پنجاب کا 23 کھرب 57 کروڑ کا سر پلس بجٹ

ایڈیٹوریل  اتوار 16 جون 2019
اپوزیشن اراکین نے وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے آغاز سے اختتام تک حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی جاری رکھی۔ (فوٹو: فائل)

اپوزیشن اراکین نے وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے آغاز سے اختتام تک حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی جاری رکھی۔ (فوٹو: فائل)

پنجاب حکومت نے آیندہ مالی سال 2019-20کے لیے 23 کھرب57 کروڑ روپے مالیت کے حجم کا سرپلس بجٹ پیش کر دیا۔

جنرل ریونیو ریسپنٹ کی مد میں 1990ارب روپے کی وصولیوں، ایف این سی کے تحت وفاق سے قابل تقسیم محاصل سے1601ارب 46 کروڑ روپے جب کہ صوبائی محصولات کی مد میں 388 ارب 40 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، مالی سال میں جاریہ اخراجات کا کل تخمینہ 1298 ارب روپے 80 کروڑ لگایا ہے جس میں سے 337 ارب 60 کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں، 244 ارب 90 کروڑ پنشن، مقامی حکومتوں کے لیے 437 ارب 10 کروڑ اور سروس ڈلیوری اخراجات کے لیے 279 ارب 20 کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا۔

آیندہ مالی سال میں ترقیاتی بجٹ کی مد میں350 ارب روپے جب کہ جاری اخراجات کے لیے 1717 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، صوبائی ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں وفاق کی طرز پر اضافہ تجویز کیا گیا ہے، ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں مزید 9 پناہ گاہوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

تعلیم، صحت ، صنعت اور زراعت سمیت دیگر شعبوں کے میگا پراجیکٹس کے لیے مجموعی طور پر 279 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا، پنجاب کے مختلف شہروں میں 40 ارب روپے کی لاگت سے 9 جدید اسپتالوںکے قیام کا بھی اعلان کیا گیا۔یہ کسی حد تک اچھا اقدام ہے۔ پنجاب کے چھوٹے ہی نہیں بلکہ بڑے شہروں میں بھی مزید اسپتالوں کی ضرورت ہے۔

آیندہ مالی سال 2019-20 کا بجٹ پیش کرنے کے لیے پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت تین بجے کی بجائے 30 منٹ کی تاخیر سے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کی صدارت میں شروع ہوا۔ صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے آیندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز بھی ایوان میں موجود تھے۔ پنجاب کے آیندہ مالی سال 2019-20 کے بجٹ کا مجموعی حجم 2,300 ارب 57 کروڑ روپے تجویز کیا گیا ہے جس میں سے 350 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں جب کہ1,717 ارب 60 کروڑ روپے غیر ترقیاتی مقاصد کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

وزیر خزانہ نے بجٹ کو 200 ارب روپے سے زائد کا سرپلس بجٹ قرار دیا۔ ترقیاتی پروگرام میں125 ارب روپے سوشل سیکٹر ، 88 ارب انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ ، 34 ارب پروڈکشن سیکٹر ،21 ارب سروسز سیکٹر 17 ارب دیگر شعبہ جات23 ارب اسپیشل پروگرامز، 42 ارب پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی مد میں رکھے گئے ہیں۔ پنجاب میں نیا پاکستان اسکیم کے تحت تین مراحل میں ایک لاکھ ستر ہزار مکانات کی تعمیر کا باقاعدہ آغا کیا جا رہا ہے۔ جس سے کم آمدنی والے طبقات کو خاطرخواہ اضافہ پہنچنے کی امید ہے۔

حکومت پنجاب نے کاشت کاروں کو زرعی پیداوار کی مناسب قیمت دلانے کے لیے صوبے میں ماڈل آکشن مارکیٹس کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھی اچھا اقدام ہے۔ کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ یہ ماڈل مارکیٹیں دیہات کے نزدیک ہوں تاکہ کاشت کاروں کو دور کا سفر نہ کرنا پڑے۔ صوبے کے مختلف حصوں میں نئے صنعتی مراکز اور اسپیشل اکنامک اور اسپیشل اکنامک زونز قائم کیے جائیں گے۔

فیصل آباد میں23 ارب روپے کی لاگت سے علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی کے نام سے ایک بڑے صنعتی مرکز کے قیام، قائد اعظم ایپرل پارک شیخوپورہ کو فعال بنایا جائے گا۔ مظفر گڑھ میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے انڈسٹریل پارک اور تونسہ میں اسمال انڈسٹریل پارک بنایا جائے گا۔ ٹورازم کا پوٹینشل رکھنے والے 9 مقامات کو ڈویلپ کیا جائے گا۔

حکومت پنجاب یوتھ پیکیج کا آغاز کر رہی ہے جس کے تحت ایجوکیشن ، سکلز ڈویلپمنٹ، اسپورٹس، یوتھ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں مختلف پروگرام متعارف کرائے جا رہے ہیں، ان پروگرامز میں ٹیوٹا کا ’’ہنر مند پروگرام‘‘ اور پنجاب اسمال انڈسٹریز کا بلا سود قرضوںکا پروگرام شامل ہے۔ پنجاب اسمبلی میں آیندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیے جانے کے موقع پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا، مقررنین نے کہا کہ بجٹ سے مہنگائی کا طوفان آ جائے گا۔

اپوزیشن اراکین نے وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے آغاز سے اختتام تک حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی جاری رکھی اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑکر پھینکتے رہے جب کہ حکومتی بنچوں سے اراکین نعرے تحریر کر کے ایوان میں لہراتے رہے، اپوزیشن نے پنجاب اسمبلی کے احاطے میں بھی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ قبل ازیں وزیر اعلی پنجاب کی زیرصدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں آیندہ مالی سال کے لیے بجٹ کی منظوری دی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔