امریکا میں ایک اور سفر

حمید احمد سیٹھی  اتوار 16 جون 2019
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

ہم جبران حمید کی طرف جانے کے لیے Houston ایئرپورٹ پر رات 8 بجے پہنچے اور سیکیورٹی کے مراحل سے گزرنے کے لیے جوتے اور پتلون اتار کر جیبیں خالی کر کے آگے بڑھے اور آخری مرحلے پر تھے تو نوجوان امریکی گورے نے انگریزی میں پوچھا، کس ملک سے آئے ہیں۔

میں نے پاکستان کہا تو اس نے مسکراتے ہوئے Wel Come کہہ کر اردو میں پوچھا ’’کیسے ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’اچھے‘‘۔ اس نے پھر کہا ’’کیسا لگ رہا ہے؟‘‘ میرا جواب تھا ’’بہت اچھا‘‘۔ اس پر اس نے ہاتھ ملایا اور آگے چلے جانے کا اشارہ کیا۔ پاکستان کے ساتھ یہ سلوک دیکھ کر خوشی ہوئی۔ Delta ایئرلائن نے ہمیں نصف شب Atlanta ایئرپورٹ پر اتار دیا، یہ دنیا کا مصروف ترین ہوائی اڈا ہے جس پر روزانہ پونے تین لاکھ سے زیادہ مسافروں کی آمد ورفت ہوتی ہے۔ ایئرپورٹ سے باہر نکل کر ٹیکسی بلوائی۔ ہمیں دس میل دور پہنچنا تھا۔

ٹیکسی روانہ ہوئی تو بیس منٹ تک اترائی ہی اترائی تھی، یہ سطح مرتفع شہر بھی خوب ہے، یوں لگا ہم استنبول میں ہیں۔ آدھی رات کا وقت، کہیں نیچی اور کہیں روشنی میں نہاتی ہوئی بلند وبالا عمارتیں، ہمیں Mid Town علاقے میں پہنچنا تھا۔ جب دس میل کا فاصلہ طے کر کے منزل پر پہنچے تو یہ مقام ہوائی اڈے سے ایک سو فٹ نیچے تھا۔ Atlanta شہر کی سڑکوں اور علاقوں میں چلتے پھرتے معلوم ہوتا ہے کہ ہم استنبول کے گلی محلوں میں گھوم پھر رہے ہیں کیونکہ بمشکل کوئی سڑک ایک لیول پر ہو گی، کسی بھی کھلی جگہ کھڑے ہو کر شہر کا بلند ترین اور نچلا علاقہ اس کی عمارتوں کی وجہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔

سطح مرتفع کی حد تک ان دو شہروں میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ جون کے مہینے میں جب لاہور کراچی کے لوگ پسینے میں بھیگ اور پہاڑی کی طرف دوڑ رہے ہوتے ہیں، اٹلانٹا کا موسم خوشگوار ہے، یہاں سیاہ فام لوگوں کی تعداد نسبتاً زیادہ نظر آتی ہے البتہ ان کے بے تحاشہ موٹاپے کو کوئی نہیں روک سکا یہاں بھی ایک عورت کو اپنے بچے کی پرام کو ہاتھ نہ سکنے کی وجہ سے پیٹ سے دھکیلتے ہوئےlinoxMall میں دیکھا ہے۔ اس مال میں کاروں کے شوروم میں Display ہوئی تین Tesla کاریں ہیں۔

کہتے ہیں کہ سائنس اتنی رفتار سے ترقی پذیر ہے کہ اگلے دس پندرہ سال تک پٹرول ڈیزل کی مانگ کم پڑ جائے گی اور بجلی سے چلنے والی موٹریں زیادہ تعداد میں سڑکوں پر نظر آئینگی۔ اٹلانٹا میں انڈین کافی تعداد میں ہیں۔ جبران حمید اپنے آفس سے واپس آ کر حلال گوشت کی خریداری کے لیے جس اسٹور پر لے گیا وہ ایک انڈین عورت ہی کا تھا۔ وہاں ایک بھی دکان پاکستانی کی نہ پا کر افسوس ہوا لیکن وہاں پکوڑوں، دہی بھلوں، شاہی قلفی اور چٹ پٹی اشیاء کی دکانیں تھیں جہاں ہندو مسلم گاہکوں کی اکثریت تھی۔ وہاں 8 کنال پر پھیلی دکان Patel Brothers کی دیکھی جس کے مالک کا نام سنجے مہیش تھا۔ یہاں کچن کی ہر چیز موجود تھی۔ کچھ پاکستانی Products بھی تھیں۔

اسی مارکیٹ میں Gulistan Pan Shop میں داخل ہوئے تو دیوار پر پرنس کریم آغا خان کی تصویر دیکھی۔ دکاندار کو سلام کیا۔ اس نے جواب دے کر کہا ’’علی حیدر۔‘‘ جس پر اس سے دو پان بنوائے جن کی مالیت تین ڈالر تھی۔ اس اسماعیلی دکاندار سے بات چیت بھی ہوئی اور آغاخان کا ذکر بھی۔ ہمارے ملک کے شمالی علاقہ جات میں کثیر تعداد میں اسماعیلی آباد ہیں اور لاہور کی ایک سڑک کا نام بھی سر آغا خاں روڈ رکھا گیا تھا۔ یوں تو نہر کے ساتھ چلتی سڑک کا نام بھی اقبال شناس میری این شمل کے نام پر ہے۔ ان دو سڑکوں کے نام والے بورڈ البتہ موسم اور جہلاء کی نذر ہو چکے ہیں۔ اس Mall کے قرب میں ایک Pet Super Market اور Pet Hospital بھی دیکھا۔ سپر مارکیٹ اندر سے گھوم کر دیکھی تو اس میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت کتوں اور بلیوں کا میلہ تھا۔

کالم کی تحریر جہاں تک پہنچی تھی کہ ٹیلی فون کے Buzzer نے توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی ہے۔ لاہور سے سرور سکھیرا کی طرف سے آئی چند تصاویر کے ذکر کے بغیر آگے چلنا مشکل ہے کیونکہ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ کبھی پاکستان کا یہ مقام بھی تھا۔ ان تصاویر میں ملکہ برطانیہ الزبتھ کو صدر ایوب خاں کے ہمراہ پاکستان کراچی صدر ہاؤس میں سیڑھیاں اتر کر لان کی طرف کھانے کے لیے جاتے ہوئے اور دوسری بار صدر کراچی کی ایک سڑک پر کھلی چھت کی کار میں ایوب خاں کے ساتھ کھڑے لوگوں کی تالیوں کا ہاتھ ہلاتے ہوئے جواب دینا دیکھا جا سکتا ہے۔

تیسری تصویر میں ہالی وڈ فلم اسٹار ایوا گارڈنر لاہور ایئرپورٹ پر بھوانی جنکشن فلم میں اداکاری کرنے آئی ہے۔ چوتھی تصویر میں صدر پاکستان امریکی صدر کا پیار سے گال تھپتھپا رہا ہے جب کہ پانچویں تصویر میں امریکی صدر کی بیگم جیکولین کینیڈی پاکستان میں کھلی چھت کی کار پر کھڑی لوگوں کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ ان تصاویر کے ذکر کی خواہش اس لیے درمیان میں آ ٹپکی کہ میں اس وقت امریکا میں ہوں اور واپسی پر دو ہفتے کے لیے برطانیہ رکوں گا جب کہ ان دونوں ممالک کا پاکستان کے ساتھ رویہ پہلے جیسا نہیں۔

یہاں کی مارکیٹوں میں کئی دکانوں کے باہر Nails لکھا دیکھا۔ گوریوں میں عموماً اور سیاہ فام خواتین میں اکثر رنگ برنگے لمبے مصنوعی ناخن لگوانے کا بہت شوق ہے۔ کوئی پارلر Nails کے بغیر مکمل نہیں۔ سیاہ فام خواتین اور مردوں کے سر کے بالوں کے فیشن کمال کے ہیں۔ پاکستان میں تو چند روز سر کے بال نہ دھوئے جائیں تو ان میں جوؤں اور لیکھوں کا پیدا ہو جانا یقینی ہے۔ کئی امریکی خواتین بالوں کو کٹوا کر ٹنڈ شدہ سر پر غضبناک ہیئرسٹائل کا تاج نما گچھا اچھی طرح جما لیتی ہیں جسے وہ رات سوتے وقت اتار دیتی ہیں البتہ ان کے رنگ برنگے ناخنوں کی لمبائی بدشکل اور خوفناک ہوتی ہے۔

رہائشی علاقوں کے قریب پارک ہیں لیکن پارک کچھ فاصلے پر ہوں تو سیر کے لیے Walk Ways اور وہاں الیکٹرک سائیکل اور موٹرسائیکل اسٹینڈز پر لگے یا سائیڈز پر رکھے ملتے ہیں چونکہ وہ کرائے پر ملتے ہیں اس لیے موبائل فون سے Payment کر کے شوقین حضرات انھیں لے کر چلاتے پھرتے ہیں۔ رات کے وقت ان کی بتیاں جلا کر چلایا جا سکتا ہے۔ان واک کے رستوں پر ذرا ذرا سے فاصلے پر پانچ دس پندرہ بائیکس اور موٹربائیکس پڑی ملیں گی یا اسٹینڈ پر لگی ہوں گی جنھیں بآسانی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

کئی شہروں اور ممالک کی طرح اٹلانٹا میں بھی یوگا سینٹر اور اسکول دیکھنے میں آئے۔ اگرچہ اس جسمانی ذہنی اور روحانی ورزش اور ڈسپلن کی ابتداء کا اشارہ ہندو، بدھ اور جین مت کی طرف ملتا ہے لیکن امکان ہے کہ 3 سے 5 ہزار سال قبل کی سولائزیشن میں بھی موجود ہو۔ اب اس کا استعمال جسمانی، ذہنی اور روحانی بیماریوں سے بچاؤ اور ان کے علاج کے طور پر ہو رہا ہے۔ اس کے 12 بنیادی Postureبتائے جاتے ہیں۔ یورپ امریکا ہی نہیں پاکستان میں بھی اس ایکسرسائز کی طرف دلچسپی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

امریکا اور کینیڈا میں درختوں اور سبزہ کی بہتات ہے۔ یہاں اسٹیل کے علاوہ لکڑی کے بے شمار الیکٹرک پول نظر آتے ہیں۔ Pine کے درخت مضبوط، سیدھے اور طویل قامت ہونے کی وجہ سے محکمہ بجلی انھیں محفوظ اور مفید پاتا ہے۔ کئی جگہ اسٹیل اور لکڑی سے بنے بڑے بڑے گھونسلے دیکھے۔ ان گھونسلوں کے اردگرد، اوپر نیچے لکڑی کے پھٹے لگ جائیں گے تو یہ رہائشیں مکانوں اور عمارتوں کی شکل اختیار کر لیں گے۔ یہ انسانوں کے مضبوط گھونسلے ہوں گے۔ سبزہ اور جنگلات یہاں خدائی نعمت ہے۔ انھیں دیکھ کر مجھے اپنے بچپن کے عبدالرحمن اینٹوں کے بھٹوں والے یاد آ گئے جن کی تیار کی ہوئی اینٹوں کی چنائی سے مکانوں، عمارتوں کی تعمیر ہوتی اور لکڑی صرف دروازوں، الماریوں میں استعمال ہوتی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔