صحافیوں کے تحفظ میں حکومتی دعوے اور حقائق

کامران سرور  پير 17 جون 2019
موجودہ صورتحال میں صحافی کو اپنے تحفظ کیلیے خود اقدامات اٹھانا ہوں گے، سینئر صحافی طلعت حسین

موجودہ صورتحال میں صحافی کو اپنے تحفظ کیلیے خود اقدامات اٹھانا ہوں گے، سینئر صحافی طلعت حسین

کرچی: جیسے صحافت کو ملک کا اہم ستون تصور کیا جاتا ہے ویسے ہی دنیا بھر کو اپنے ملک کے حالات سے باخبر رکھنے والے صحافی کی اہمیت بھی کسی سے کم نہیں ہوتی اور اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو وہ ان ممالک کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں جہاں صحافیوں پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ 

میری یہ بات سعودی عرب کے صحافی جمال خاشقجی قتل کیس سے ثابت ہوتی ہے۔ ترکی میں سعودی سفارت خانے میں قتل ہونے والے سعودی عرب کے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی کڑیاں سعودی حکومت سے ملنے لگیں تو امریکا سمیت یورپی ممالک نے سعودی عرب میں ہونے والی سرمایہ کاری کے حوالے سے اتنہائی اہم کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے صحافت اور صحافیوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا پیغام دیا۔

اب اگر ہم بات کریں وطن عزیز کی تو پاکستان  کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحافت مکمل طور پر آزاد نہیں اور یہاں آزادی اظہار کے جرم میں درجنوں صحافی اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں۔ پی پی ایف کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال عالمی درجہ بندی میں پاکستان آزادی صحافت کی فہرست میں 139ویں نمبر پر تھا جو رواں سال 142ویں نمبر پر آگیا ہے۔

قیام پاکستان سے لیکر اب تک صحافیوں پر مظالم کی درجنوں مثالیں موجود ہیں، صحافیوں پر ہر دور میں حملے ہوئے چاہے وہ آمریت کا دور ہو یا جمہوریت، ایوب خان سے لے کر تحریک انصاف کی حالیہ حکومت تک صحافیوں پر تشدد سمیت گمشدگی کے واقعات رونما ہوئے جب کہ ماضی میں جنگ، جیو، ایکسپریس، اے آر وائے اور آج نیوز سمیت متعدد میڈیا ہاؤسز پر حملے کیے گئے۔ پی پی ایف رپورٹ کے مطابق گزشتہ 18 برس میں پاکستان میں صحافتی اداروں پر کم سے کم 32 بار حملے کیے گئے، اس کے علاوہ صحافیوں کے گھروں پر بھی حملوں کے تقریباً 11 واقعات رونما ہوئے۔

پاکستان میں نامور صحافی حامد میر اور اسد کھرل سمیت سینکڑوں صحافیوں پر جان لیوا حملے ہوئے جو جان بچانے میں کامیاب رہے تاہم یہی پر ہمیں ولی خان بابر اور ڈینئل پرل جیسے صحافیوں کی مثالیں بھی ملتی ہیں جو فرائض کی انجام دہی کے دوران جان کی بازی بھی ہارے۔  صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) کی رپورٹ کے مطابق 2002 سے لے کر اپریل 2019 تک صحافیوں کے قتل، تشدد، اغوا سمیت دیگر 699 واقعات رونما ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک بھر میں 171 صحافیوں کو شدید تشدد اور 77 صحافیوں پر معمولی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس دوران 72 صحافیوں کو قتل کیا گیا جن میں 48 صحافی معلومات کی فراہمی اور دیگر 24 صحافیوں کو مختلف وجوہات کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق پاکستان ان 14 ممالک کی فہرست میں 9ویں نمبر پر ہے جہاں صحافیوں کے قاتل نہیں ملتے، اگر مل بھی جائے تو وہ بچ نکلتے ہیں۔ پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں اب تک 5 صحافیوں کے قاتلوں عدالتوں کی جانب سے مجرم قرار دیا جاچکا ہے جن میں 2002 میں وال اسٹریٹ جنرل کے رپورٹر ڈینئل پرل، جیو کے رپورٹر ولی خان بابر، خبرون کے رپورٹر نثار احمد سولنگی، روئل ٹی وی کے رپورٹر عبدالرزاق جاورا اور ڈیلی کرک ٹائمز کے رپورٹر ایوب خان خٹک شامل ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کے صحافت ایک مشکل ترین شعبہ ہے لیکن اس کے باوجود خیبر سے لیکر کراچی تک کے صحافی مشکل حالات میں بھی صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے دکھائی دیتے ہیں تاہم طاقتور حلقوں کی جانب سے دھونس دھمکیاں صحافیوں کے پیشہ وارانہ فرائض کے ساتھ نجی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں جو آزادی اظہار رائے کی راہ میں رکاؤٹ کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن لمحہ فکریہ ہے کہ صحافی کی جان ومال کے تحفظ کے لیے میڈٰیا ہاؤسز، صحافتی تنظیموں سمیت حکومت نے بھی اب تک کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔ پی پی ایف کی رپورٹ پر نظر ڈالی جائے تو گزشتہ 18 سال کے دوران 37 صحافیوں پر مقدمات درج کیے گئے اور 26 صحافیوں کو حراست میں لینے سمیت 18 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا جب کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی بھی درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے۔

سینئر اینکرپرسن اور تجزیہ کار طلعت حسین سے جب میں نے صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے حکومتی ذمہ داریوں کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ریاست صحافت کا گلہ دبنے پر آجائے تو ملک میں ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں جو اس وقت موجود ہیں، جہاں صحافیوں کو کھل کر بات کرنے کا حق نہیں دیا جاتا اور ریاست کی سرپرستی میں جرائم ہوں گے تو پھر ان کا تدارک ممکن نہیں ہے، جب ریاست تہیہ کرلے کہ صحافیوں کی آواز کو دبانا ہے تو پھر ایک صحافی کیا کرسکتا ہے، ایسی صورتحال میں صحافی کو اپنے تحفظ کے لیے خود ہی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر جی ایم جمالی نے مجھے بتایا کہ حال ہی میں ہم نے سینئر صحافی حامد میر سمیت دیگر صحافیوں کے ساتھ ملکر حکومتی وزرا سابق وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری اور وزیربرائے انسانی حقوق شیری مزاری سے ملاقات کی جس میں ہم نے موقف اختیار کیا کہ صحافیوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، جس پر انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ بہت جلد اس حوالے سے بل قومی اسمبلی میں پیش کریں گی جس میں صحافیوں کے تحفظ، لائف انشورنس، ہیلتھ انشورنس کے حوالے سے تمام نکات شامل ہیں اور ہم نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس بل میں ریاستی اداروں کو بھی پابند کیا جائے تو کہ وہ صحافیوں کو ہراساں نہ کرے۔

موجودہ حکومت کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے بل اب تک قومی اسمبلی میں پیش نہیں کیا جاسکا البتہ ایکسپریس نیوز نے اس بل کی کاپی حاصل کرلی جس میں صحافیوں کے تحفظ، آزادی اظہار رائے، صحافیوں کی تربیت اور کسی بھی خطرے سے قبل اس کی تحقیق کے حوالے سے انتہائی اہم نکات شامل کیے گئے ہیں، بنیادی طور پر صحافیوں کے تحفظ سے متعلق اس بل کو 4 مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا۔

1۔ پروٹیکشن آف جرنلسٹ: اس میں پاکستان بھر کے صحافیوں کے تحفظ کے بات کی گئی ہے کہ ملک بھر کے صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

2۔ رائٹ آف جرنلسٹ (رپورٹرز اینڈ میڈیا پروفشنلز) : اس نقطے میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت ہر شہری کی طرح صحافی کے حقوق اور آزادی کو بھی یقینی بنایا جائے ۔

3۔ ٹریننگ اینڈ انشورنس : ’جرنلسٹ ویلفیئر اسکیم‘ کے تحت صحافیوں کو مناسب پیشہ وارانہ تربیت، انشورنس اور بیمہ کی سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی اور اس کی ذمہ داری میڈیا اداروں کے مالکان پر عائد ہوگی۔

4۔ انویسٹی گیشن اینڈ ریڈریس : اس میں کہا گیا کہ صحافیوں کو ملنے والی دھمکیوں اور ان کو درپیش خطرات کے حوالے سے باقاعدہ تحقیق کرکے اس مسئلے کو حل کیا جائے گا۔

جی ایم جمالی نے مجھے مزید بتایا کہ صحافیوں کے خلاف ہونے والے اقدامات صرف پاکستان تک محدود نہیں، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی صحافیوں کے ساتھ ریاستی دہشتگردی ہورہی ہے جس کے لیے ہم نے یونائیٹڈ نیشن (یو این) میں انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنسلٹ میں ایک قرداد جمع کروائی ہے جس میں ہم نے کہا کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے قوانین کو یکساں کیے جائیں اور تمام ممالک کو پابند کیا جائے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں۔

کراچی کے نامور صحافی و کالم نگار احسان کوہاٹی جو ’سیلانی‘ کے نام سے پرنٹ میڈیا میں جانے جاتے ہیں، 28 نومبر 2011 (یکم محرم الحرام) کو مزار قائد کے سامنے نمائش چورنگی پر مذہبی جماعتوں کے دو رہنماؤں کی ہلاکت کے بعد پھوٹ پڑنے والے ہنگاموں کی کوریج کے دوران 4 گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو گئے تھے جو بعد ازاں 3 ماہ تک بستر پر رہے اس دوران انہیں کیا مشکلات پیش آئیں اور صوبائی حکومت نے کس حد تک ان کی مدد کی یہ ہم انہیں سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

خیال رہے اس وقت کی صوبائی وزیراطلاعات شازیہ مری نے احسان کوہاٹی کی مقامی اسپتال میں جاکر عیادت کی تھی اور وزارت اطلاعات کی جانب سے  ان کے لیے ایک لاکھ روپے مدد کا اعلان کیا تھا جب کہ سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بھی احسان کوہاٹی کے لیے ایک لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا تھا۔

احسان کوہاٹی نے مجھے سب سے پہلے مجھے اس وقت پیش آنے والے منظر کے بارے میں بتایا، ان کا کہنا تھا کہ میں اس وقت وقت نیوز میں بطور سینئر رپورٹر فرائض انجام دے رہا تھا، یکم محرم بروز اتوار کو مجھے اطلاع ملتی ہے کہ نمائش چورنگی پر گولیاں چلی ہیں تو میں فوراً کوریج کے لیے وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ ایک مذہبی جماعت کے 2 کارکنان کو فائرنگ کرکے مارا گیا ہے جس کے بعد وہاں جلاو گھیراو شروع ہوتا ہے اور گاڑیوں کو آگ لگائی جاتی ہے ، اس دوران ایک گروپ کی جانب ختم نبوت کی مسجد میں گھسنے کی کوشش کی، جس پر رینجرز نے انہیں روکا تو ان کی رینجرز اہلکاروں کے ساتھ جھڑپ ہوگئی اور اس دوران گولیاں چل گئیں جس میں مجھے بھی 4 گولیاں لگیں۔ میں نے ان سے سوال کیا کیا آپ کو ٹارگٹ کیا گیا یا غلطی سے گولیاں لگیں، جس پر احسان کوہاٹی نے مجھے بتایا کہ میں میرا گمان ہے کہ مجھے ٹارگٹ کیا گیا کیوں کہ اگر یہ اتفاق ہوتا تو مجھے ایک گولی لگتی اور پسٹل سے 4 گولیاں لگنے کا مطلب 4 بار ہی ٹرگر دبایا گیا تھا۔ جب میں خاموشی سے سب کچھ ریکارڈ  کرکے اپنے چینل کو بیپر دے رہا تھا، گولیاں لگنے سے پہلے ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا آپ جو اپنے چینل کو رپورٹ کررہے ہیں، اس پر ہمارے ساتھی ناراض ہیں، وہ مذہبی تنطیم کا عہدیدار تھا، اور میں نے اسے جواب دیا کہ بھائی میں تو نیوٹرل ہوکر وہی رپورٹ کررہا، میں نے کسی پر الزام نہیں لگایا، جو دیکھا وہی رپورٹ کیا۔ احسان کوہاٹی نے مجھے بتایا کہ میڈیا کے دیگر عہدیدار پیچھے کھڑے تھے لیکن میں رپورٹنگ کرتے کرتے بہت آگے چلا گیا تھا اس لیے جب گولیاں لگیں تو پیچھے خود چل کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا جس کے بعد وہاں موجود پولیس افسر نے حکم دیا کہ اسے فوراً اسپتال پہنچاو جس پر مجھے پولیس موبائل میں ہی اسپتال لے جایا گیا کیوں کہ کشیدگی کی وجہ سے ایمبولنس کا آنا بہت مشکل تھا۔

میں نے احسان کوہاٹی سے سوال کیا کہ اس دوران کن کن حضرات نے ان کی مدد کی اور جس طرح سندھ حکومت کی جانب سے اس وقت اعلانات کیے گئے تھے جو آن ریکارڈ ہیں، اس طرح مدد بھی کی گئی یا نہیں، تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ہرگز نہیں صوبائی وزرا نے دعوے اور وعدے تو بہت کیے اور اسپتال میں آکر میری عیادت بھی کی لیکن کوئی مالی مدد نہیں کی گئی وہ صرف اعلانات کی حد تک محدود تھے۔ جب میں ٹھیک ہوا تو وزارت اطلاعات پہنچ کر مطالبہ کیا کہ میری رقم اب تک نہیں ملی تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کی فائل تو کب کی بن چکی ہے، جس کے بعد میں نے متعدد بار چکر لگائے لیکن کبھی پیسے نہیں ملے، آخر کار تنگ آکر میں نے وہاں چکر لگانا ہی چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے بعد میں نیو ٹی وی سے وابستہ ہوگیا اور پارلیمانی رپورٹ ہونے کی وجہ سے اسمبلی سیشن میں روز وزرا سے ملاقاتیں ہوتی لیکن اس کے باوجود میں صوبائی حکومت کی اعلان کردہ رقم حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ بعد ازاں اس وقت کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن سے جب سامنا ہوا تو انہوں نے گول مول جواب دے کر ٹال دیا اور شازیہ مری نے بھی بے بسی کا اظہار کردیا۔ اسپتال کے بل کے حوالے سے ان سے جب میں نے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں تو اپنے خرچے پر ہی وہاں گیا لیکن پھر صحافتی تنظیموں کے نمائندوں اور دیگر صحافیوں نے نے بھرپور مدد کی اور ان کے پریشر کی ہی وجہ سے سندھ حکومت کی جانب سے اسپتال انتظامیہ کو ایک لیٹر جاری کیا گیا کہ ان کا بل صوبائی حکومت ادا کرے گی تاہم اس میں بھی جس کمرے میں مجھے رکھا گیا تھا، کچھ پیسوں کا فرق تھا جو بعد میں مجھے اپنی جیب سے ادا کرنا پڑا۔

سینئر صحافی اور کراچی یونین آف جرنلسٹ کے سابق عہدیدار جمال ناصر نے احسان کوہاٹی کیس میں ان کی بھرپور معاونت کی اور ان کے لیے بھاگ دوڑ بھی کی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے اسپتال بل کی ادائیگی میں بھی بہت سی مشکلات پیش آئیں اور اس کے لیے بہت بھاگ دوڑ دی، اور بغیر کسی مطالبے کے صوبائی حکومت نے اعلانات کیے لیکن اس کے باوجود ادائیگی نہیں ہوئی ، اس وقت کے صوبائی وزرا یا محکمہ اطلاعات میں جو لوگ موجود تھے ان سے میں نے خود ملکر بات کی اور میں نے شازیہ مری اور قائم علی شاہ سے بھی ملاقات کی اور انہوں نے آگے احکامات بھی جاری کیے لیکن اس کے باوجود کام نہ ہوسکا۔ انہوں نے بتایا کہ صرف یہی نہیں بلکہ میں نے ایک درجن سے زائد ساتھیوں کے کیسز کی پیروی کی اور سب میں تقریباً یکساں صورت حال دکھائی دی کہ صوبائی حکومت کی جانب سے فوری طور پر اور آسانی سے مالی مدد فراہم نہیں کی گئی جس کی وجہ ہمارا نظام ہے، ہمارا نظام بہت خراب ہے اور اس میں بہت سے پیچیدگیاں ہیں جس کی وجہ سے کسی کی بھی فوری مدد نہیں ہوسکتی، ماسوائے کوئی بڑی ایمرجنسی کی صورت میں فوری طور پر اگر چیف منسٹر نے کوئی ایکشن لے لیا تو ٹھیک ورنہ معاملات ایسے ہی لٹک جاتے ہیں۔

اس حوالے سے میں نے حکومتی موقف لینے کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے انسپیکشن ٹیم کے سربراہ سید وقار مہدی جو اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے میڈیا کورڈٰی نیٹر تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم نے قانونی طریقہ کار کے مطابق احسان کوہاٹی کے کیس کو آگے بھیج دیا تھا، اور اس کیس کو تمام متعلقہ محکموں کو بھیج دیا تھا لیکن چونکہ ہمارا نظام اتنا سست ہے کہ کسی بھی کام کی تکمیل کے لیے بہت سے مشکلات پیش آتی ہیں اور سالوں لگ جاتے ہیں۔

اس حوالے سے میں نے پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے ڈیٹا بیس میں موجود ایک کیس کے متاثرہ صحافی سے بات کی۔ نیو ٹی وی میں بطور رپورٹر ذمہ داری انجام دینے والے رجب علی کو 20 اگست 2016 کو لیاقت نیشنل اسپتال کے سیکیورٹی اسٹاف کی جانب سے اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب صحافی وہاں پر متوقع وی آئی پی موومنٹ کو کور کرنے کے لیے موجود تھے اور جب انہوں نے اسپتال کے اندر فوٹیج حاصل کرنے کی کوشش کی تو سیکیورٹی اسٹاف نے ان پر تشدد کیا۔ رپورٹر رجب علی سے میں نے واقعے سے متعلق پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ایم کیو ایم کے سابق رہنما رشید گوڈیل پر جب قاتلانہ حملا ہوا تو انہیں فوراً لیاقت نیشنل اسپتال کی ایمرجنسی میں منتقل کیا گیا، ایسے میں تمام میڈیا چینلز کے نمائندے ایمرجنسی میں گھس گئے جس کی وجہ سے وہاں افراتفری کا ماحول پیدا ہوا اور سیکیورٹی کی جانب سے ہمیں باہر جانے کا کہا گیا اور ہم اس پر رضامند بھی ہوگئے لیکن ایسے میں سیکیورٹی اسٹاف نے بدتیمیزی کی جس پر ان سے تلخ کلامی اور ہاتھا پائی ہوئی، اس دوران کچھ صحافی زخمی ہوئے۔ ان سے جب میں نے پوچھا کہ کسی حکومتی نمائندے نے واقعے کے بعد ان سے یا دیگر ساتھیوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے بتایا ہرگز نہیں کسی حکومتی نمائندے نے رابطہ نہیں کیا اور زخمی اہلکاروں نے خود اپنے علاج کا خرچہ برداشت کیا۔

کراچی یونین آف جرنلسٹ (دستور) کے صدر طارق الحسن نے مجھے بتایا کہ ہم متاثرہ صحافیوں کو اپنے پلیٹ فارم سے ہر ممکن مدد فراہم کرتے ہیں اور لیاقت نیشنل اسپتال والے کیس میں بھی ہم نے صحافیوں کی بھرپور قانونی معاونت کی جس کی بدولت معاملات خوش اسلوبی سے حل ہوگئے تاہم کسی بھی صحافی پر تشدد یا اسے دھمکی آمیز کال کے علاوہ دیگر مشکلات کی صورت میں کچھ ذمہ داری حکومت وقت پر بھی ہوتی ہے کہ وہ صحافیوں کو آزادی اظہار رائے میں درپیش مشکلات کا خاتمہ کریں جس سے خود بخود انہیں تحفظ حاصل ہوجائے گا۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکریٹری رانا عظیم نے کہا کہ پاکستان میں خبر کی تلاش میں نکلنے والے ہر صحافی کو سیکیورٹی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ حکومت کی جانب سے ہر دوسرے صحافی کو سیکیورٹی فراہم کرنا ناممکن ہے لہذا صحافیوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے بجائے ملک میں ان تمام چیزوں کا خاتمہ کیا جائے جو آزادی اظہار رائے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔

اس حوالے سے میری تحریک انصاف کے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہم صحافیوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہے اور ان تمام مسائل کے حل کے لیے مثبت اقدامات اٹھارہے ہیں، ہم صوبائی پریس کلب کو صحافت کے جدید آلات کی تنصیب کرنے اور سالانہ گرانٹ کی منظوری کے لیے خصوصی اقدامات اٹھارہے ہیں، گرانٹ سے متعلق تفصیلات حاصل کرنے کے لیے ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ صحافیوں کی صحت کے مسائل کے حل کے لیے صحت کارڈ کے اجرا پر بھی کام ہو رہا ہے۔

مشیر اطلاعات سندھ مرتضیٰ وہاب نے مجھے بتایا کہ صوبائی حکومت وقتاً فوقتاً صحافیوں کی مدد کرتی رہتی ہے اور اس حوالے سے پریس کلب اور دیگر یونینز کو باقاعدہ گرانٹس بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے جب میں نے ان سے تفصیلات پوچھنا چاہیں کہ کتنی گرانٹ فراہم کی جاتی ہے تو اس پر انہوں نے جواب دیا کہ یہ میں آپ کو ابھی نہیں بتاسکتا، اس کے علاوہ سندھ حکومت صحافیوں کے لیے صحت کے حوالے سے درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی اقدامات کررہی ہے۔ ان سے جب پوچھا کہ صوبائی حکومت صحافتی ذمہ داری کے دوران متاثر ہونے والے صحافیوں کے لیے کیا اقدامات کیے جاتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت آزادی اظہار رائے پر مکمل یقین رکھتی ہے اور صحافیوں کی آواز دبانے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی پر بھی یقین رکھتی ہے اور متاثرہ صحافیوں کی ہرممکن مدد کرتے ہیں جسے اکثر پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔

اس حوالے سے مشیراطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ صحافیوں کے حقوق کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے، حکومت صحافیوں کے لیے رہائشی سہولت فراہم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے اور اس کے علاوہ  وزیراعظم ہیلتھ پروگرام میں صحافیوں کے لیے انصاف صحت کارڈ بھی جلد ہی شامل کیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔