مریم بلاول ملاقاتیں کیا رنگ لائیں گی؟

مزمل سہروردی  منگل 18 جون 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

مریم نواز اور بلاول بھٹو کے درمیان ملاقاتیں شروع ہو گئی ہیں۔ پہلے بلاول بھٹو نے مریم نواز کو افطاری پر بلایا تھا اور اب مریم نواز نے بلاول کو ظہرانہ کی د عوت دی ہے۔مریم نواز اور بلاول بھٹو کی ملاقاتیں کیا رنگ لائیں گی، یہ ایک مشکل سوال ہے۔

دونوں جماعتوں اور دونوں خاندانوں کے درمیان بد گمانیاں اور گلے شکوے موجود ہیں۔جن کی وجہ سے دونوں کا ایک ساتھ چلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اب بظاہر دونوں مل رہے ہیں لیکن دونوں کے درمیان فاصلے اور اختلافات موجود ہیں جس کی وجہ سے اکٹھے چلنا مشکل نظر آرہا ہے۔

اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو کے خاندان اور ان کی سیاسی جماعتیں ایک جیسے مسائل کا شکار ہیں۔ ان کے حریف مشترک ہیں، دشمن ایک ہے۔ لیکن پھر بھی ان مشکلات سے لڑنے کے لیے دونوں کی مختلف مواقعے پر پالیسی اور حکمت عملی مختلف رہی ہے۔ ن لیگ اور مریم نواز کو یہ گلہ ہے کہ دشمنوں کو شکست دی جا سکتی تھی تب پی پی پی اور بلاول کے خاندان نے ان کے دشمنوں کے ساتھ مفاہمت کر لی۔ جس کی وجہ سے انھیں شکست ہو گئی۔ آج جب بلاول اور ان کا خاندان خود مشکل میں پھنس گیا ہے تو ساتھ ملنے کے لیے آگیا ہے۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔

آج دونوں جماعتیں جن مشکلات کا شکار ہیں اس کی بنیادی ذمے د اری پی پی پی پر عائد ہوتی ہے۔ انھوں نے مقتدر قوتوں سے صلح کر لی۔ تب ن لیگ اور شریف فیملی بار بار بلاول کے خاندان اور پی پی پی کو سمجھا رہی تھے کہ ہمارے بعد آپ کی باری ہے۔لیکن بلاول اور ان کے والد کو یقین نہیں تھا۔ انھیں امید تھی کہ ان کی مفاہمت کی وجہ سے انھیں عام معافی مل چکی ہے، اس لیے شریف فیملی کو تنہا کر دیا جائے۔ تا ہم ان کی سوچ غلط ثابت ہو گئی ہے۔ جو ن لیگ اور شریف فیملی کہہ رہی تھی وہی ہوا ہے۔ شریف فیملی اور ن لیگ کے بعد ان کی باری آگئی ہے۔ فریال تالپور بھی گرفتار کرلی گئیں۔

مریم اور بلاول ایسے ماحول میں مل رہے ہیں، جب دونوں جنگ ہار چکے ہیں، دونوں خاندان بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دونوں کے لیے ہر دن نئی مشکلات لے کر آرہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں کو ایک د وسرے پر اعتبار نہیں ہے۔اعتبار کے اسی فقدان کی وجہ سے دونوں مل کر لمبی اننگ کھیلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ دونوں ایک دوسرے سے وقتی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں اکٹھے چلنا چاہتے ہیں لیکن دوران سفر جب بھی موقع ملے راستہ بدلنے کا آپشن بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں اکٹھے چلنے کا اعلان بھی کرنا چاہتے ہیں اور الگ ہونے کا راستہ رکھنے کے لیے بھی کوشاںہیں۔ دونوں مل بھی رہے ہیں اور الگ الگ اسٹبلشمنٹ سے بات بھی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ملاقاتوں سے سیاسی منظر نامے میں وہ طوفان نہیں آتا جس کی ضرورت ہے۔ ان کی ملاقاتوں سے خطرے کی وہ گھنٹیا ں نہیں بجتیں جو بجنی چاہیے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں۔ آپ سینیٹ کی مثال ہی سامنے دیکھ لیں۔ا گر ن لیگ اور پی پی پی مل جائیں تو آج سینیٹ میں تبدیلی لا سکتے ہیں اور   صادق سنجرانی کی چھٹی ہو جائے گی۔ لیکن پی پی پی سینیٹ میں تو آج بھی تحریک انصاف کی اتحادی ہے اور قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے خلاف چلنا چاہتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو صادق سنجرانی کو ہٹانے کی راہ میں کیا رکاوٹ ہے۔

بہت سے دوستوں کو امید تھی کہ اب جب مریم نواز اور بلاول مل رہے ہیں ، حکومت کو ٹفٖ ٹائم دینے کی بات کر رہے ہیں، احتجاجی تحریک چلانے کی بات کر رہے ہیں، عمران خان کی حکومت کو گرانے کی بات کر رہے ہیں تو سب سے پہلے جو کام سب سے آسان ہے وہ کریں گے۔ سینیٹ میں تبدیلی لائیں گے۔ ایک ہاوس اپنے قبضہ میں کریں گے۔ دوستوں کو امید تھی کہ پی پی پی کے پاس ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا عہدہ موجود ہے اس لیے بلاول جاتی عمرہ کے ظہرانہ میں چیئرمین سینیٹ کا عہدہ ن لیگ کو دینے کی پیشکش کریں گے۔ اعلامیہ میں لکھا جائے گا کہ دونوں جماعتوں کی نوجوان قیادت اور دونوں بڑے سیاسی گھرانوں کی اگلی نسل نے مل کر سینیٹ میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اعلان ہی پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں زلزلہ لے آتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جس کا مقصد ہے کہ یہ ظہرانہ بس ایک کھانا تھا۔ ابھی فائنل لڑائی لڑنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔

ابھی دونوں سیاسی گھر مل کر چلنے کا ایک تاثر بنا رہے ہیں۔ ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ ابھی دونوںکہیں اور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم مل کر بھی چل سکتے ہیں۔ دیکھ لیں، ہم یہ بھی کر سکتے ہیں، وہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس لیے ابھی دونوں ہی کسی بڑے فیصلے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ بس تاثر دے رہے ہیں۔ اور دونوں اپنی اپنی جگہ اس تاثر سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہیں۔

بلاول اور مریم نواز کی ملاقات کے موقع پر کسی بڑے فیصلے کی کوئی امید نہیں تھی۔ اسی لیے دونوں طرف کے وفد میں اہم سیاسی قیادت شامل نہیں تھی۔ اگر کوئی بڑا فیصلہ ہونا ہوتا تو ن لیگ کی طرف سے شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف کی شمولیت لازمی تھی۔ ان میں دو تو لازمی شریک ہوتے۔ جب کہ اسی طرح بلاول کے ساتھ بھی خورشید شاہ اور شیریں رحمٰن، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف کو آنا چاہیے تھا۔ قمر زمان قائرہ اہم ہیں لیکن پارلیمنٹ سے باہر ہیں۔ ان کے ساتھ یہ بڑے فیصلہ نہیں ہو سکتے۔ دونوں طرف کے وفود ہی بتا رہے تھے کہ بس روٹی کھانے کا پروگرام تھا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

مریم نواز اور بلاول کے درمیان ملاقاتیں اس حوالے  سے خوش آیند ہیں کہ دونوں کو ایک د وسرے کو سیاسی طور پر سمجھنے کا موقع مل رہا ہے۔ شائد دونوں مل کر ایک ایسی فضا قائم کر سکیں جس میں اکٹھے چلنے کی راہ نکل سکے۔ دونوں مل کر بد گمانیاں دور کر سکیں۔ لیکن فوری ایسا ممکن نظر نہیں آرہا۔

ن لیگ میں شہباز شریف کا بیانیہ ہی چلے گا۔ ن لیگ کی پالیسی ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان پر کھل کر تنقید کی جائے لیکن مقتدر حلقوں کو نہ چھیڑا جائے۔ اداروں سے تعلقات کو درست کیا جائے۔ ن لیگ پی ٹی ایم کی حمایت نہیں کر رہی ۔ جب کہ بلاول کر رہے ہیں۔ اس اختلاف کو سامنے رکھا جائے دونوں جماعتوں کے اکٹھے چلنے کے مواقعے محدود ہیں۔ عمران خان کی مخالفت میں کھیلنے کی جگہ کم ہے۔ جب حکومت کو گرانا نہیں ہے تو احتجاج کے مواقعے بھی کم ہیں۔

یہ درست ہے کہ ملک میں جاری معاشی بحران کی وجہ سے عمران خان کی مقبولیت کم ہو رہی ہے۔ وہ کمزور ہو رہے ہیں۔ لیکن ابھی اتنے بھی کمزور نہیں ہوئے ہیں کہ کسی کمزور احتجاج سے گر جائیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ملاقات کے لیے دونوں کے پاس کوئی واضح اسکرپٹ بھی موجود نہیں تھا۔ ابھی اسکرپٹ کی تلاش ہے۔ ابھی صرف تاثر بنایا جا رہا ہے۔ اس سے آگے کچھ نہیں۔ لیکن یہ ملاقاتیں آنے والے وقت کی تیاری ہیں۔ بوقت ضرورت ان ملاقاتوں کے ثمرات آئیں گے۔ لیکن شاید ابھی وہ وقت نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔