70 برس پرانا سچ

زاہدہ حنا  اتوار 16 جون 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

بنگال کی کیا مٹی ہے، یہاں ہرے بھرے جنگل لہلہاتے ہیں اور یہاں سے بغاوت کا خمیر اٹھتا ہے۔کون سوچ سکتا تھا کہ ایک فرنگی جو بنگال میں پیدا ہوا ، وہ دنیا کے ادب میں بڑا پیش بین ثابت ہوگا۔ اس نے دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد اور سرد جنگ کے نقطہ آغاز کے ساتھ ہی دنیا کی سیاست کو سرکے بل کھڑے ہوتے دیکھا۔ اس نے ہٹلرکا زوال دیکھا تھا اور اس کے ساتھ ہی اسٹالن کا عروج دیکھا اور پھر اسپین میں جنرل فرانکو کی فوجوں کی سفاکی اور نادرگردی دیکھی۔

دنیا جس کے بارے میں خیال پرست یہ گمان کر رہے تھے کہ ایک پُر امن اور خوبصورت دنیا وجودمیں آئے گی، وہاں مطلق العنانیت اور آمریت کے پرچم کھل گئے۔ وہ سوشلسٹ تھا لیکن سوشل ازم کے نام پر انسانوں کو جس طرح روندا جا رہا تھا، وہ سب کچھ جارج آرویل اور اس کے ہم خیال ادیبوں کے لیے ناقابل فہم تھا۔

اس نے 1949 میں ایک مختصر سا ناول ’’1984‘‘ لکھا اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ اس سے پہلے کسی نے بھی ہندسوں پر مشتمل کوئی ناول نہیں لکھا تھا۔ وہ آنے والے زمانوں کا قصہ لکھ رہا تھا۔ ایک ایسا شہر آشوب جوکروڑوں انسانوں کی زندگی کا سچ ہونے والا تھا۔ اس ناول میں آرویل نے ایسے کئی جملے لکھے جو دنیا کے بہت سے سوچنے اور غوروفکر کرنے والوں کی زندگی کا سچ بن گئے۔اس نے لکھا کہ ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی اقتدار پر اس لیے قابض نہیں ہوتا کہ کچھ دنوں میں وہ اقتدار سے دستبردار ہوجائے گا۔

ہم لوگوں نے جنرل ایوب، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے نام سے اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کو دیکھا جو آخری لمحے تک اپنی شکستہ کشتی کے تختوں سے یوں چمٹے رہے جیسے وہ ان کی زندگی اور ان کے اقتدارکی ضمانت ہیں۔

آر ویل صحافی تھا، اس نے محاذ جنگ کو دیکھا، وہاں کی ہولناک زندگی کا چشم دید گواہ رہا اس کی گردن میں گولی لگی اور اس کے ساتھ ہی دریائے ادب کا شناور رہا۔ اس نے جانورستان اور 1984 ایسے ناول لکھے جنہوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ 1984 ان لبرل جمہوریتوں کے بارے میں تھا جن میں انتہا پسند رجحانات پنپتے ہیں اور پھر مطلق العنانیت کی بدترین شکل اختیار کرلیتے ہیں۔کچھ لوگوں نے 1984 کو دوسری جنگ عظیم کے بعد ابھرنے والے سوشلسٹ سماج کا عکس جانا جب کہ امریکی قارئین نے اسے میکارتھی ازم اور اس کے زیر اثر لیے جانے والے وفاداری کے حلف سے جوڑکر دیکھا ۔

یہ ناول جو 1949 میں لکھا گیا تھا۔ اب 2019 میں 70 برس کا ہوگیا ہے۔ 70 برس کی اس مدت میں یہ ناول کبھی بھی پڑھنے والوں اور نقادوں کی نظر سے اوجھل نہیں ہوا۔

70ء کی دہائی میں اسے امریکی صدر نکسن اور اس سے جڑے ہوئے واٹرگیٹ اسکینڈل کے تناظر میں دیکھاگیا۔ اس زمانے میں یہ ناول امریکا میں خوب خوب بکا۔ 1984 کا سال آیا تو چونکہ اس ناول کا نام اس برس سے منسوب تھا، یہی وجہ تھی کہ اس ایک برس کے دوران امریکیوں نے اس کی 40 لاکھ کاپیاں خریدیں۔

آرتھرشیل سنگر جونیئر نے کہا تھا کہ ہر انسان کے سینے میں ایک ہٹلر اور ایک اسٹالن چھپا ہوا ہوتا ہے۔ آر ویل اپنے شہرۂ آفاق ناول میں لکھ رہا تھا کہ ’’جنگ، امن ہے، آزادی، غلامی ہے اور جہل طاقت ہے۔‘‘ ہم نے تیسری دنیا کے ملکوں میں برسراقتدار آجانے والوں کو یہی منتر پڑھتے اور کسی نہ کسی طور حکمرانی کے منصب پر فائز دیکھا۔

اپنی تاریخ کے ہر مرحلے میں یہ ناول ہمیں یاد آتا ہے۔ جمہوریت کے نام پر برسر اقتدار آنے والے کس طرح آہنی گرفت سے اپنے لوگوں کو اپنے شکنجے میں رکھتے ہیں اور ان کے پھڑپھڑانے کا تماشا دیکھتے ہیں۔ وہ ہمیں ان لوگوں کے چہرے دکھاتا ہے جو مزاحمت اور بغاوت کے نام پر سامنے آئے، لوگوں نے ان کی ستائش کی،ان کو برسر اقتدار لانے میں اپنی طاقت صرف کردی اور جب ان کے چہروں پر دمکتا ہوا مکھوٹا ہٹا تو حقیقت سامنے آئی ۔ شہری آزادیاں، ایماندار حکومتیں اور معاشی طاقت کس طرح کچلی گئی۔ ’’پارٹی‘‘ کے نام پر فکروخیال کی آزادی سلب کرلی گئی۔’’سچ ‘‘ کی وزارت تشکیل دی گئی جس کے تحت ماضی کے سچ کو جھوٹ کہا گیا اور یہ استحقاق پارٹی کا ہوگیا کہ وہ کس بات کو سچ تسلیم کرے۔

’’نفرت‘‘ ایک ہتھیار بن گئی، ’’ہفتۂ نفرت‘‘ منایا جانے لگا۔ اس رویے سے اختلاف کرنے والے غدار ٹھہرے۔’’پارٹی‘‘ جسے سچ کہے وہی سچ ہے۔ ہر طرف سے یہ نعرہ ابھرا کہ ’’بڑا بھائی دیکھ رہا ہے‘‘ گھروں میں رکھے ہوئے ٹیلی ویژن سیٹ سے لوگ صرف پروگرام دیکھتے ہی نہیں تھے، وہ سیٹ انھیں دیکھ رہا تھا اور ان کے وسیلے سے ’’ بڑا بھائی‘‘ ان کے ذہن اور ان کے ضمیر میں اترا ہوا تھا۔ بڑے بھائی سے بھاگ کر آپ کہاں جائیں گے۔ بچے، ماں باپ کی مخبری کرنے لگے۔ اس پولیس کا محکمہ بن گیا جو بچوں کی مدد گار تھی اور انھیں بتاتی تھی کہ وہ اپنے ماں باپ کی ’’پارٹی‘‘ سے وفاداری کو یقینی بنائیں۔

محبت اور جنسی تعلق کا معاملہ بھی پارٹی کی زیر نگرانی آیا ۔ بچوں کو ’’پارٹی‘‘ کا مکمل وفادار بنانے کے لیے بچوں کو ان کے گھروں سے اٹھالیا گیا تاکہ وہ ’’پارٹی‘‘ کی زیر نگرانی پرورش پائیں اور ان کی تمام وفاداریاں ’’پارٹی‘‘ کے عظیم مقاصد سے جڑی ہوئی ہوں۔

’’پارٹی‘‘ کے نزدیک آزادی اور ذاتی تشخص کی کوئی اہمیت نہیں۔ آزاد خیالی، خطرناک ہے اور اسی سے بغاوت جنم لیتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کی سزا موت ہے۔ لوگوں کے اندر خوف کو انتہا کی حد تک پرورش کردینا ہی ’’پارٹی‘‘ کی اصل کامیابی ہے۔ اس لیے کہ خوف وہ ہتھیار ہے جسے استعمال کرکے آپ لوگوں سے بڑے بڑے کام کروا سکتے ہیں۔

آزاد سوچ سب سے بڑا جرم ہے اور اگر کوئی شخص اس جرم کا مرتکب ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پارٹی سے غداری کا مرتکب ہورہا ہے اور غداروں کا صفایا کرنا بہت ضروری ہے۔ کاغذ یا نوٹ بک ایک خطرناک شے ہے۔ 1984 کا ہیرو کسی طور پر ایک ڈائری حاصل کرتا ہے اور اس میں روز مرہ کے واقعات یا ماضی کے معاملات چھپ کر لکھتا ہے ، وہ ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ اگر یہ بات ’’ پارٹی ‘‘ کو معلوم ہوگئی تو اس کا کیا انجام ہوگا۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ ’’پارٹی‘‘ تاریخ کو اپنے قبضے میں لے رہی ہے۔ سچ کو جھوٹ قرار دیا جارہا ہے اورکوئی دن جاتا ہے جب بچے اور نوجوان سچ اور جھوٹ میں تمیز نہیں کرسکیں گے۔

عورت اور مرد کے درمیان عشق ممنوع ہے اس لیے کہ عشق بہت سے جھگڑوں کی جڑ ہے۔ اس ناول کا ہیرو اور ہیروئن بھی آخر کار عشق سے تائب ہوجاتے ہیں۔ تشدد اور عقوبت کی بدترین جگہ کمرہ نمبر 101 ہے۔ یہ ان لوگوں کا ٹھکانہ ہے۔ جو ’’پارٹی‘‘ سے اختلاف کرتے ہیں۔ یہاں منحرفین کو بدترین جسمانی اور نفسیاتی شداید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

1984 ایک ہولناک ناول ہے۔ وہ لوگ جو اپنی منتقم المزاج حکومتوں کے جبرو تشدد کا نشانہ بنے، انھوں نے جب یہ ناول پڑھا تو اس بات کے قائل ہوئے کہ جارج آر ویل نے ’’پارٹی‘‘ کی طرف سے دی جانے والی سزائوں کا کیسا درست نقشہ کھینچا تھا۔

اس ناول کی اشاعت کو جون 2019 میں 70 برس ہوگئے لیکن اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آتی۔ بہ طور خاص تیسری دنیا کی بہت سے نام نہاد جمہورتیں آرویل کے اس تخیلاتی ناول کے نقش قدم پر چلی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اکیسویں صدی میں براہ راست اقتدار پر فوج کا قبضہ ممکن نہیں، اسی لیے ایسی مملکتیں ہیں جہاں ریشمی پرچموں کی سرسراہٹ کے عقب میں کھردری وردیاں ہیں اور ان کے قدموں کے نیچے آزاد فکر نوجوان روندے جارہے ہیں۔ اگر ہم اپنے آس پاس دیکھیں تو ہمیں میانمار (برما) نظر آتا ہے جہاں جمہوریت کے لیے کیسی شاندار جدوجہد کی گئی تھی، جہاں آن سانگ سوچی کی مزاحمت کو ساری دنیا نے کس طرح خراج تحسین نہیں ادا کیا، پھر ہم نے اور ساری دنیا نے دیکھا کہ سوچی اقتدار کی دلدل میں کس طرح اتریں اور ’’ہرکہ درکان نمک رفت، نمک شد‘ کی مثال بن گئیں۔

ہمارے ارد گرد ایسا ہورہا ہے اور بہت طمطراق سے ہورہا ہے۔ 70 برس بعد بھی آر ویل کا ناول معتبر ٹھہرتا ہے۔ ’’آزاد فکر‘‘ اور اپنے تشخص کی حمایت، ناقابل معافی جرم ہے۔ عوام سے انصاف کے نام پر ان کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے۔ ان کے تشخص کو کچلا جا رہا ہے۔ ان کو… تیل لکڑی کے چکر میں اس طرح الجھایا جا رہا ہے کہ وہ کسی اور چیز کے بارے میں سوچنے کے قابل نہ رہیں۔ ان سے عشق کا اختیار چھینا جارہا ہے اور ان کی تاریخ مسخ کی جارہی ہے۔ ایسے میں 1984 یاد آتا ہے اور اس شخص کی دانش کے سامنے ہم سر جھکاتے ہیں جس نے 70 برس پہلے اس مطلق العنان جمہوریت کی جھلک ہمیں دکھائی تھی جو آج کا سچ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔