وزیر اعظم کو تضاد سے باہر نکلنا ہوگا

سلمان عابد  پير 17 جون 2019
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

وزیر اعظم عمران خان کی تقریر پر دو ردعمل سامنے آئے۔ اول اشرافیہ اور سیاسی مخالفین نے کڑی تنقید کی ہے ۔ ان کے بقول وزیر اعظم کی تقریر ان کے منصب کے برعکس تھی، یہ تقریر پہلے سے جاری محاذ آرائی میں اور زیادہ اضافہ کرے گی۔بالخصوص ایک ایسے موقع پر جب ملک معاشی بدحالی کا شکار ہو اور ایک قومی اتفاق رائے پر مبنی سیاست درکار ہو۔ دوئم تحریک انصاف اور ایک عام آدمی کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو عمران خان کی تقریر نے ان لوگوں کو متاثر کیا ہے ۔ کیونکہ ان کی سیاست کا بنیادی نکتہ احتساب ہے او راسی نکتہ کی بنیاد پر انھوں نے اپنی کمٹمنٹ کا اظہار کیا ہے ۔

وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کی ٹائمنگ بھی اہم ہے او رایک شاندار سیاسی حکمت عملی کا مظہر بھی ہے کیونکہ بجٹ میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس سے وہ عوام کو مطمئن کرسکتے تھے۔ وزیر اعظم کو احساس تھاکہ لوگوں میں مایوسی ہے او ربجٹ اور زیادہ مایوسی پیدا کریگا ۔ ایسے میں وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی شارٹ نے بجٹ کی سیاست کو پس پشت اور احتساب کی سیاست کو بالادست کردیا ہے ۔ملک میں ایک بڑا طبقہ واقعی ایک کڑا احتساب چاہتا ہے ۔لیکن لوگ صرف حکومت مخالفین کا احتساب نہیں چاہتے بلکہ حکومت میں شامل سمیت دیگر فریقین کا بھی کڑا احتساب چاہتے ہیں ۔

عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وزیر اعظم نے جو تقریر کی ہے وہ ان کے دل کی آواز ہے اور وہ احتساب پر کوئی سمجھوتہ نہیں چاہتے او ر احتساب عمران خان ہی کرسکتے ہیں ۔ان کی مقبولیت کی وجہ احتساب کا نعرہ ہے ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ اس احتساب کے تناظر میں دو پہلو موجود ہیں ۔ اول احتساب کا سست عمل او راس میں موجود رکاوٹوں پر یہ رائے موجود ہے کہ کیا ہمارے یہ ادارے واقعی بے لاگ احتساب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔بہت سے لوگ احتساب کے عمل سے خوش بھی نہیں ہیں ۔ دوئم لوگ یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا احتساب محض حکومت کے مخالفین کا ہوگا یا خود حکومت میں شامل ان تمام کرپٹ افراد کو بھی اسی احتساب کے دائرہ کار میں لایا جائے گا ۔کیونکہ حکومت مخالف جماعتوں کا یہ نکتہ نظر غالب ہے کہ اس وقت محض حزب اختلاف نشانے پر ہے اور حکومت کے حامیوں کو رعایتیں دی جارہی ہیں ۔

وزیر اعظم جس شدت سے ملک میں تبدیلی کی باتیں کرتے ہیں وہ ماضی میں بہت کم سننے اور دیکھنے کو ملتی ہے ۔لیکن بولنے اور عمل کرنے میں فرق ہوتا ہے ۔ لوگ واقعی عمران خان سے منشور پر عملدرآمد دیکھنا چاہتے ہیں مگر یہ کام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب خود وزیر اعظم بھی اپنی حکمرانی کے نظام میں موجود داخلی تضادات سے باہر نکلیں ۔کیونکہ یہ رائے بھی حکومت او رعمران خان کے بارے میں قائم ہورہی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں بہت کچھ بدلنے کی بات بھی کرتے ہیں تو دوسرے ہی لمحہ ان پر سیاسی سمجھوتوں کی سیاست بھی غالب ہوجاتی ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان کے ارد گرد ایسا سیاسی جم غفیر ہے جو روایتی اور پرانے طرز کی سیاست سے حکمرانی کے نظام کو چلانا چاہتے ہیں ۔یہ ہی وہ ٹکراو ہے جو عمران خان کی حکمرانی کے تناظر میں بہت سے لوگوں کو مایوس بھی کرتا ہے۔

اس امر میں میں کوئی شبہ نہیں کہ سیاست انقلاب او رخواہشات سے زیادہ حقائق پر آگے بڑھتی ہے ۔ ہماری سیاسی حقائق بہت کڑوے او رتلخ ہیں او راس میں نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے سیاسی سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں ۔ بالخصوص جب آپ کے پاس عددی اکثریت بھی نہ ہو اور آپ کو اتحادی جماعتوں کی مدد سے حکمرانی کرنی پڑتی ہو تو سمجھوتے بھی غالب نظر آتے ہیں ۔ایسے میں بہت زیادہ انقلابی اقدامات کی توقع کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود اگر قیادت کے سامنے اہداف واضح ہوں اور ان کی سیاسی کمٹمنٹ بھی موجود ہوتو حکمران طبقہ ان ہی برے حالات میں سے اچھے حالات بھی پیدا کرتا ہے اور ان اقدامات کو بھی یقینی بناتا ہے جو اس کے انتخابی منشور یا سیاست کے اہم نکات ہوتے ہیں ۔

وزیر اعظم عمران خان کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک فائٹر ہیں ۔ ان کو اقتدار بھی ایسی ہی صورتحال میں ملا ہے جہاں بہت سی چیزیں بگاڑ کا شکار ہیں ۔ ان حالات کو درست کرنا معمولی کام نہیں بلکہ یہ سب کام حکمرانی کے نظام میں غیر معمولی اقدامات چاہتا ہے ۔ لیکن مسئلہ ہمارے اداروں کی حالت کا بھی ہے ۔ اداروں کو جس بے دردی سے سیاسی مفادات کے تحت بے یارو مددگار کیا گیا ہے وہ خود اپنے اندر ایک بڑی تبدیلی چاہتا ہے ۔روایتی نظام کے حامی اور تبدیلی کے حامیوں کے درمیان جو جنگ ہے اسے لڑنے کے لیے محض جذبات کی نہیں بلکہ ایک درست اور شفاف سیاسی و انتظامی حکمت عملی بھی درکار ہے ۔

وزیر اعظم عمران خان کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے چناؤ کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ سیاسی ، انتظامی ، معاشی اور میڈیا کے محاذ پر جو بھی لوگ ان پر انھیں ازسر نو جائزہ لینا چاہیے ۔ پشاور میٹرو بس کے منصوبے میں ہونے والی کرپشن کے معاملے میں ان کی حکومت سمجھوتے کی شکار ہے ۔ ان کے وزرائے اعلی ، وزیر ، مشیر اور دیگر اہم عہدوں پر موجود لوگ پروٹوکول اور شاہانہ اخراجات اور گورنر ہاوسز ، وزرائے اعلی او راہم عہدوں پر موجود افراد کی سرکاری رہائش گاہوں پر بھی وہ کچھ نہیں ہورہا جو وہ کہا کرتے تھے ۔

پولیس ریفارمزاو رمقامی حکومتوں کے نظام کے بارے میں وزیر اعظم بہت پرجوش ہوتے ہیں ۔لیکن عملاً پولیس اصلاحات اور مقامی نظام حکومت کے بارے میں ان کی اپنی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا رویہ مایوس کن ہے ۔عدالتی اصلاحات پر بھی ہمیں کچھ دیکھنے کو نہیں مل رہا اور اگر واقعی ہم نے اصلاحات کی مدد سے آگے بڑھنا ہے تو اس کی جھلک ہمیں نظر آنی چاہیے ۔عمران خان کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ وہ جو تبدیلی لانا چاہتے ہیں وہ روایتی فکر سے ممکن نہیں او ر اس کے لیے کڑوی گولیاں ہضم کرنی ہوگی ۔ان کے سامنے ایک بڑا چیلنج حزب اختلاف بھی ہے جو محض عمران خان دشمنی میں ایک ہے اور یہ لوگ حکومت کو کسی بھی صورت میں آسانی سے کام نہیں کرنے دیں گے۔ اسی طرح ان کا ایک چیلنج بیوروکریسی سمیت وہ روایتی اہل دانش ہیں جو تبدیلی کے عمل میں بڑی رکاوٹ ہیں ، ان سے مقابلہ کرنا بھی ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے ۔

لوگوں کی عمران خان سے بہت سی توقعات ہیں، لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت ماضی کی حکومتوں سے مختلف نظر آنی چاہیے ۔وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر موجود ان تمام لوگوں کو جن پر نیب میں مقدمات ہیں ، اہم عہدے دینے کے بجائے اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ پہلے خود کو قانون سے بے گناہ ثابت کریں پھر وہ ان اہم عہدوں کے مستحق ہوں گے۔

عمران خان کو چاربنیادی باتوں پر فوری توجہ دینی ہوگی ۔ اول معاشی نظام کو مستحکم او رمربوط کرنا ۔ دوئم بے لاگ او رکڑا احتساب ، سوئم حکمرانی کے نظام کو موثر بنانا ، بااختیار مقامی نظام کویقینی بنانااور چہارم ادارہ جاتی اصلاحات ۔اس کے لیے وزیر اعظم او ران کی حکومت کو خود بھی جوابدہ ہونا چاہیے او ردوسروں کو جوابدہ بنائے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔