اجلاس میں سیاسی صورتحال پر غور اور قومی اسمبلی میں آئندہ کی حکمت عملی سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔  مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے بجٹ اور حکومتی اہداف سے متعلق آگاہ کیا، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے ٹیکس اصلاحات اور اہداف سے متعلق اقدامات پر اور جہانگیر ترین نے زراعت پالیسی سے متعلق پیش رفت پر بریفنگ دی جب کہ وزیر اعظم عمران خان نے موجودہ صورتحال میں پارٹی بیانیے کے حوالے سے آگاہ کیا۔

ذرائع کے مطابق اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے تحقیقاتی کمیشن سے متعلق بھی بات کی اور کہا کہ تحقیقاتی کمیشن جلد قائم کیا جائے گا، کمیشن کا مقصد 24 ہزار ارب کے قرضوں کا حساب ہے اور یہ کمیشن اقامہ رکھنے والوں کا حساب بھی کرے گا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سود دے رہے ہیں ملک کے 4 ہزار ریونیو میں سے 2 ہزار قرض میں جاتا ہے، کٹھن راستہ تھا جو طے کیا اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے، پاکستان کی معیشت مستحکم ہو چکی ہے اب وقت ہے معیشت ٹیک آف کرے گی ، 30 فیصد کرنٹ اکاونٹ خسارہ میں کمی آئی ہے عوام کو غربت کی لکیر سے اوپر لانا حکومت کی اولین ترجیح ہے اس  لئے احساس پروگرام کا بجٹ 100 ارب سے بڑھا کر 191 ارب تک لے گئے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں بجٹ کے بعد کی صورتحال اور اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں پر اپوزیشن کے احتجاج سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی طے کی گئی، وزیراعظم نے کہا کہ  گرفتار ہونے والے این آر او کی تلاش میں ہیں،  تمام ترجمان اور پارٹی رہنما پارلیمنٹ کے اندر و باہر اور میڈیا پر جارحانہ حکمت عملی اختیار کریں اور کہ اپوزیشن کے ہر حملے کا ہر طریقے سے جواب دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔