سیاپے نہ سنیں، فیصلے کریں

نصرت جاوید  منگل 3 ستمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ہمارے ٹی وی چینلوں کی اسکرینوں پر کئی برسوں سے کراچی کراچی ہو رہا ہے۔ سیاپے اور واویلے کی اس تکرار کے باوجود معاملات میں سلجھاؤ کی کوئی صورت نہیں بن رہی۔ بنے بھی تو کیسے۔ ٹاک شوز کی روایت کے مطابق اینکر ایک ہوتا ہے۔ وہ خود کو غیر جانب دار رکھنے کی کوشش میں کراچی کے تمام Holders Stakeکے ایک ایک نمایندے کو بلا لیتا ہے۔

2008 تک پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو مرکزی کردار مانا جاتا تھا۔ پھر شاہی سید اور ان کی ANP نمودار ہو گئی۔ ان جماعتوں کے لوگ ٹی وی پر فکر مند نظر آنے کی بہت کوشش کرتے ہیں۔ آئین کی بالادستی پر ایمان رکھنے کے دعوے کرتے ہیں اور بڑے خلوص سے تجویز دیتے نظر آتے ہیں کہ امن و امان قائم رکھنے والے اداروں کے کام میں کوئی سیاسی مداخلت نہ ہو۔ پولیس کو کھلی چھوٹ دی جائے کہ وہ ہر صورت میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے اختیارات کو بھرپور طریقے سے استعمال کرے۔

پچھلے پانچ برس ان لوگوں کی باتیں سنتے ہوئے مجھے اکثر یہ گمان ہوتا کہ جیسے کراچی میں کوئی اور سیاسی جماعت برسرِ اقتدار ہے۔ اسی لیے تو ان جماعتوں کے نمایندوں کو ٹیلی وژن پر آ کر پولیس کے لیے اختیارات مانگنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ حقیقت مگر اس کے بالکل برعکس تھی۔ آخری خبریں آنے تک وزیر اعلیٰ سندھ کا تعلق پیپلز پارٹی کے ساتھ ہی رہا۔ ماضی کے پانچ برسوں میں اس جماعت نے ایم کیو ایم کی مسلسل ناز برداری کی۔ اے این پی کے ’’مادر صوبے‘‘ کو بقول اس جماعت کے خیبر پختون خوا کا نام دے کر ’’شناخت‘‘ دی۔

ان تینوں کے وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اتنا عرصہ ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے کراچی کے مسائل کا حل ڈھونڈنا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہ تھا۔ حل نہ مل سکا تو اس کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ ان تینوں جماعتوں کی جدا جدا ترجیحات ہیں۔ تینوں کو اس ’’عصبیت‘‘ نے جکڑ رکھا ہے جو ابنِ خلدون کی نظر میں طاقتور اشرافیہ پیدا کرنے کے بعد اسے حاکمیت کے قابل بنا دیا کرتی تھی۔ ہمارے ہاں مگر ایسا ہو نہیں سکتا۔ ان تینوں جماعتوں نے نیک نیتی کے ساتھ کبھی یہ بات سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس ہی نہ کی کہ کراچی میں امن کے قیام کی امید صرف اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی مجبوری نہیں ضرورتوں کا خیال کرنا بھی شروع ہو جائے۔ پیپلز پارٹی خود کو ’’دیہی‘‘ نہ سمجھے اور اے این پی والے اس بات کا احساس کریں کہ پشتونوں کی آبادی کے حوالے سے کراچی شاید دُنیا کا سب سے بڑا ’’پختون‘‘ شہر ہے مگر یہاں اور علاقوں اور لسانی گروہوں سے تعلق رکھنے والے بھی کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ اس شہر کو ان کے لیے ’’اجنبی‘‘ نہیں بنایا جا سکتا۔

وقت آ گیا ہے کہ نہایت کھلے دل سے اعتراف کر لیا جائے کہ پورے پانچ برس ضایع کر دیے گئے ہیں۔ اب معاملات کو جوں کا توں نہیں رکھا جا سکتا۔ نئی سوچ کی ضرورت ہے۔ فی الوقت وہ سوچ مجھے کوئی سیاسی جماعت فراہم کرتی نظر نہیں آ رہی۔ تاہم نواز شریف صاحب اب پاکستان مسلم لیگ ن کے محض صدر نہیں رہے، پورے ملک کے وزیر اعظم بھی بن گئے ہیں۔ یہ عہدہ حاصل کر لینے کے بعد اب ان کی کچھ آئینی اور حکومتی ذمے داریاں بھی ہیں۔ ان سے مفر ممکن نہیں۔ ایک حوالے سے دیکھیں تو ان ذمے داریوں کو نظر انداز کیے رکھنا ناقابلِ معافی بھی ہے۔

کراچی پر بہت بحث ہو چکی۔ اب ایک واضح حکمتِ عملی اور ٹھوس فیصلوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی ریاست کے لیے بہت سے ادارے بڑی جانفشانی سے حقائق دریافت کرنے کے بعد انھیں حکومتوں تک پہنچانے کے دعوے دار بنے ہوئے ہیں۔ اگر انھوں نے سپریم کورٹ کو کسی ’’مہاجر ری پبلکن آرمی‘‘ کا بتایا تھا تو چوہدری نثار علی خان کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں کھڑے ہو کر وضاحتی تاویلات پیش کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ زیادہ بہتر ہوتا کہ وہ اس افسر کی نشان دہی فرمانے کے بعد اس کی گوشمالی کا بندوبست بھی کر دیتے جس نے ان سے ’’بالا بالا‘‘ سپریم کورٹ کو ایک رپورٹ پیش کر دی اور ایم کیو ایم کو ’’جناح پور‘‘ یاد دلوا دیا۔ ’’جناح پور‘‘ کو یاد کرتے ہوئے جو واویلا مچا اس میں یہ بات گول ہو گئی کہ کراچی کے ایک تاجر کے اغواء برائے تاوان والے حالیہ واقعے کے پیچھے اصل حقیقت کیا تھی۔ اور اگر ’’حقیقت‘‘ وہی ہے جس کا سرگوشیوں میں ذکر ہو رہا ہے تو میں اگر اس ملک کا وزیر اعظم یا وزیر داخلہ ہوں تو مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جمع شدہ دیگر معلومات پر اعتبار کرنا میرے لیے کافی مشکل ہو جائے گا۔ ان کی بتائی معلومات پر گرفتاریاں کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔

وزیر اعظم نے کراچی میں اپنی کابینہ کا خصوصی اجلاس رکھا ہے۔ ان کا فرض بنتا ہے کہ اس شہر میں اپنے قیام کے دوران کم از کم یہ پیغام تو اس شہر میں رہنے والوں کو پہنچا دیں کہ اگر وہ یہاں امن چاہتے ہیں تو خود کو محض وہاں کا ایک رہائشی نہ جانیں۔ کراچی کے ’’شہری‘‘ بنیں۔ ’’شہری‘‘ کے یقیناً بہت سارے حقوق ہوتے ہیں جو ریاست اور حکومت کو ہر صورت ادا کرنا ہوتے ہیں۔ ’’شہریوں‘‘ کے مگر کچھ فرائض بھی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پورے کیے جا رہے ہیں یا نہیں۔ ’’نیویارک‘‘ میں دُنیا کے کس ملک یا مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ نہیں رہتے؟ وہاں اٹلی والے بھی ہیں اور یہودی بھی۔

سیاہ فام لوگوں کی کثیر تعداد ہے تو چینیوں کے اپنے اپنے ٹاؤن بھی۔ اب تو خیر سے ہر دوسرا ٹیکسی چلانے والا پاکستانی ہی نظر آتا ہے۔ مگر اپنی تمام تر قباحتوں کے باوجود وہ شہر دنیا بھر کا اب تک معاشی اعتبار سے مرکز بنا ہوا ہے تو اس وجہ سے کہ وہاں کا ہر شہری خود کو پہلے New Yourker سمجھتا ہے اور اس شناخت پر نازاں بھی۔ کراچی میں ہمارے خطے کا نیو یارک بن جانے کے سارے مواقعے موجود ہیں۔ نواز شریف اگر اپنی سیاسی نہیں حکومتی حیثیت میں چند قدم خلوصِ دل سے اٹھا لیں تو معاملات یقینا سدھرنا شروع ہو جائیں گے۔ مگر التجا ہے تو صرف اتنی کہ کراچی میں اپنے قیام کے دوران عطار کے انھی لونڈوں میں گِھر کہ نہ بیٹھ جائیں جو کئی برس سے ہمارے چینلوں کی اسکرینوں پر کراچی کراچی کی دہائی دیتے رہے ہیں۔ سیاپے نہ سنیں۔ فیصلے کریں اور ان پر عملدرآمد کے لیے ٹھوس اقدامات۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔