مشرق وسطیٰ کی جنگ؟

شہلا اعجاز  منگل 3 ستمبر 2013
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

9/11 کے حادثے کے بعد دنیا کی معاشی صورت حال میں ایک بھونچال سا آ گیا تھا کیونکہ اس کے بعد سپر پاور امریکا نے جو اقدامات کیے تھے اس کے اثرات سے اب بھی دنیا نکل نہیں پائی۔ عراق پر حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ جس معاشی چنگل میں دنیائے عالم کے ممالک پھنس گئے تھے اس میں سے نکلنے کی تگ و دو اب بھی جاری ہے لیکن گزشتہ چند مہینوں سے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں جو صورت حال جاری ہے محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس کا اثر بھی کہیں 9/11 کے حادثے کی طرح گہرا نہ ہو۔

شام میں بشارالاسد کی حکومت نے جو تباہ کاریاں پھیلانی شروع کی تھیں وہ خانہ جنگی کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔ طاقت اور جوش کے بیچ کی اس جنگ میں پسنے والے عوام ہمیشہ کی طرح اب بھی مظلوم ہیں، ایک کے بعد ایک صورت حال گمبھیر ہوتی گئی لیکن کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد یہ صورت حال تشویشناک ہو چکی ہے۔ کیمیائی ہتھیار کا استعمال ممنوع ضرور ہے لیکن جس طرح مظلوم عوام کو ان اذیت ناک ہتھیاروں سے دق کیا جارہا ہے وہ سلامتی کونسل کے لیے چیلنج بن گیا ہے۔

بشارالاسد کا کہنا ہے کہ کیمیائی ہتھیار باغیوں نے استعمال کیے ہیں جب کہ اپنے اس بیان کی تصدیق کے لیے وہ اپنی فوجوں سے ان باغیوں کے گھروں سے ایسے مواد دستیاب کروا چکے ہیں۔ بقول ان کے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قصور وار اور ان کیمیائی ہتھیاروں کو فراہم کرنے والا ملک سعودی عرب ہے۔ بہرحال یہ سب کیا ہے؟ اس سے کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور کون اس تمام صورتحال کا اہم محرک ہے؟ یہ سب جاننا اب ایک عام انسان کے لیے بھی کچھ مشکل نہیں لیکن طاقت سب سے پہلے کامیاب ہوتی ہے، اس کے بعد جوش ابھرتا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں گمبھیر ہوتے حالات نے ایک بار پھر دنیا کی معاشی اور اقتصادی صورتحال کو چیلنج دے دیا ہے، خاص کر جب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد جو ہلاکت کاریاں ہوئیں جس سے امریکا اور اس کے حمایتی ممالک شام پر کارروائی کرنے کے بارے میں غور و فکر کر رہے ہیں بلکہ امریکا کے چار بحری بیڑے تو پہنچ بھی چکے ہیں، اس سے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے، گزشتہ منگل تک یہ قیمت تین گنا اضافے کے ساتھ دیکھی گئی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں انویسٹرز کے رجحانات بھی اسی تیزی کے ساتھ بدلتے دیکھے گئے ہیں۔

خطے کی بدلتی صورتحال نے ان کے لیے بددلی پیدا کر دی ہے، وہ اب اپنے لیے ان مقامات کو تلاش کر رہے ہیں جہاں ان کا سرمایہ محفوظ رہ سکے۔ اسی لیے بہت سے سرمایہ کاروں نے اپنے سرمایے کا رخ موڑ دیا ہے۔ اس تیزی سے بدلتے ماحول کی وجہ سے اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جنگ کی جانب پیش قدمی کی یہ صورتحال مشرق وسطیٰ کے ممالک کے لیے حوصلہ شکن ہے۔ بہت سے امریکی اور برطانوی انویسٹرز نے اس پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے متبادل راستے اختیار کر لیے ہیں۔

سیکسو (Saxo) بینک کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر اسٹین جیکب سن کے مطابق ایک ایسی دنیا میں جب آپ کو علم نہ ہو کہ آپ کو کیا کرنا ہے تو آپ سرکاری بانڈز خریدتے ہیں۔ مغربی ممالک کے انویسٹرز نے اپنے سرکاری خزانے میں اضافے کو اپنے لیے محفوظ راستہ قرار دیا، دوسری جانب سونے کی خریداری اور اس کی قیمتوں میں بھی اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ خطے کی سیاسی اور غیر محفوظ بھیڑ چال نے پہلی بار سونے کی قیمتوں کو بلند کر دیا جو جون کے مہینے سے چودہ سو امریکی ڈالر فی اونس کے حساب سے ریکارڈ کیا گیا ہے۔ قیمتوں کی اس اونچ نیچ سے دنیا میں معاشی اعتبار سے کیا تبدیلیاں آ سکتی ہیں اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل ہے، ایک بار پھر 9/11 کی صورتحال کی طرح ہاں اور ناں کے بیچ دنیا کی معیشت الجھ کر رہ گئی ہے۔

پاکستان میں بھی اس حادثے کے بعد روپے کی قیمت میں تیزی ہوئی تھی۔ خاص کر پراپرٹی کے لین دین میں یہ صورتحال تشویشناک حد تک عروج پر پہنچ گئی تھی کیونکہ مشرق وسطیٰ اور مغرب کے ممالک میں مقیم پاکستانی جب پاکستان پلٹ رہے تھے جس سے مٹی کو بھی سونے کے بھاؤ بیچا گیا، گو قیمتوں کی یہ بلندی اب بھی برقرار ہے، گزشتہ دس گیارہ برسوں میں اس میں کوئی خاص کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے لیکن ایک بار پھر امریکا کے شام پر ممکنہ حملے کی افواہوں نے اس صورتحال کو پھر سے گرم کر دیا ہے۔

مغربی ممالک میں تیل کی قیمتوں کے بارے میں کیا رائے ہے ان کے خیال میں ’’آرمی کی مداخلت کی دھمکی کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے لیکن فوری طور پرہم اتنا جانتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا‘‘۔ لندن کی مارکیٹ اسٹریٹی جسٹ (Strategist) اسحاق صدیق کہتے ہیں شام سے لبنان، اسرائیل، ترکی، عراق، اردن کی سرحدیں ملتی ہیں اور جنگ کی حالت میں ان تمام ممالک پر اثر پڑ سکتا ہے، صرف یہی نہیں سعودی عرب جو بارہ ملین بیرلز خام تیل یومیہ فراہم کرتا ہے متاثر ہو سکتا ہے، اس کے بعد ایران اور عراق تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک ہیں، یہ درست ہے کہ شام کا نمبر تیل پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست میں کم درجے پر ہے لیکن سیاسی ابتری نے پورے خطے میں رنگ جما دیا ہے۔

شام کے پڑوسی ملک ترکی میں بھی کچھ یہی صورتحال ہے جہاں پہلی بار ترکی لیرا میں ریکارڈ تنزلی دیکھی گئی ہے کیونکہ ترکی میں بھی سیاسی ابتری پھیل چکی ہے، اس غیر متوازن صورتحال نے مشرق وسطیٰ کے بہت سے ممالک میں انڈیکس کو کئی درجے گرا دیا ہے۔ اسرائیل میں یہ کمی دو فیصد، مین اسٹاک انڈیکس گزشتہ منگل کو ریکارڈ کی گئی، جب کہ دبئی میں یہ انڈیکس 7 فی صد تک گر گیا، اسی طرح بحرین، کویت، ابوظہبی میں بھی تنزلی کا رجحان دیکھا گیا۔

امریکا کی شام پر ممکنہ حملے کی خبریں اور روس کی سعودی عرب پر اس ممکنہ حملے کی صورت میں حملہ پوری دنیا کو تیسری جنگ عظیم کی جانب گھسیٹ رہا ہے۔ غربت، مہنگائی، بدعنوانی، مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں مسلم ممالک اہل ایمان والوں کے لیے ایک سوال چھوڑ رہے ہیں۔ ہم آخر کون سی کشتی کے سوار ہیں ، روس اور امریکا کے بیچ انا کی دیوار، مذہبی تفرقے کی جنگ یا ایمان اور کفر کے بیچ سازشوں کی جنگ میں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔