بجٹ اور گرفتاریاں

عبدالرحمان منگریو  اتوار 16 جون 2019

بجٹ 2019-20 تبدیلی سرکار کا 70کھرب 22کروڑ روپے کا پہلا بجٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی تاریخ کے انتہائی خسارے پر مبنی بھی پہلا بجٹ ہے ۔ ملک کی معاشی ابتری اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ ملکی بجٹ کو 37کھرب خسارے کا سامنا ہے ۔ یعنی ملک تقریباً 52%خسارے کا شکار ہے ۔

معاشی ماہرین گذشتہ کئی ہفتوں سے حالیہ بجٹ کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیتے رہے ہیں ۔ بقول اُن کے یہ بجٹ حرف بہ حرف آئی ایم ایف کی جانب سے یا پھر اُن کی ہدایات پر اُن کے حاضر سروس اور سابقہ ملازمین کی حیثیت رکھنے والے پاکستان کے موجودہ مالی اُمور کے منتظمین نے تیار کیا ہے ، اور اسی لیے اس بجٹ کے انتہائی خسارے سے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی توڑنے کے ساتھ ساتھ عوام پر مہنگائی کا بم بھی گرایا گیا ہے ۔

بجٹ معاشی تجزیہ کاروں کے خدشات کے عین مطابق ہی آیا ہے ۔بجٹ سے قبل 9ماہ میں پیٹرول قیمتوںمیں 49فیصد سے بھی زیادہ اضافہ کیا گیا ہے ۔ لیکن بجٹ میں چینی، مرغی ، گوشت ، مچھلی وغیرہ پر 17%ٹیکس سمیت گھی ، مشروبات ، دودھ اور بیکری کی مصنوعات کے ساتھ ساتھ کپڑے و چمڑے کی مصنوعات، سیمنٹ ، سی این جی وغیرہ وغیرہ مہنگی کرکے عوام کو کولہو میں ڈال دیا گیا ہے جو اپنا تیل خود اپنے آپ سے ہی نکالنے میں جُتے رہیں گے ۔

دنیا میں دیگر ممالک دن بہ دن اپنے بجٹ میں تعلیم اور صحت کا حصہ بڑھاتے جارہے ہیں لیکن ہماری تبدیلی حکومت اپنی ’دور اندیشی ‘سے تعلیم کے شعبے کی 19ارب اور صحت کے شعبے کے بجٹ میں تقریباً 3ارب کی کٹوتی جیسی اہم تبدیلی کرکے نئے پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط بنانے پر گامزن ہے ۔۔! ملک میں تعلیم و صحت کی بد سے بدتر ہوتی صورتحال کے باوجود بجٹ میں ان دونوں شعبوں کے فنڈز میں کٹوتی سے عوام کے جہالت و بیماریوں کے دلدل میں مزید دھنس جانے کے خدشات بڑھ گئے ہیں ۔

ایک طرف غذائی و دیگر بنیادی ضروریات ِ زندگی کی اشیاء و سہولیات پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے تو دوسری طرف موبائیل پر 3%ویلیو ایڈیڈ ٹیکس ختم کرکے عوام کو فضولیات میں الجھائے رکھنے کی سابقہ روش برقرار رکھی گئی ہے۔ عوام کا جینا دوبھر ہوچکا ہے ، اوپر سے مہنگائی کا یہ نیا طوفان ۔۔!اس صورتحال کے پیش نظر عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ شایداسی لیے بجٹ سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ہی ملک میں اچانک بڑی جماعتوں کی قیادت وبڑی شخصیات کی گرفتاریوں کا کھیل کھیلا گیا ۔

بجٹ سے صرف ایک دن پہلے ملک کے سابقہ صدر اور پی پی پی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری اورن لیگ کے حمزہ شہباز کی گرفتاری نظر آتی ہے ۔ پھر الطاف حسین کی گرفتاری بھی عین بجٹ پیش کرنے والے دن نظر آتی ہے ۔ جس کے لیے وزیر داخلہ اعجاز شاہ کہتے ہیں کہ ہمارا الطاف سے واسطہ نہیں ، اُسے برطانوی اداروں نے گرفتار کیا ہے ۔ اُنہیں تفتیش کرنے دی جائے ۔ جب کہ دوسرے ہی دن متحدہ بانی کو برطانیہ نے بری کرتے ہوئے کہا کہ اُن کو پاکستان کی درخواست پر ہی تحویل میں لیا گیا تھا لیکن پاکستان کا ٹھوس موقف نہ ہونے اور شواہد ناکافی ہونے کی بناء پر اُنہیں چھوڑ دیاگیا ہے ۔

یہ گرفتاریاں وہ باؤنسر ہیں جوسامنے والے کو آؤٹ تو نہیں کرتے لیکن ڈرانے کے لیے کافی ہوتے ہیں ۔جب کہ ملک کی مقتدرہ قوتوں کا یہ پرانا حربہ ہے کہ ملک میں افواہوں کا راج رکھو یا افراتفری کا ماحول برپا کیے رکھو اور اپنے مقاصد حاصل کرو ۔ اس لحاظ سے ان گرفتار شخصیات کو جلد ہی چھوڑ بھی دیا جائے گا ۔ ہو نہ ہو لیکن ہمیں یہ بات دل کو لگتی ہے ، اور حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں پی پی پی اور ن لیگ کی ساری توجہ زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری کی طرف رہی ۔ حالانکہ انھوں نے بجٹ اجلاس میں بجٹ کی کاپیاں پھاڑ دیں اور ’گو عمران گو ‘ کے نعرے بھی لگائے لیکن یہ جزوی عمل تھا ۔

ورنہ اسی ایوان میں ایک دن قبل ہی بلاول کو خطاب نہ کرنے دینے اور بجٹ اجلاس میں شرکت کے لیے آصف زرداری کے پراڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر ایسا ہُل و ہنگامہ برپا کیا گیا کہ اجلاس ملتوی کرنا پڑا ۔ تو بجٹ جیسے اہم اور حقیقی عوامی ایشو پر یہ جزوی احتجاج کسی کھچڑی کے پکنے کا اشارہ دے رہا تھا ۔ حکومت کو اصل مشکل بجٹ پیش کرنے کی تھی جو انھوں نے کامیابی سے پیش کردیا۔

عوام بھی بجٹ سے زیادہ اس گرفتاریوں والے کھیل میں دلچسپی لیتے رہے۔ جس کا اکھاڑہ اس مرتبہ سڑکوں و شاہراہوں سے زیادہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر نظر آیا ۔ بجٹ اور گرفتاریوں کے بیچ میں کنکشن صرف اقتداری تجزیہ کاروں کے تجزیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے میڈیا ہاؤسز نے اس پر تبصرے کیے ہیں ۔ سوشل میڈیا نے تو جیسے اس ماحول کے پرخچے اُڑادیے ہیں لیکن ملکی میڈیا پر غیر علانیہ کنٹرول کے باوجود ملک کے ایک بڑے انگریزی جریدے نے بھی اپنی فنی ترتیب سے اس بات کو اُجاگر کیے رکھا ۔

دوسری جانب موجودہ بجٹ بنانے والوں نے بجٹ سے ایک دن قبل خود ہی اپنی ناکامیوں کا اعتراف اقتصادی سروے رپورٹ برائے 2018-19جاری کرنے کے ذریعے کردیا تھا ۔ رپورٹ میں معاشی ترقی کا مقرر کیا گیا ہدف 6.2نہ حاصل کر سکنے کا اعتراف کرتے ہوئے معاشی ترقی کا ہدف 3.3فیصد تک رہنے کی رپورٹ دی گئی ہے ۔ زرعی شعبے میں ترقی کے اضافے کا ہدف 3.8کے بجائے 0.85جب کہ صنعتی شعبے میں ترقی کا ہدف 7.6کے بجائے 1.4فیصد رہا ۔ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر موجودہ حکومت معاشی ترقی کا 47%ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے ۔

ملک میں مینو فیکچرنگ ختم ہوکر رہ گئی ہے ، ملک کو منظم طریقے سے کنزیومر معیشت کی جانب دھکیلا جا رہا ہے ۔ اس لیے تمام زور امپورٹ پر ہے ۔ ملک میں نیا صنعتی انفرا اسٹرکچر تو رہا دور پہلے سے موجود صنعتیں بھی ختم ہوتی جا رہی ہیں ۔ بیرونی سرمایہ کار آنے کو تیار نہیں جب کہ مقامی صنعتکار بھی اپنا سرمایہ صرف اسٹاک ایکسچینج میں لگانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔

رپورٹ کے مطابق ادارے کھوکھلے ہوچکے ہیں ۔رپورٹ میں صوبائی ٹیکس وصولیوں میں 1.5فیصد اضافہ بتایا گیا ہے جب کہ وفاقی ٹیکس وصولی میں نمایاں کمی وفاق کی غیر مؤثر پالیسیوں کا نتیجہ بتایا گیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق حکومت نے 31فیصد ترقیاتی اخراجات کم کیے جب کہ غیر ترقیاتی خرچہ جات 21.6فیصد تک رہے ۔ اس اقتصادی رپورٹ کو دیکھنے کے بعد ثابت ہوجاتا ہے کہ موجودہ حکومت کا تمام زور قرضے حاصل کرنے پر لگا ہوا ہے اور وہ ہر کمی و خسارے کو بہتر معاشی انتظام ( Economic Management) کے بجائے عوام سے نکال کر پورا کرنے کی راہ پر گامزن ہے ۔

اس کے لیے وہ عوام کو بے جا خوف میں مبتلا کر کے اُن پر ایک اعصابی جنگ مسلط کرچکی ہے اور اس جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بجٹ میں معاشی بوجھ عوام پر ڈال رہی ہے ۔ لیکن یہ عمل ملک کے دیرپا استحکام کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ۔ نظر تو یہ آرہا ہے کہ اس ملک کے ٹیکس نظام کے فیصلے ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جو خود اپنے لیے یا پھر اپنے جیسے بالا طبقے کے لیے ٹیکس نظام میں سہولیات تلاش کرتے ہیں جب کہ خسارے کا سارا بوجھ غریب و متوسط طبقے کے لوگوں پر ڈال رہے ہیں ۔ جس کے لیے ٹیکس نظام کے ایک چھوٹے سے جُز پراپرٹی ٹیکس کا جائزہ ہی کافی ہوگا ۔

ہمارے پورے ملک سے پراپرٹی ٹیکس کی مد میں 16ارب روپے کی وصولی ہوتی ہے ، حالانکہ اگر ایمانداری اور غیر جانبداری سے پراپرٹی ٹیکس وصولی پر کام کیا جائے تو 100ارب سے زیادہ پراپرٹی ٹیکس تو صرف کراچی شہر سے ہی وصولی ہوسکتی ہے ۔ جس کی مثال بھارت کا شہر بمبئی (ممبئی ) ہے جہاںکی پراپرٹی ٹیکس وصولی 100ارب ہے ، اور یہ تو سب کو ہی پتہ ہے کہ بمبئی اور کراچی ہمعصر اور ایک جیسے مواقع کے حامل شہر ہیں ۔

بجٹ کے مطابق نئے ٹیکس عائد کرنے اور پرانے ٹیکسوں کی شرح میں اضافے سے 1450ارب کا بوجھ عوام پر اضافی ڈالا جائے گا ، ساتھ ہی مختلف سبسڈیز بھی ختم کردی گئی ہیں ۔ یہ تمام تر باتیں ، عناصر و اجزاء ملا کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ بجٹ حکومت کا عوام پر مہنگائی کا وہ حملہ ثابت ہوگا جو عوام کو صومالیائی قحط کی یاد دلائے گا۔

جب کہ ماہرین معاشیات و سماجیات کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ عالمی مالیاتی ادارے کا وہ طے شدہ فارمولا ہے جو صرف پاکستان میں نہیں آزمایا جارہا بلکہ ماضی میں جنوبی امریکا اور افریقہ کے کئی ممالک کی معیشتوں کی تباہی کا سبب بھی بن چکا ہے ۔ جب کہ ماضی سے ہٹ کے بجٹ میں کچھ بہتر اور منفرد اقدامات بھی نظر آئے جیسے وزیر اعظم سمیت وفاقی کابینہ کی تنخواہوں میں 10%کٹوتی ایک قابل تحسین قدم ہے ۔ پھر ملک میں کم از کم اُجرت ساڑھے سترہ ہزار روپے مقرر کی گئی ہے ۔ ملک میں پہلی بار بڑے بیوروکریٹس کو چھوڑ کر نچلے گریڈوں کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے ۔ جب کہ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے افراد کو گرفتار کرنے کا اعلان بھی خوش آئند ہے جو آنیوالے دنوں میں ملک میں ٹیکس نظام اور سوشیو اکنامک استحکام پر اچھے اثرات مرتب کرے گا ۔

ہمارے جیسے ممالک جو جغرافیائی اور ڈیموگرافیکل حملوں کی زد میں ہو اس میں مقامی افرادکے غذائی حقوق کے تحفظ اور ضروریات زندگی کی سہولیات کی یقینی فراہمی کے لیے راشن کارڈ ایک بہتر اقدام ہے ۔ حالانکہ موجودہ بجٹ میں اسے 10لاکھ افراد کو جاری کرنے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن یہی بہت ہے کہ اس طرف توجہ دی گئی ہے جو آگے چل کر ملک بھر میں نافذ کیا جاسکتا ہے ۔ بڑے ملازمین پر 35فیصد تک ٹیکس عائد کرنا بھی ایک مثبت اشارہ ہے جب کہ ملک میں ریڑھی والے سے لے کر ہر قسم کے کاروبار کو رجسٹرڈ کرنے اور ٹیکس نظام میں لانے پر کام کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے ۔بجٹ اجلاس میں ماضی کی نسبت ایک اچھی روایت یہ بھی نظر آئی کہ بجٹ تیار تو مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کیا تھا اور وہ ایوان میں موجود بھی تھے لیکن پارلیمانی قوانین کے احترام میں بجٹ پیش مملکتی وزیر خزانہ نے کی ۔

بہر حال یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ ملک کوئی قدرتی و تاریخی جغرافیائی وجود نہیں رکھتا تھا بلکہ چار قوموں (جنھیں آج کل صوبے قرار دیا جاتا ہے ) نے باہمی رضامندی کے ساتھ برابری کی بنیاد پر یکساں حقوق و اختیارات کے وعدے پر قائم کیا ہے ۔ ایسے کثیر القومی ممالک میں قوموں کو داخلی وسائل کے مالی و انتظامی اختیارات کی فراہمی اور مساویانہ حقوق کی فراہمی کو ہر حال میں قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ اور ایسا نہ کرنے کا تجربہ ہمیں 1971میں دو لخت ہونے کی صورت میں ہوچکا ہے ۔ اس لیے مزید کسی نقصان سے بچنے کے لیے ملک میں ایک نئے سماجی میثاق کی شدید ضرورت ہے۔ لیکن جب تک یہ ممکن ہو تب تک قیام پاکستان کے وقت قوموں سے کیے گئے وعدوں کی مکمل پاسداری ہی اس ملک کے بقا کی ضمانت ہوگی ورنہ 70سالہ تجربات بتارہے ہیں کہ دھونس اور دھوکہ دہی سے ملک مضبوط و مستحکم نہیں ہوتا بلکہ وہ سیاسی ، معاشی اور سماجی پے درپے حادثات کا شکار رہتا ہے۔

اس لیے ملک میں سینیٹ کی برابری والی پوزیشن کو فعال کرکے وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی آبادی کی بنیاد پر کرنے کے بجائے آمدن اور پس ماندگی کے بنیادی نکات کے فارمولے پر کی جائے ۔ کیونکہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ آبادی کی بنیاد پر کی جانے والی تقسیم کی بناء پر ملک کے مجموعی پول سے 51%فیصد بڑے صوبے کو ملتا ہے جب کہ تقریباً 70%آمدن دینے کے باوجود سندھ کے حصے میں صرف 24%آتا ہے اور وہ بھی پورا ادا نہیں کیا جاتا ۔ جس کے باعث صوبہ میں غربت و پس ماندگی انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔ یہی صورتحال اراضی کے حساب سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے ساتھ بھی ہے جسے مجموعی پول میں سے صرف 9فیصد ہی حصہ ملتا ہے ۔

ملک میں ایک طرف ججز پر ریفرنسوں سے وکلاء برادری طیش میں ہے تو دوسری طرف بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کی گرفتاریاں و نیب پیشیاں عروج پر ہیں ، لیکن اُس کے باوجود ملک میں اب تک کسی بھی شعبے میں کوئی بہتری کی ابتداء ہوتی دکھائی نہیں دیتی ۔ اور تو اور تھر میں قحط سے لوگوں کے مرنے کا طویل عرصہ سے جاری سلسلے کی روک تھام کے لیے یا کوئی خصوصی مراعاتی پیکیج تک بجٹ میں نہیں رکھا گیا ۔ جہاں تک مالی اُمور کی بات ہے تو سعودیہ ، چین ، یو اے ای ، آئی ایم ایف کے 24ارب ڈالر کے ساتھ ساتھ عوام سے بجلی و گیس کے اضافی بلوں کی مد میں وصول کردہ 22ارب ، ڈیم فنڈ کے نام پر وصول کیے گئے 14ارب اور پھر نیب کے ذریعے ریکور کیے گئے 200ارب کی وصولیوں کا کوئی ذکرہے اور نہ ہی کہیں یہ پیسہ کسی عوامی اسکیم پر خرچ ہوتے نظر آرہا ہے اور نہ ہی بجٹ میں۔ تو آخر یہ پیسہ کہاں جارہا ہے ؟

اور پھر اتنی بڑی رقم کی موجودگی کے باوجود روپے کی قیمت مسلسل کیوں گر رہی ہے؟ اور بجٹ میں عوام پر مہنگائی کا بم گرانے کی کیا ضرورت ہے ؟اس کا حساب حکومت کو بجٹ کے اعداد و شمار میں شامل کرنا چاہیے تھا جب کہ یہ وہ سوال ہیں جو حزب ِ اختلاف کی جماعتوں کو ایوان میں بڑے زور شور سے اُٹھانے چاہئیں تھے لیکن وہ اس میں ناکام رہی ۔خیر وقت ابھی بھی گیا نہیں ہے ۔ اب بھی بجٹ پر بحث کے دوران یہ سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں اور عوام کو سہولیات و مراعات دلانے پر کام کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن اپوزیشن کے جزوی احتجاج سے لگ رہا ہے کہ وہ جان بوجھ کر ان سوالات سے کترارہی ہیں ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کس کی طرف کھڑے ہوتے ہیں ۔مہنگائی کی تیز رفتار گاڑی پر سوار تبدیلی سرکار کی طرف یا پھر’ جیو اور جینے دو ‘( جسے موجودہ ماحول میں’کھاؤ اور کھانے دو‘ سے تشبیہہ دیا جا رہا ہے ) کی پالیسی پر گامزن رہنے والی اپوزیشن کی جماعتوں کے ساتھ ۔ بہرحال فی الحال تو دونوں طرفین کی ترجیح عوام اور عوامی مسائل نہیں بلکہ اقتداری میوزک چیئر گیم میں بطور کردار شامل رہنا نظر آتا ہے ۔ جس کے لیے وہ اس گیم کے سدا حیات پروڈیوسرز و ڈائریکٹرز کی جی حضوری کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ لیکن یہاں بھی ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایک طرف نیا پاکستان بنانے کے چکر میں پرانے پاکستانیوں کو کچلنے ، پیسنے اور رگڑنے کا پروگرام رکھنے والے مہنگائی کے ہتھیار سے لیس تبدیلی سرکار ہے تو دوسری طرف’جمہوریت کی بحالی ‘ اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کے ایجنڈہ کے ساتھ ’جیو اور جینے دو ‘ والی پرانے پاکستان کی پالیسی رکھنے والی جماعتیں ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔