بے چارے باپ کا دن

شاہد سردار  اتوار 16 جون 2019

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جدید تہذیب کے علم بردار، مغرب کے مادہ پرست تعفن زدہ معاشرے نے والدین کی اہمیت و افادیت کو برسوں پہلے ہی ختم کرکے خاندانی نظام کو تباہ و برباد کردیا تھا اور پھر اب مغرب پر ہی کیا موقوف اس اندھی تقلید کو مشرق نے بھی اپنا لیا ہے اور اپنے والدین کو انھی راہوں کا مسافر بنادیا ہے۔17 جون کو ’’فادر ڈے‘‘ کا دن قرار دیا ہے۔کس نے یہ آج تک ہمیں پتا نہ چل سکا؟

ہم اکثر سوچتے ہیں کہ کیا فادر نام کی کسی چیزکا وجود بھی ہمارے معاشرے میں ہے؟ کیونکہ مدر ڈے کا بہت شور سنا ہے، ہر تیسری گاڑی کے پیچھے لکھا ہوا پڑھا ہے کہ ’’یہ سب میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے‘‘ اور اس ڈے سے بھی زیادہ غلغلہ اور دھومیں ویلنٹائن ڈے کی سنیں بلکہ دیکھی بھی ہیں مگر فادر ڈے غریب کی تنخواہ کی طرح آتے ہی گزر جاتا ہے۔

ذہن پر زور دینے سے یاد آیا کہ ہرگھر میں ایک باپ ہوتا تھا یا ہوتا ہے جو صبح صبح محنت مزدوری کرنے گھر سے نکلتا ہے اور واپس گھر پہنچنے پر بیوی کی جھڑکیاں پہلے اورکھانا بعد میں اسے کھانا نصیب ہوتا ہے۔ بچے بالخصوص جوان بچے اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ فادر نامی چیز یا مخلوق نے ان کے لیے جن آسائشوں کا اہتمام کیا ہوتا ہے وہ انھی میں یا اپنی اپنی بیگمات میں مگن رہتے ہیں۔ بیشتر اولادیں اپنے باپ کی خدمت کے دوران اس امر کی متمنی بھی ہوتی ہیں کہ قبل اس کے کہ اس کے سرہانے سورۃ یٰسین پڑھنے کا وقت آئے وہ اس سے پہلے کسی وکیل کو بلوا کر جس کا جتنا حق بنتا ہے وہ اس کے نام لکھوا دے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ محض چند دہائیوں میں باپ بیٹے کے رشتے کا تصور ہمارے معاشرے میں یکسر تبدیل ہوکے رہ گیا ہے۔ اب اولادوں کی وہ نسل ناپید ہوتی جا رہی ہے جس نے گھر میں اپنے باپ کو ولی، اوتار یا گاڈ فادر کا درجہ دیا ہوا تھا، اور اس سچائی سے بھی انکار ممکن نہیں کہ باپ تقریباً سارے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں لیکن اولادیں یکسر بدل چکی ہیں اور آج کی اولادوں کی اکثریت اپنے باپ کو بوجھ سمجھتی ہے، اپنے راستے کی دیوار جانتی ہے اور اس سے تنگ و نالاں بھی ہے اسے وہ کریک، فالتو، مینٹل، نفسیاتی، بے کار اور دماغ کی دہی کہتی ہے۔

ہمارے مشاہدے میں یہ بات بھی ہے کہ ایک بیٹا اپنے باپ سے اختلاف کی وجہ سے اس کے جنازے میں بھی نہیں آیا جب کہ ایک گھرانے میں بیٹے نے اپنے باپ سے تنگ آکر پولیس بلالی اسے گرفتار کرانے کے لیے کہ یہ ہمیں اور ہماری ماں کو بہت تنگ کرتا ہے۔ پولیس آئی اور بیٹے کو لعنت ملامت کرکے واپس چلی گئی۔ اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ تمام تر خواہشات کی تکمیل، آسائشوں کی فراہمی کے باوجود آج کا باپ ’’رول ماڈل‘‘ نہیں صرف ’’اے ٹی ایم مشین‘‘ ہے اپنے گھر والوں کے لیے۔ باپ ساری عمر جھڑکیاں اور دھکے کھا کر بھی اپنی فیملی کی کفالت کی راہ نہیں چھوڑتا۔

مکان بنواتا ہے، بچوں کو اپنی حیثیت کے مطابق تعلیم دلواتا ہے، بچوں کی شادیاں کراتا ہے، بعض اوقات پردیس کی مٹی بھی پھانکتا ہے لیکن آخر میں جوان بچے اسے یہی کہتے ہیں کہ ’’آپ نے کیا ہی کیا ہے؟ کوئی ڈھنگ کا کام کرلیتے تو ہماری زندگی سنور جاتی۔‘‘ دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ فادر ڈے پر مدر ڈے کی طرح بڑے بڑے لوگوں کی طرف سے کوئی چھوٹے چھوٹے جملے تک کہیں سننے یا پڑھنے کو نہیں ملتے۔

اگر ماں کے قدموں میں جنت ہے تو باپ کی رضا خدا کی رضا سے ہم آہنگ ہوتی ہے، زندگی میں اس کا بنیادی اور مرکزی کردار ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ماں کے نام پر بڑے بڑے اسپتال اور رفاحی ادارے بنانیوالے کہیں اپنے باپ کے نام کی تختی بھی لگا دیتے۔ حالانکہ باپ اولاد کے لیے ڈھال ہوتا ہے اور کبھی اپنی اولادوں سے غافل نہیں ہوتا۔ باپ اپنے بچوں کے لیے مضبوط سائبان ہوتا ہے جو گرم سرد تھپیڑوں سے انھیں بچاتا ہے، اپنی پوری فیملی کے لیے پرابلم کا حل ہوتا ہے۔ باپ کے بغیر بڑے اور بھرے پرے گھر بھی سونے سونے سے لگتے ہیں۔

باپ ایک ایسا کریڈٹ کارڈ ہوتا ہے جس کے پاس بیلنس نہ ہوتے ہوئے بھی وہ اولاد کے خواب، اس کی خواہشیں کسی نہ کسی طرح پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن شومی قسمت باپوں کی اکثریت اب اولادوں کے لیے بوجھ بن کر رہ گئی ہے، باپ سے بچپن میں کہانیاں سنے بغیر نہ سونے والے بچے بعد میں بوڑھے باپ کی بات تک سننا گوارہ نہیں کرتے۔ آج اکیسویں صدی میں والدین کی اہمیت اور محبت کو ’’مدر ڈے اور فادر ڈے‘‘ تک محدود کرکے سال میں ایک مرتبہ گل دستہ یا کارڈ یا پھر زیادہ سے زیادہ ’’اولڈ ہاؤسز‘‘ میں ایک مختصر سی ملاقات ان کی عمر بھر کی خدمات کا نہایت آسان نعم البدل قرار پایا ہے۔

بہت ہی بدقسمت باپ اولڈ ہوم یا فلاحی اداروں میں پڑے مزید بوڑھے اورکمزور ہوتے جاتے ہیں، ڈپریشن یا احساس کمتری حدوں کو چھو رہا ہوتا ہے ان کا کیونکہ ان کے پیارے مہینوں یہاں کا چکر نہیں لگاتے وہ ہر آنیوالے دن میں ایک موہوم سی امید اس بات کی لگائے زندہ رہتے ہیں کہ کاش کوئی دن ان کا پیارا، ان کا بیٹا آجائے اور کہے ’’ابو! مجھے معاف کردیں، گھر چلیں میں آپ کو لینے آیا ہوں۔‘‘

لیکن ایسا کب کہاں ہوتا ہے اس لیے بھی کہ جو ہمارے لاڈلے ہوتے ہیں ہم ان کے لاڈلے نہیں ہو پاتے۔انتہائی کڑوی سچائی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر گھرانے ایسے ہیں جہاں بوڑھے والدین کو بوجھ یا بار سمجھا جاتا ہے اور اس بوجھ سے چھٹکارے کے لیے طرح طرح کے جتن بھی گھر والوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں۔ بیشتر گھرانوں میں باپ کو اس طرح نظرانداز کیا جاتا ہے جیسے وہ کسی کا کچھ لگتا ہی نہیں، کسی کو نہ اس کے کھانے پینے کا احساس ہوتا ہے اور نہ اس کے لباس اور آرام و سکون کا، وہ بے چارہ اپنی زندگی کے بقیہ دن کو خود ہی کسی نہ کسی طرح گھسیٹ رہا ہوتا ہے۔

ہر باپ کی زندگی میں بیماری یا ریٹائرمنٹ کے بعد اس کا بڑھاپا اس کے لیے سزا یا قید بامشقت بن جاتی ہے، اس کی خالی جیب، اس کی لاچاری اسے عبرت کا تماشا بنا دیتی ہے، اس کی مال ومتاع حاصل کرکے یا چھین کر بالآخر اسے ایک کمرے تک محدود کردیا جاتا ہے، اس کی طرف گھر والے بالخصوص بیٹے آتے جاتے کمرے میں جھانک لیتے ہیں۔ پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں گھڑی بھر کے لیے ان کے پاس آتے ہیں پھر اپنے ہوم ورک، ٹیوشن، اسکول اور کھیل کود میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

لے دے کر بیٹیاں ہی بچتی ہیں جو انھیں پوچھ لیتی ہیں لیکن فی زمانہ بیٹیاں بھی اب ضرورت سے زیادہ ماڈرن یا بیزار ہوگئی ہیں اپنے باپوں سے۔ باپوں کی اکثریت کی حیثیت عمر کے آخری دور میں گھرکے ملازم یا چوکیدارکی سی ہوجاتی ہے جس کا کام چھوٹا موٹا سودا لانا یا دروازہ کھولنا اور بندکرنا ہی رہ جاتا ہے، اکثر معمر افراد صاحب اولاد ہوتے ہوئے بھی لاوارثوں کی زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں یا پھر نوکروں کے حوالے انھیں کردیا جاتا ہے۔

آٹے میں نمک کے برابر ہی اب ہمارے معاشرے میں ایسے گھر بچے ہیں جہاں بوڑھے باپ کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے، بہوئیں اور بیٹے، پوتے پوتیاں ان کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔کاش والدین کی ذات کی اہمیت سے انحراف کرتی آج کی نئی نسل اس حقیقت کو مان لے کہ والدین بچوں کے لیے نعمت ہوتے ہیں وہ کبھی زحمت نہیں ہوتے ان کا کوئی مول کوئی بدل کوئی ثانی ہو ہی نہیں سکتا۔ نظر اندازی یا عدم توجہی کے دشت میں اپنی عمر تمام کرتے باپوں کی آنکھوں میں اگرکہیں سے کوئی توجہ کا پھول کھل پاتا تو پورے دشت کی آبرو بچ جاتی لیکن افسوس ایسا کچھ نہیں ہے دور دور تک۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔