اے تحیّر عشق

رفیع الزمان زبیری  اتوار 16 جون 2019

ڈاکٹر رفیع مصطفی اپنے ناول ’’اے تحیّر عشق‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔’’خدارا اس کہانی کو میری سوانح حیات نہ سمجھیں۔ اس کہانی میں ’’میں‘‘ مرا ہمزاد ہو تو ہو مگر میں ہرگز نہیں۔‘‘ڈاکٹر صاحب کو اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ان کی لکھی یہ کہانی حقیقت سے اس قدر قریب اور اس کے نمایاں کردار ایسے جیتے جاگتے افراد ہیں کہ آپ بیتی کا ہی تاثر پیدا ہوتا ہے۔

’’اے تحیّر عشق‘‘ بلال کی کہانی ہے، وہ بلال جو اپنے بچپن میں اپنا وطن چھوڑ کر اپنے ماں باپ اور بہن کے ساتھ پاکستان چلے آنے پر مجبور ہوگیا۔اس ہجرت میں ایک اور ہستی ساتھ تھی، وہ بلال کے ماموں جان تھے۔ وہ ایک نیک خو آزاد منش انسان تھے۔ پوری کہانی میں وہ بلال کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ بلال کی امی اور ابا میاں خالہ زاد بہن بھائی تھے۔ ماموں جان اکیلے بھائی تھے۔

بلال اپنے بچپن کو یاد کرتے ہیں، کہتے ہیں ’’میں اور میری بہن زرینہ دادی اماں کی باتیں غور سے سنتے تھے، ہم ان کے پاس لیٹ جاتے تھے اور وہ طرح طرح کے قصے سناتی تھیں۔ وہ سارے جانوروں کی بولیاں سمجھتی تھیں۔ انھی سے ہمیں پتا چلا کہ فاختہ بڑی حلیم اور عبادت گزار ہے۔ ہر وقت کہتی ہے سبحان تیری قدرت، سبحان تیری قدرت۔‘‘

پھر وہ وقت آیا جب ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ کے نعرے لگے اور پورے ملک میں آگ لگ گئی۔ ان کے شہر میں بھی بلوائی آگئے اور گھر جلنے لگے۔ بلال کے ابا میاں اپنی بیوی بچوں اور ماموں جان کو لے کر شہر سے نکل آئے، ہوائی جہاز سے سفرکا انتظام ہوگیا، پہلے کراچی پہنچے اور پھر حیدرآباد کا رخ کیا۔ اب زندگی نئے سرے سے یہاں شروع ہوئی۔ ابا میاں کو محکمہ تعلیم میں ملازمت مل گئی۔ ماموں جان نے پان بیڑی کا کیبن لگالیا۔ وقت گزرنے لگا۔

ایک روز ماموں جان نے بلال کا اور زرینہ کا ہاتھ پکڑا اور انھیں اسکول میں داخل کرنے لے گئے۔ بلال پانچویں کلاس کے لیے فٹ نکلے، زرینہ کا تیسری کلاس میں داخلہ ہوگیا۔ پہلے ہی دن ان کی عرفان سے ملاقات ہوئی اور یہ ایک طویل دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ عرفان کلاس کا سب سے لائق لڑکا تھا اور اب بلال اس کا ہمسر تھا۔ سندھی کلچر سے بلال کے تعارف کا ذریعہ عرفان کی محبت کرنے والی ماں بنی جو ٹھیٹ سندھی لہجے میں بلال سے اردو میں باتیں کرتی تھی۔ بلال کو عرفان کی چھوٹی بہن شگفتہ کی شکل میں زرینہ کی طرح ایک اور بہن مل گئی۔

رفیع مصطفیٰ کے ناول کے کردار جیسے جیتے جاگتے ہیں، ان کی تحریر کی ایک بڑی خوبی اس کا بے ساختہ پن ہے۔ کہانی پر ان کی گرفت کہیں کمزور نہیں ہوتی۔ جب کسی واقعہ کا ذکرکرتے ہیں تو اس وقت کے پورے ماحول کا نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔ بلال کا جہاں گھر تھا اس جگہ کا ماحول کیا تھا۔ لکھتے ہیں ’’ گرمیوں میں لوگ آنگن میں سوتے تھے اور رات بھر پورا محلہ خراٹوں سے گونجتا رہتا تھا۔ یہ نچلے درجے کے سرکاری ملازمین کے کوارٹر تھے۔ قطار در قطار۔کوارٹروں کے درمیان چھ سات فٹ اونچی دیواریں تھیں، پڑوسنیں دیواروں کے ساتھ اسٹول رکھ کر کھڑی ہوجاتیں اورگھنٹوں باتیں کرتی رہتیں۔‘‘ بلال کے کوارٹر میں ڈیرہ کمرہ تھا۔ سردیوں میں ایک کمرے میں چار پلنگ آجاتے۔ دروازے کے بالکل سامنے اس کے ابا میاں کی چارپائی ہوتی، برابر میں امی جان کی، پھر زرینہ کی اور آخر میں اس کی چارپائی۔ دوسرے کمرے میں جو اتنا مختصر تھا کہ آدھا کمرہ کہلاتا تھا، ماموں جان سوتے تھے۔

اسی دوران میں یہ ہوا کہ بلال کی امی جان کو کلیم میں دادوکے نزدیک ایک گاؤں میں تیس ایکڑ زرعی زمین مل گئی۔ بلال کے ابا میاں یہ زمین آدھی بٹائی پر ایک ہاری کو جس کا نام اللہ وسایا جامڑیو تھا، دے آئے۔ وہ ہر سال فصل کٹنے پر آتا اور رقم دے جاتا۔ آگے چل کر یہ اللہ وسایا بھی بلال کی زندگی پر اثرانداز ہونے والے کرداروں میں شامل ہوگیا۔ یہ کردار عرفان، اللہ وسایا کا بھانجا محمود، اس کی بہن روبینہ اور مومنہ تھے۔ مگر یہ مومنہ کون تھی؟ یہ بلال کو بھی معلوم نہیں تھا۔ اس نے صرف نام سنا تھا اور اتنی بار سنا تھا کہ سن سن کر اس کے کان پک گئے تھے۔ بلال ان دنوں کالج کے فائنل امتحان کی تیاری کررہا تھا۔

اس کا پروگرام یہ تھا اگلے چار سال یونیورسٹی میں ’ڈبل آنرز‘ پھر ایم اے۔ اس کے بعد آکسفورڈ اور پھر تین سال ریسرچ۔ وہ درحقیقت کتاب کا کیڑا تھا۔کون سا ایسا موضوع تھا جس میں اسے دلچسپی نہ رہی ہو۔ معاشیات سے لے کر، سیاسیات تک، نفسیات سے لے کر طبیعات تک اور اقبالیات سے لے کر اسلامیات تک سب ہی کچھ پڑھتا تھا۔ پھر کالج تک پہنچتے پہنچتے خیالات میں ٹھہراؤ آگیا اور یکسوئی ہوگئی۔بلال نے اپنے مستقبل کا جو یہ پروگرام بنایا تھا، وہ تیرہ سال کا تھا۔ آخری سال وہ ہوگا جب اس کے نام کی تختی سندھ یونیورسٹی کے ایک کمرے پر لگی ہوگی۔ اب ادھر تو یہ پروگرام ذہن میں بن رہا تھا، ادھر مومنہ نے اس کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ مومنہ گرلزکالج میں پڑھتی تھی، آل راؤنڈر تھی، پڑھتی ہی نہیں رسالوں میں مضمون بھی لکھتی تھی، کالج میں بڑی پاپولر تھی۔

بلال نے مومنہ کو دیکھا نہ تھا لیکن سوچا اسی کے بارے میں رہتا تھا۔ پھر ایک دن یہ ہوا کہ ایک لڑکی سیاہ گاؤن میں، سیاہ اسکارف سے منہ چھپائے اتنی تیزی سے بلال کے پاس سے گزری کہ اس نے ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا محسوس کیا جس میں رات کی رانی کی بھینی بھینی سی مہک تھی اور مسحور ہوگیا، یہ مومنہ تھی۔ پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا بلال کے اعصاب پر مومنہ کی گرفت مضبوط ہوتی گئی۔رفیع مصطفی نے یہ کردار بڑی خوبصورتی سے تراشا ہے۔ مومنہ میں حسن، ذہانت، شائستگی، خود داری ہی نہیں اور بھی خوبیاں تھیں۔ بلال کو اگر اس سے محبت ہوگئی اور یہ محبت بڑھتے بڑھتے عشق اور جنون کی حد تک پہنچ گئی توکیا تعجب تھا۔

’’اے تحیّر عشق‘‘ کی کہانی اپنے دوسرے کرداروں کے ساتھ آگے بڑھتی رہی۔ بلال کے ماموں جان، دادو کی زرعی زمین کے ہوگئے، وہ فرفر سندھی بولتے۔ محمود، اس کی بہن روبینہ جو زرینہ کی ہم عمر تھی اور اس کی ماں اور دو چھوٹے بھائی۔ اب یہ ماموں جان کا خاندان بن گیا۔کچھ وقت گزرا تو انھوں نے محمود کی ماں سے شادی کرلی۔ بلال کی زندگی میں پھر اچانک ایک موڑ آیا۔ روبینہ اور زرینہ ایک ہی کالج میں تھیں۔ یوں اس کی بلال سے ملاقات ہونے لگی پھر نہ انھیں یاد آیا اور نہ روبینہ کو پتا چلا وہ کون سا لمحہ تھا جب وہ ’’آپ‘‘ سے ’’تم‘‘ ہوگئے۔ بلال کو بس اچانک ہی محسوس ہوا کہ روبینہ بے حد جذباتی اور محبت کرنے والی لڑکی ہے۔ مومنہ بلال کے شہر سے جاچکی تھی۔ اب وہ نہ بلال کوکچھ دے سکتی تھی اور نہ بلال اسے۔ آنے والے دنوں میں کچھ اور پھول کھلنے والے تھے۔

محمود کا بلال کی بہن زرینہ سے رشتہ طے ہوگیا اور عرفان جو بلال کا عزیز دوست اور ہمدم تھا، اس کے اور روبینہ کے درمیان کھڑا ہوگیا۔ مومنہ سے محبت کا انجام حسرت بن چکا تھا کہ روبینہ کے ساتھ زندگی گزارنے کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا۔ اب وہ عرفان سے وابستہ تھی۔ بلال نے جب روبینہ سے بے وفائی کا شکوہ کیا تو اس نے جواب دیا، تم نے اپنی محبت کا مجھ سے اظہار کب کیا تھا۔ بلال نے حیرت سے کہا، اظہار! تمہارے لیے میرے جو احساسات تھے کیا انھیں سمجھنے کے لیے تمہیں الفاظ کی ضرورت تھی؟ روبینہ نے کہا، دیکھو بلال! محبت ایک پودے کی طرح ہوتی ہے اور محبت کا اظہار اس پودے کے لیے پانی کا درجہ رکھتا ہے۔ محبت کو اظہار نہ ملے تو وہ پانی نہ ملنے والے پودے کی طرح سوکھ کر مر جاتی ہے۔ ‘

ڈاکٹر رفیع مصطفی کی لکھی یہ کہانی وقت کے بہاؤ کے ساتھ اندھیروں اور اجالوں کے غیر معین وقفوں سے گزرتی ہوئی جب اپنے اختتام کو پہنچتی ہے تو کبھی کبھی یہ احساس ہوتا ہے جیسے ہماری زندگی میں نہ کوئی ماضی ہے، نہ کوئی مستقبل۔ بس حال ہی ایک حقیقت ہے۔ پھر حال بھی بے وقعت ہوجاتا ہے۔ بلال کے لیے تو زندگی اس مقام پر پہنچ گئی تھی جہاں ’’یہ یاد نہیں رہتا کہ کون سا واقعہ حقیقتاً پیش آیا تھا اورکون سا فقط ذہنی اختراع ہے کیونکہ تمناؤں کی پرچھائیاں بھی حقیقی کردار کا روپ دھار لیتی ہیں۔ لیکن جب یہ خیال آتا ہے کہ کاش ایسا ہوا ہوتا تو یقین ہونے لگتا ہے کہ واقعی ایسا ہوا تھا۔ وہ یادیں ماضی تمنائی کا حصہ بن جاتی ہیں اور جب بھی ان کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں تو ہونٹوں پر خود بخود مسکراہٹ آجاتی ہے۔‘‘ڈاکٹر رفیع مصطفی اپنی یہ کہانی سراج اورنگ آبادی کے اس شعر پر ختم کرتے ہیں:

خبرِ تحیّر عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی

نہ تُو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔