روسی گاؤں پر سیاہ مکھیوں کا ہولناک حملہ

ویب ڈیسک  منگل 18 جون 2019
روسی گاؤں میں سیاہ مکھیوں کے جھنڈ نے مقامی لوگوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ فوٹو: فائل

روسی گاؤں میں سیاہ مکھیوں کے جھنڈ نے مقامی لوگوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ فوٹو: فائل

 ماسکو: روسی خطے اُورل کے ایک دیہات لیزوریوی کے باشندے سیاہ مکھیوں کے حملے سے شدید پریشان ہیں۔ یہ مکھیاں کسی آفت کی طرح ہر جگہ موجود ہیں۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک مقامی کسان نے اپنے کھیت میں قدرتی کھاد کے طور پر مرغیوں کی بیٹ پھیلادی اور اس کے چند گھنٹوں بعد مکھیوں نے وہاں ڈیرہ بسالیا۔ اس کے بعد گویا مکھیاں آسمان سے ٹپکنے لگیں کیونکہ مکھیوں کی بیٹ سے بھرا کھیت ان کے لیے ایک بہترین مسکن بن گیا تھا۔ یہاں انہوں نے اس جگہ اپنی نسل بھی بڑھانا شروع کردی۔

اب یہ حال ہوگیا ہے کہ گاؤں کی سڑکیں، مکانات اور صحن وغیرہ سیاہ مکھیوں سے بھر چکے ہیں۔ ہر طرف سیاہ چادر کی صورت میں مکھیاں اڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ اب لوگ ہر روز بالٹیاں بھر بھر کر مکھیاں اپنے گھروں سے نکال کر پھینک رہے ہیں اور اس صورتحال میں لوگوں کا اٹھنا بیٹھنا بھی محال ہوگیا ہے۔

بعض افراد نے اسے بھیانک خواب قرار دیا ہے کیونکہ مکھیاں تیزی سے اپنی نسل بڑھا رہی ہیں اور یوں جتنی مرتی ہیں اتنی ہی دوبارہ پیدا ہوجاتی ہیں۔ ایک خاتون نے کہا کہ یہ سب کچھ ناقابلِ برداشت ہوکر رہ گیا ہے۔ ہم ہر روز مکھیوں کو مارنے کے لیے دن میں کئی مرتبہ اسپرے کررہے ہیں جس سے چھوٹے بچےبھی متاثر ہورہے ہیں۔

گاؤں میں طرح طرح کی باتیں کی جارہی ہیں اور افواہیں گرم ہیں۔ تاہم چند کسانوں نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اپنی فصل بہتر بنانے کے لیے پرندوں (بالخصوص مرغیوں کا) فضلہ ڈالا ہے جو باقاعدہ ایک صنعت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ کسانوں کا اصرار ہے کہ یہ ایک عام طریقہ ہے جس سے کبھی نقصان نہیں پہنچا البتہ مکھیوں کا حالیہ حملے کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔

بعض لوگوں نے مکھیوں کے حملے کو موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔ لیکن اس کا نوٹس لیتے ہوئے مجاز اداروں نے کسانوں کے کھیتوں کی تحقیقات شروع کردی ہیں اور دوسری جانب مکھیوں سے چھٹکارے کے لیے کئی طریقوں پر غور ہورہا ہے۔

پہلے مرحلے میں بلدیاتی اداروں نے اسپرے کیا تو صرف دو دن تک مکھیاں غائب رہیں اور اس کے بعد اسی شدت سے ان کا حملہ شروع ہوگیا۔ آخر اطلاعات تک مکھیوں نے دیہات کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔