الطاف حسین نے درجنوں کامیاب فلمیں بنائیں

کلچرل رپورٹر  بدھ 4 ستمبر 2013
بطور ڈائریکٹر آخری فلم ’’خاموش رہو ‘‘بنائی، ’’سالا صاحب‘‘ کامیاب فلموں میں شامل ہے ۔ فوٹو : فائل

بطور ڈائریکٹر آخری فلم ’’خاموش رہو ‘‘بنائی، ’’سالا صاحب‘‘ کامیاب فلموں میں شامل ہے ۔ فوٹو : فائل

لاہور:  الطاف حسین کا شمار پاکستان فلم انڈسٹری کے کامیاب ہدایتکاروںمیں ہوتا ہے ۔

انھوں نے فلمی کیرئیر کا آغاز 1969ء ’’پنچھی تے پردیسی‘‘ سے کیا۔مگریہ فلم کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی بارہ سال بعد 1981ء میں انھوں نے ’’اتھرا پتر‘‘ بنائی جو کامیاب ثابت ہوئی اس میں سلطان راہی ،آسیہ، بازغہ، اجمل ، ساون اورمصطفی قریشی شامل تھے۔ اسی سال ان کی اور فلم ’’سالا صاحب ‘‘ باکس آفس پر سپرہٹ فلم ثابت ہوئی ۔ ملکہ ترنم نورجہاں کی سحر انگیز آواز میں انجمن پر فلمائے گئے گیتوں نے بے حد مقبولیت حاصل کی اس فلم میں سلطان راہی نے منفرد اور مثبت رول بڑی عمدگی سے ادا کیا تھا ، رومانوی ہیرو علی اعجاز تھے ۔

1983ء میں الطاف حسین کے لیے مبارک ترین ثابت ہوا ان کی تین فلمیں ’’ صاحب جی‘‘ ،’’قدرت‘‘ ، ’’لاوارث‘‘ کامیابی سے ہمکنار ہوئیں ۔ ’’سالا صاحب‘‘ کی طرح ان تینوں فلموں میں انجمن ہیروئن اور علی اعجاز ہیرو تھے ۔ اسی سال ان کی ایک اور فلم ’’رستم تے خان‘‘ جس میں سلطان راہی اور یوسف خان نے مرکزی کردار نبھائے تھے کامیاب رہی ۔1984ء لگ بھگ ان کی دس فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے تین فلمیں ’’چوڑیاں‘‘ ، ’’ نکاح‘‘ ، اور ’’مہندی‘‘ کامیاب ہوئیں۔ 1985ء میں ان کی فلم’’دھی رانی‘‘ بھی ایک عمدہ اور کامیاب فلم ثابت ہوئی جس میں اداکارہ انجمن ، یوسف خان، علی اعجاز، ممتازاور میوزک ڈائریکٹر وجاہت عطرے ہی کی تھی ۔1988ء میں ان کی فلم ’’نوری‘‘ کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔

جس کے نمایاں فنکاروںمیں سلطان راہی ، انجمن ، اظہار قاضی ، افضال احمد اور الیاس کشمیری شامل تھے۔ 1989ء میں ’’بارش‘‘ نے اوسط درجے کا بزنس کیا۔ 1990ء میں ان کی ’’نگینہ‘‘ کامیاب رہی ۔ 1991 ء میں ان کی ایک اور فلم ’’حسن کا چور‘‘ بھی خاصی کامیاب رہی۔ 1994ء میں ان کی ایک فلم’’رانی بیٹی راج کریگی‘‘ ایک عمدہ اورمعیاری فلم تھی جس میں شبنم اور سلطان راہی نے اولڈ کریکٹرکیے تھے ۔ اسی سال کی ایک اور فلم ’’لاٹ صاحب‘‘ بھی ٹھیک رہی ۔ 1997ء میں ان کی ایک فلم ’’مرد جینے نہیں دیتے ‘‘ بھی ایک اچھی کوشش تھی جس میں نیلی اورمیرا کے علاوہ ریمبو، اظہار قاضی اور ہمایوں قریشی تھے۔ ان کے علاوہ ’’دونین سوالی‘‘ ، ’’قادرا‘‘ ، ’’ دیس میرا جیداراں دا‘‘ ، ’’کون دلاں دیاں جانے‘‘ ، ’’ دل نال سجن دے ‘‘ ، ’’ انسان اک تماشہ‘‘ ، ’’ قاسو‘‘ ، ’’ چار خون دے پیاسے‘‘ ،

’’ ڈاکو تے انسان‘‘ ،’’ جھلی ‘‘ ، ’’دس نمبری‘‘، ’’ جوڑ برابر دا‘‘ ، ’’ جوان تے میدان‘‘ ، ’’آوارہ‘‘ ، ’’ چیتا چالباز‘‘ ،’’ یاری دوستی ‘‘ ، ’’قسم خون دی‘‘ ، ’’ ریمانڈ‘‘ ،’’ قاتل کے فرشتہ‘‘ ، ’’ دیوانہ تے مستانہ ‘‘ ، ’’ عشق سمندر‘‘ ، ’’ چور چوکیدار‘‘ ، ’’ خانو دادا‘‘ ، ’’ باز شہباز‘‘ ،’’ رشتہ کاغذ دا‘‘ ،’’ لاکھا ڈاکو‘‘ ، ’’ ماں پتر‘‘ ، ’’ آشیانہ‘‘ ، ’’ چن بہادر‘‘ ، ’’ اندھا قانون‘‘ ،’’ نشان‘‘، ’’ پتر شیراں دے ‘‘ ، ’’جابرخان‘‘ ،’’ جانباز‘‘ ،’’ مندری‘‘ ، ’’ سکندرا‘‘ ،’’ مرد‘‘ ، ’’ نادرہ ‘‘ ، ’’صاحبہ‘‘ ،’’ جھوٹے رئیس‘‘، ’’ پتر منور ظریف دا‘‘ ،’’ کنوارہ باپ‘‘ ،’’ عادل‘‘ ،’’نصیب‘‘ ،’’ چھپے رستم ‘‘ ، ’’ کھوٹے سکے‘‘ ،’’ چوہدری بادشاہ‘‘ ، ’’ ہم نہیں یا تم نہیں‘‘ ،’’ ہم ہیں آپ کے غلام‘‘ ، ’’ آنچل ‘‘ ،’’ شرافت‘‘ ، ’’ محبت ہے کیا چیز‘‘ ، ’’دولہا لے کر جاؤنگی‘‘ ،’’اک پاگل سی لڑکی ‘‘ اور ان کی بطور ڈائریکٹرآخری فلم’’خاموش رہو ‘‘ ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔