مذہبی جماعتیں اور زرعی اصلاحات

ظہیر اختر بیدری  پير 17 جون 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

مذہبی جماعتیں ہماری سیاست کا ایک اہم اور فعال حصہ ہیں ، ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ جماعتیں فعال رہتی ہیں اور ان کے کارکن نظریاتی ہونے کی وجہ اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ان جماعتوں کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ یہ ڈسپلن کا سخت خیال رکھتی ہیں۔ان جماعتوں کا تعلق مڈل اور ورکنگ کلاس سے ہے جس کی وجہ یہ جماعتیں اشرافیائی بدعنوانیوں سے پاک رہتی ہیں۔ان ساری خوبیوں کے باوجود المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ جماعتیں کبھی انتخابات جیت کر اقتدار میں نہ آسکیں۔ یہ ایک اتنی بڑی کمزوری ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں مذہبی جماعتیں عوامی حمایت سے کیوں محروم ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری مذہبی قیادت نے اس مسئلے کا تحقیقاتی جائزہ لیا ہے یا نہیں لیکن یہ مسئلہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور اہم مسئلہ ہے اس لیے ہماری مذہبی قیادت کو مختلف حوالوں سے تحقیقات کرنا چاہیے۔

مذہبی جماعتیں بنیادی طور پر مذہبی خدمات سے دلچسپی رکھتی ہیں لیکن ساری جماعتیں انتخابی سیاست میں بھی پوری طرح شامل رہتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ملکی سیاست سے ان کا براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ہمارے قومی مسائل بہت ہیں لیکن ہمارے قومی مسائل کا سب سے کرانک یعنی پرانا مسئلہ جاگیردارانہ نظام ہے۔ عام طور پر جاگیردار طبقہ یہ کہہ کرکہ ملک میں دو تین بار زرعی اصلاحات ہوچکی ہیں لہٰذا اب ملک میں جاگیردارانہ نظام کہاں رہا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں زرعی اصلاحات ہوتی رہی ہیں لیکن بالادست جاگیردار طبقے نے ہر بار زرعی اصلاحات کو ادھورا ہی چھوڑا۔ آج بھی سندھ اور جنوبی پنجاب میں بڑی بڑی جاگیردارایاں موجود ہیں، ہماری سیاست کا محور آج بھی جاگیردار طبقہ ہے۔

کیا مذہبی جماعتیں اس مسئلے کی قومی اہمیت سے وابستہ ہیں؟ کیا اسلام میں جاگیرداری جائز ہے؟ اگر ان سوالوں کے جواب نفی میں آتے ہیں تو مذہبی جماعتوں کی پہلی ترجیح زرعی اصلاحات ہونی چاہئیں اگر مذہبی جماعتیں زرعی اصلاحات کے مطالبے کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ سیاسی میدان میں آتی ہیں تو بلاشبہ وہ عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں خاص طور پر دیہی علاقوں میں انھیں بہت پذیرائی حاصل ہوسکتی ہے۔

جاگیرداری نظام دنیا میں ختم ہوئے سو سال سے زیادہ عرصہ ہو رہا ہے۔ یہ نظام ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں ترقی کا پہیہ اسلیے نہیں چل سکا کہ فیوڈل نظام صنعتی ترقی کی راہ میں روڑا بنا ہوا ہے ، ہمارے زرعی نظام میں آج تک پٹواری بنیادی پتھر بنا ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زرعی نظام کو جدید خطوط پرکیوں آراستہ نہیں کیا گیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پٹواری وڈیروں اور جاگیرداروں کا غلام بنا رہتا ہے اور زرعی کھاتوں میں وڈیروں جاگیرداروں کی مرضی کے مطابق عمل کرتا ہے اگر زرعی نظام کو جدید خطوط پر آراستہ کیا جاتا تو پٹواریوں اور وڈیروں کا گٹھ جوڑ ٹوٹ جاتا ہے جس سے وڈیرہ شاہی کو نقصان ہوتا ہے۔

سندھ میں اور جنوبی پنجاب میں ابھی تک جاگیردارانہ نظام موجود بھی ہے اور مستحکم بھی ہے ۔ اس کا اندازہ آپ ہماری سیاست میں فیوڈلزکے کردار سے لگا سکتے ہیں۔ جاگیردارانہ نظام کا جاگیرداروں کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کسان اور ہاری جاگیرداروں کا سب سے بڑا ووٹ بینک بنے ہوئے ہیں ۔کسانوں اور ہاریوں کے ذہنوں میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے کہ ان کا کام صرف وڈیروں کو ووٹ دینا ہے اور یہ کام ہاری اور کسان بڑی ذمے داری سے ادا کر رہے ہیں اور جب تک یہ نظام باقی ہے صورتحال میں تبدیلی کے کوئی امکانات نہیں۔

اسلام میں نہ جاگیرداری رہی ہے نہ سرمایہ داری رہی ہے ہمارے پیغمبر نہ جاگیردار تھے نہ سرمایہ دار۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے مذہب میں نہ جاگیرداری رہی ہے نہ سرمایہ داری تو ہماری مذہبی جماعتوں نے اس کے خلاف آواز کیوں بلند نہیں کی؟ قسمت اور تقدیر کا بے جا استعمال آج تک کیا جا رہا ہے اگر کسی فیکٹری سے بھاری تعداد میں سرمایہ دار اپنے مفاد کی خاطر چھانٹی کردیتا ہے یعنی مزدوروں کو بے روزگار کردیتا ہے تو اسے خدا کی مرضی اور قسمت کا لکھا کہہ کر سہہ لیا جاتا ہے جب کہ صنعت کار اپنے مفاد کی خاطر یہ اقدام کرتا ہے۔ کسانوں اور ہاریوں کی آبادی میں جو اسکول ہیں ان میں وڈیرے اپنے جانور باندھتے ہیں جن کا مقصد ہاریوں اور کسانوں کے بچوں کو تعلیم سے محروم کرنا ہے۔

ہماری مذہبی قیادت ان چال بازیوں سے واقف ہے لیکن حیرت ہے کہ عوام کے ان مسائل کو حل کرکے مذہبی قیادت عوام کی حمایت حاصل کرنے سے کیوں گریزاں رہتی ہے۔ اس حقیقت کی ہم نے بارہا نشان دہی کی ہے کہ 71 سالوں کے دوران مذہبی جماعتیں ایک بار بھی انتخابات جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ کیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ مذہبی جماعتیں اہم قومی مسائل کو اہمیت نہیں دیتیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں آج بھی جاگیردارانہ نظام موجود ہے۔ مذہبی جماعتیں اگر زرعی اصلاحات کا مطالبہ کرتی ہیں تو انھیں عوام کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔