اپنا اپنا قید خانہ

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 16 جون 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

اگرکوئی صاحب آپ کو اس بات کے لیے ضد بحث کرتے نظر آئیں کہ پاکستانی قوم ایک مہذب وخوش وخرم قوم ہے تو آپ ان صاحب کی ذہنی حالت درست نہ ہونے کے بارے میں شک و شبہ کرنے میں حق بجانب ہونگے ۔ پاکستان کے حالات اور واقعات کو مد نظررکھتے ہوئے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں دنیا کی وحشی ترین قوم کا اعزاز حاصل ہوگیا ہے۔

ہم نہ صرف جسمانی بلکہ بد ترین ذہنی بیماریوں میں اپنے مبتلا ہونے کے ثبوت روز ملک میں کہیں نہ کہیں دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہم دنیا بھر میں جسمانی وذہنی بیماریوں کے جراثیم پھیلانے میں بھی دن رات مصروف ہیں ۔ پوری دنیا ہم سے خوفزدہ ہے دنیا بھر میں پولیو ہمارے ملک سے درآمد ہو رہا ہے۔ دہشت گردی میں ہم ملوث پائے جاتے ہیں، کرپشن ، ملاوٹ ، بے ایمانی ، لالچ ، منافقت،کمیشن ،انتہاپسندی دنیا بھر میں پھیلانے کی ہم ان تھک جدوجہد کر رہے ہیں۔

حاملہ معصوم و بے گناہ عورتوں کو اینٹیں مار مارکر قتل کرنے میں ہم مصروف ہیں ، مزاروں کو بموں سے مسمار ہم کر رہے ہیں، اسکولوں کو دھماکوں سے ہم اڑا رہے ہیں ، دنیا بھر کی تمام بے ضابطگیوں میں ہم ملوث ہیں، دنیا بھرکی تمام ذہنی، جنسی وجسمانی کرپشن میں ہم نمبر ون پرآگئے ہیں۔ پوری دنیا سے نفرت وانتقام کی سیاست ناپید ہوچکی ہے جب کہ ہمارے ملک میں اسے روزبروز فروغ ملتا جا رہا ہے محاذ آرائی،کشیدگی کی سیاست میں تو ہم سے آگے کوئی اور ہوہی نہیں سکتا ہے ہم خود ہی مدعی ہیں خود ہی عدالت ہیں خود ہی منصف ہیں خود ہی جلاد ہیں اور خود ہی تماشائی ہیں۔

ہم سب نے اپنے اندرایک جیل بنا رکھی ہے اور ساری عمر اس جیل سے باہر آتے ہی نہیں ہیں، ہم سب کا اپنا اپنا قید خانہ ہے ہم اپنے قیدی خود ہیں اور ہم اپنے آپ کے پہرہ دار بھی خود ہی ہیں ،کوئی لاکھ کوشش کرکے دیکھ لے، ہمیں اپنے آپ سے کوئی رہائی دلا ہی نہیں سکتا۔ ہمیں اپنی جان سے زیادہ پیاری اپنی اسیری ہے ۔ گیلپ انٹرنیشنل نے پچھلے دنوں دنیا بھر میں خوش رہنے والے ممالک کی فہرست جاری کی ہے جس میں پیرا گوئے کا پہلا جب کہ پاکستان کا 117 نمبر ہے۔

گیلپ انٹرنیشنل کی جاری کردہ فہر ست میں حیران کن طور پر پہلی 10 خو ش رہنے والی اقوام میں سے 9 کا تعلق لا طینی امریکا سے ہے ۔ خوش رہنے والے لوگوں کی اس فہرست میں گزشتہ دو سال سے براجمان پیراگوئے اس سال بھی پہلے نمبر پر ہے جب کہ پانامہ دوسرے اور گوئٹے مالا کے باسی تیسرے نمبر پر ہیں ۔ متحدہ عرب امارات کا 15واں، کینیڈا 16 واں ، آسٹریلیا کا18 واں دنیا بھر میں سب سے زیادہ خو ش سمجھے جانے والے امریکیوں کا 24 واں اور چین کا 31واں نمبر ہے ۔

بھارت 78 واں جب کہ خوش رہنے والی اقوام میں افغانی 92، نمبر پر ہیں پاکستان خوش رہنے والے ممالک میں افغانستان سے بھی پیچھے چلاگیا ہے۔ جی اب آپ کیا کہیں گے، ابراہام لنکن نے کہا تھا ’’آدمی اتنا ہی خوش ہوتا ہے جتنا کہ وہ ہونا چاہتا ہے‘‘ دراصل ہمیں جو سماجی خیالات اور حالات ورثے میں ملتے ہیں وہ ہم سوچے سمجھے بغیر قبول کرلیتے ہیں ۔اس کی ایک تو یہ وجہ ہے کہ انسان غوروفکر سے جی چراتا ہے اور دوسر ی یہ کہ ان کی جانچ پرکھ کا عمل خاصا اذیت ناک ہوتا ہے، لہذا غوروفکر نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے ذہنوں میں ان گنت جالے بن جاتے ہیں اور ہم ان جالوں سے اس قدر مانوس ہوجاتے ہیں کہ ہم انھیں صاف ہی نہیں کرنا چاہتے۔

یہیں ہمارا ہمیشہ ہی سے یہ المیہ رہا ہے کہ ہم لفظوں کو ان کے اصل معنی میں کبھی بھی سمجھ ہی نہیں پائے ہیں۔ لفظ کو سمجھنے کے لیے لفظ میں داخل ہونا پڑتا ہے تب ہی جاکر اس لفظ کے معنی کا احساس آپ کو اندر سے جگا تا ہے جس طرح کہ گورکن مردے دفن کرکے زندگی اور موت کے معنوں سے اتنا بے معنی ہو جاتا ہے کہ اس کے نزدیک لفظ زندگی اور مو ت صرف پتھر بن کے رہ جاتے ہیں ۔

کچھ لفظ چیختے ہیں ،کچھ لفظ چلاتے ہیں ،کچھ لفظ روتے ہیں ،کچھ لفظ ہنستے ہیں ،کچھ لفظ مسکراتے ہیں ، بس آپ کے اندر انھیں سننے کی سمجھ اور صلاحیت ہونی چاہیے ۔ جس طرح ایک منظر آتا ہے اور گذر جاتا ہے ، اسی طرح لفظ آتے ہیں اورگذر جاتے ہیں جب آپ میں لفظ کے اصل معنی کو سمجھنے کا احساس پیدا ہوجاتا ہے توپھر لفظ آپ کے اندر ٹہرجاتے ہیں اور جو لفظ گذر جاتے ہیں وہ بے معنیٰ ہوجاتے ہیں ہم سب گورکن بن چکے ہیں ظلم، ناانصافی ،کرپشن ، ملاوٹ ، جہالت ، غربت ، افلاس ، فاقے ، ایمانداری، کردار، خوشحالی ، برداشت ، مساوات ، زندگی ، موت ، خوشیاں یہ سب لفظ ہمارے لیے بے معنی ہیں۔

ان سب الفاظ کی اہمیت اور حیثیت ہمارے نزدیک فقط پتھروں سے زیادہ کچھ نہیں ہے بلکہ اکثر تو ایسا لگتا ہے کہ ہم سب بھی پتھر بن چکے ہیں ، ترقی،خوشحالی،خوشی احساسات کے لیے کسی بھی معاشرے میں سب سے ضروری عنصر تبدیلی کا ہے اگر آپ تبدیلی کے سامنے خود ہی دیوار بن کے کھڑے ہوجائیں گے تو پھر معاشرے میں کیسے تبدیلی آئے گی ۔

کسی بھی سماج کی تبدیلی کے لیے عملی جدوجہد کی ضرورت نہیں ہوتی محض سو چ و فکر کی تبدیلی ہی سے سماج تبدیل کیا جاسکتا ہے اگر فکر اور سو چ کو تبدیل کردیاجائے تو سماجی تبدیلی کا آغاز ہو جاتاہے لیکن اس کے لیے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ پہلے آپ کو اس بات کا احساس ہوجانا چاہیے کہ آپ کی سوچ وفکر غلط ہے اور یہ کہ ساری ، خرابیاں اور برائیاں اسی غلط سو چ وفکرکی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں اور ساتھ ساتھ یہ کہ آپ اپنی ناکامی کو بھی تسلیم کرلیں ۔

امریکا کے ایک شخص نے 1831 میں تجارت شروع کی، اس میں وہ ناکام ہو گیا۔ 1832 میں اس نے ملکی سیاست میں حصہ لیا مگر وہاں بھی اس نے شکست کھائی، 1834  میں اس نے دوبارہ تجارت شروع کی اس بار بھی وہ اپنی تجارت میں ناکام رہا،1841 میں اس کے اعصاب جواب دے گئے 1843 میں دوبارہ سیاست میں داخل ہوا اس کو امید تھی کہ اس بار اس کی پارٹی اس کو کانگریس کی ممبری کے لیے نامزد کرے گی مگر آخری وقت تک اس کی امید پوری نہ ہوسکی اس کانام پارٹی کے امیدواروں کی فہرست میں نہ آیا۔

1855 میں اس کو پہلی بار موقع ملا کہ وہ سینیٹ کے لیے کھڑا ہو مگر وہ الیکشن ہار گیا۔ 1858 میں دوبارہ سینیٹ کے الیکشن میں کھڑا ہوا اور پھر شکست کھائی یہ بار بار ناکام ہونے والا شخص ابراہام لنکن تھا جو 1860 میں امریکا کا صدر منتخب ہوا اور اس نے امریکا کی تعمیروترقی میں اتنا بڑا کام کیاکہ آج وہ نئے امریکا کا معمار سمجھاجاتا ہے ۔ ابراہام لنکن کو امریکا کی قومی اور سیاسی تاریخ میں اتنا معزز نام کیسے ملا اور وہ اس اونچے مقام تک کس طرح پہنچا۔

ڈاکٹر نارمن ونسنٹ پیل کے الفاظ میں اس کا جواب یہ ہے کہ وہ جانتا تھا کہ شکست کوکس طرح تسلیم کیاجائے ، حقیقت پسندی زندگی کا سب سے بڑا راز ہے اور ہارماننا حقیقت پسندی کی اعلیٰ ترین قسم ہے ، ہار ماننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس حقیقت کا اعتراف کرلیں کہ آپ دوسروں سے آگے نہیں ہیں بلکہ دوسرو ںسے پیچھے ہیں ، بالفاظ دیگر آپ جہاں فی الواقع ہیں وہیں نظری طور پر اپنے آپ کوکھڑا مان لیں ، ہار ماننے کے بعد آدمی فوراً اس حیثیت میں ہوجاتا ہے کہ وہ اپنا سفر شروع کردے کیونکہ سفر ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں آپ فی الواقع ہیں نہ کہ وہاں سے جہاںابھی آپ پہنچے ہی نہیں۔

آئیں! ہم سب سے پہلے اپنی شکست تسلیم کرلیں کہ ہم دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔ ہم اپنے آپ کو خوش نہیں رکھ سکے پھراس کے بعد اپنا سفر ایک نئی توانائی، امنگ کے ساتھ دوبارہ شروع کردیں کہ آج ہم اگر خو ش رہنے والے ممالک کی فہرست میں117 ویں نمبر پر ہیں تو اگلے چند سالوں میں انشاء اللہ پہلے نمبر پر ہونگے اور ہم ایک بے حس قوم نہیں بلکہ زندہ قوم بن کر دکھائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔