موسمیاتی تبدیلیاں، پانی کی شدید قلت

ایڈیٹوریل  منگل 18 جون 2019
ہمارے پاس اب وقت نہیں رہا کہ پانی کے  بحران کو موخر رکھا جائے۔ فوٹو:فائل

ہمارے پاس اب وقت نہیں رہا کہ پانی کے بحران کو موخر رکھا جائے۔ فوٹو:فائل

دنیا میں بڑی موسمیاتی تبدیلیاں آرہی ہیں، پاکستان میں اس کے اثرات  بہت زیادہ نمایاں ہیں ۔ قلت آب اب ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ پانی کے مسئلے پر بھی عالمی جنگ ہوسکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت لگ بھگ ساڑھے چھ کروڑعرب شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں جب کہ کل بائیس میں سترہ ممالک پانی کی قلت انتہائی حد سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔

عالمی معیارکے مطابق فی کس سالانہ چھ ہزارکیوبک میٹر پانی درکار ہوتا ہے۔تاہم عرب شہریوں کو اوسطا فی کس پانچ سوکیوبک میٹر سے بھی کم پانی مل رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں بھی قلت آب کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوچکا ہے۔

اسی تناطر میں انڈس ریورسسٹم اتھارٹی (ارسا) نے خبردارکیا ہے کہ ملک میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسکردو میں درجہ حرارت میں اچانک غیرمعمولی کمی کے باعث برف کا پگھلاؤ رک گیا ہے،دریائے سندھ میں پانی کی آمد میں کمی واقع ہوئی ہے اور تربیلا ڈیم خشک ہونے کے قریب ہے۔ رپورٹ میں خبردارکیا گیا ہے کہ اگر  پانی کی ہی صورتحال رہی تو اڑتالیس گھنٹوں میں تربیلا ڈیم ڈیڈ لیول پرآجائے گا تاہم اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے منگلا ڈیم سے پانی کا اخراج بڑھا دیا گیا ہے۔

اس چشم کشا رپورٹ کی روشنی میں ضروری ہوگیا ہے کہ تمام چھوٹے اور بڑے ڈیم بناکر پانی کے ایک ایک قطرے کو محفوظ کرکے قلت آب کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے ۔ اس حوالے سے صوبوں کے درمیان اختلافات کو ختم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ دنیا میں ایک سو بیس دن کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے مقابلے میںہم صرف تیس دن کا پانی جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

امریکا دریائے کلوریڈا پر 900 دن ، مصر دریائے نیل پر 1000دن اور جنوبی افریقہ دریائے اورنج پر 500 دن کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرسکتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی قلت کو دورکرنے کے لیے  فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پانی کے بحران میں مزید اضافہ ہوگا ۔

ہمارے پاس اب وقت نہیں رہا کہ پانی کے  بحران کو موخر رکھا جائے، ہمیں فوری طور پر ماحولیات کی بہتری کے لیے ڈیموں کی تعمیر پر سوچنا نہیں بلکہ کام کرنا ہوگا تاکہ آبی بحران سے نبٹا جاسکے۔ پاکستان زرعی ملک ہے، ہمیں مستقبل کی پلاننگ جنگی بنیادوں پرکرنی چاہیے کیونکہ یہ مسئلہ پاکستان کی بقا اور سلامتی سے جڑا ہے اور ہمیں قوم کے بہتر مستقبل کے لیے قدم بڑھانا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔