ٹیکس چور نظام اور پاکستان

جاوید قاضی  منگل 18 جون 2019
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ماہ جون  میں اتنے سارے محاذ کھل گئے ہیں کہ اس سے پہلے ایسی کوئی بھی مثال نہیں ملتی۔ایک طرف بجٹ تھا،ایک ایسا بجٹ جو اپنی مثال آپ تھا، ٹیکسوں کے پہاڑ گرائے گئے، ایسے وقت میںجب معیشت خود سکڑ رہی ہے۔

دعویٰ تو ہے کہ امیروں سے زیادہ ٹیکس لیں گے یا ان کو پکڑ میں لائیں گے مگر ہماری تاریخ یہ رہی ہے کہ ہم عام استعمال میں اشیاء یعنی اشیائے خورونوش پر ٹیکس بڑھا دیتے ہیں ۔ یوں کہیے کہ ہمارے بجٹ کی تاریخ بھری پڑی ہے ان ڈائریکٹ ٹیکس نافذ کرنے کے حوالے سے اور ہمارے ڈائریکٹ ٹیکس لگانے والی تاریخ بالکل ساکن اور منجمد ہے۔

ناانصافی پر مبنی یہ ٹیکس کا نظام جس میں خود حکومت کے غیرمتوازن انداز میں اخراجات  ہوں یا یوں کہیے کہ انسانی ترقی کے لیے یا ترقیاتی کاموں کے مد میں کم مختص کیے ہوئے رقم یا فنڈز۔ اور بلاخر سارے دروازے بند، نہ قرضے اب لیے جاسکتے ہیں نہ نوٹ چھاپے جاسکتے ہیں، مگر اب تک لیے ہوئے قرضوںکے سود کی ادائیگی کے لیے ہمارے بجٹ کا 38  فیصد حصہ چلاجائے گا۔

خان صاحب تو یہ کہتے ہیں کہ 2008 تک 6000 ارب روپے کا ملک پر قرضہ تھا وہ ان دس سالوں میں 30000 ارب کیسے ہوگیا۔ان سے کوئی یہ بھی پوچھے کہ آپ کے گیارہ مہینوں میں بڑھ کر پھر 34000 ارب کیسے ہوگیا؟ آپ آئے تھے تو ملک کے ذخائر میں دس ارب ڈالر تھے آپ نے 9.2 ارب ڈالر ان گیارہ مہینوں میں چین، سعودی عرب اور عرب امارات سے ادھار لیے پھر بھی ہمارے ذخائر ایک ارب اورکم ہوکر آٹھ ارب ڈالر پرکھڑے ہیں۔

معاملہ سیدھا ہے ہم نے قرض لیا قرضے اتارنے کے لیے۔ ہم قرض نہ لیتے اگر ہماری ایکسپورٹ اور Tax to GDP ratio   بہتر ہوتا۔ یعنی ہمارے ٹیکس لینے کی شرح بہتر ہوتی جوکہ اس وقت مجموعی پیداوارکے دس فیصد کے برابر ہے اور اس طرح ہم دنیا کے بدترین ممالک کی گنتی میں آتے ہیں ،جب کہ ہندوستان کے ٹیکس لینے کی شرح 18 سے 20 فیصد تک کی ہے۔

یہ صرف ہم نہیں جن کے کْل قرضے مجموعی پیداوار کے 85 فیصد کے برابر ہیں۔ بلکہ جاپان، امریکا اور دنیا کے بڑے بڑے ممالک ہیں جن کے قرضے ان کی مجموعی پیداوار سے بھی زیادہ ہیں، لیکن  جاپان،امریکا اور ان تمام بڑے ممالک کے ٹیکس وصول کرنے کی شرح مجموعی پیداوارکے 50 سے 60 فیصدکے تناسب سے ہے اور اس طرح وہ فلاحی ریا ستیں بھی ہیں۔ وہ اپنے لوگوں میںسرمایہ کاری کرتے ہیں۔ان لوگ بھی ہنرمند ہیں اور ہنرمندی بنیادی وجہ ہے ان  کی  ایکسپورٹ کے بہتر ہونے کی۔ اس لیے سوال یہ نہیں کہ قرضے کیسے بڑھ گئے۔ سوال یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اور ہماری اشرافیہ ایک ٹیکس چور اشرافیہ ہے۔

اسی بجٹ کے دوران میں پکڑدھکڑ کا کام بھی جاری رہا۔ جب بجٹ ایوان میں پیش ہونے جا رہا تھا ۔ حمزہ شہباز لاہور سے گرفتار ہوئے، لندن سے الطاف حسین اور ایک دن پہلے آصف زرداری اور پھر چند دن کے وقفے سے  فریال تالپور بھی گرفتار۔ا دھر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف جوڈیشل کونسل میں صدر پاکستان کا بھیجا ہوا ریفرنس۔ وکلاء نے تحریک شروع کردی۔ آل پارٹیزکانفرنس کی تیاریاں بھی زوروشور سے جاری ہیں۔ ہم جس وقت اپنی معیشت کو سنبھالنے جا رہے ہیں یا یوں کہیے کہ اوپرکی سطح پر یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ Fiscal discipline  کے سواء اب کوئی چارہ نہیں، دوسرے الفاظ میں آمدنی بڑھاؤ اور خرچے کم کرو۔ عین اس وقت ہمارے سامنے بہت بڑا سیاسی بحران کھڑا ہے۔ نیب اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچا ہوا ہے، احتساب کی رفتار بہت تیز ہے اور یہ سارا عتاب حزب اختلاف پر گرا ہوا ہے۔

اس حکومت کے گیارہ مہینوں کی ناقص کارکردگی کی بدولت مہنگائی کے پہاڑ عوام پر ٹوٹ پڑے۔ بے روزگاری کے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ غریبوں کے گھروں پر فاقہ  ہورہا ہے، لیکن پھر بھی یہ لوگ اپوزیشن کے ساتھ متحد نہیں۔ دور دور تک کوئی بھی تحریک نظر نہیں آرہی اور اس طرح حکومت گرتی نظر نہیں آرہی ہے۔

لیکن اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ آیا یہ حکومت ہے بھی کہ نہیں۔ خانصاحب کی اقتدار پر دسترس ڈھیلی ہوتی جا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے بہت سارے ادارے یا وزراء ان کے ڈسپلن میںنہیں آرہے ہیں۔ وہ شاید ڈکٹیشن کہیں اور سے لیتے ہیں اورخود خان صاحب بھی اس بات سے خفا بھی نہیں۔

سندھ حکومت بھی زرداری صاحب کی گرفتاری کے بعد سوالیہ نشان کے زد میں آگئی ہے۔ چہ مگوئیاں یہ بھی ہیں کہ ساری گرفتاریاں نیب کے تحت عمل میں آنے والی ہیں ۔ایک دو صوبائی سیکریٹری بھی گرفتار ہوئے ہیں۔

ایسا نظر آرہا تھا کہ جیسے پاکستان پیپلزپارٹی  پر ہاتھ ہلکا تھا اور نواز شریف پر بھاری مگر آہستہ آہستہ پیپلز پارٹی، زرداری خاندان اور ان کے بزنس پارٹنرز پر بھی اب ایک افتاد آن پڑی ہے۔ اس طرح یہ تیزی پارٹی کے اندر فارورڈ بلاک پیدا کرسکتی ہے ۔ خود سندھ کی افسر شاہی ان کے اثر سے نکل سکتی ہے، مگر اس پارٹی کا متبادل اب بھی نہیں ہے اور پھر اس طرح جن کو اقتدار میں لایا گیا وہ انتہائی غیر مقبول رہیں گے اور تب آہستہ آہستہ لوگوں میں بے چینی بڑھے گئی۔

دراصل ہماری جمہوریت جن ستونوں پر کھڑی ہے وہ خود اندر سے کمزور ہیں۔ زرداری صاحب ، سندھ کے اندر جو چند ادارے لوگوں کی فلاح کا کام کرتے تھے ان کے زمانے میں ہی بد سے بدتر ہو تے گئے۔ کہیں سے بھی کوئی مڈل کلاس یا انفرا اسٹرکچر نہ بن سکا۔ زراعت کے شعبے سے وابستہ سندھی انڈسٹریل سیکٹرکا مزدور، ہنرمند وکارخانے دار نہ بن سکا۔ اور یہ وڈیرے ہوں یا ان کے مفادات کی ترجمانی کرتی ہوئی پارٹیاں یہ کبھی بھی نہیں چاہیں گی کہ یہ لوگ پڑھ لکھ لیں اور آزاد ہوں۔ خان صاحب کا بیانیہ اور خود ان کے قریب کے لوگ کا بیانیہ دونوں کسی بھی طرح جمہوری پیمانوں پر پورا نہیں اترتے ۔ حال ہی میں فیصل واوڈا صاحب نے  ایک ٹاک شو میں کہا ہے کہ بہتر حکمرانی کے لیے جو طریقہ کار وہ اپنانا چاہتے ہیں اس کے سامنے خود آئین رکاوٹ ہے۔

ایک طرف وہ ہیں جو جمہوریت کے دعویدار ہیں مگر ان کی کارکردگی خود ان کے دعو ے کی نفی کرتی ہے اور دوسری طرف وہ ہیں جو بظاہر آئے تو جمہوری وآئینی طریقے سے ہیں لیکن وہ اپنے بیانیہ میں جمہوریت و آئین کے خلاف ہیں۔

معاملہ یہ نہیں کہ سندھ حکومت ہل گئی ہے ہل تو وفاقی حکومت بھی چکی ہے ۔ اور اس طرح تیزی سے ایک خلا ء پیدا ہوتا جارہا ہے ، مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ خلاء اسی طرح پرکیا جاتا رہے گا جس طرح ماضی کی روایت ہے یا پھر یہ کہ اب  وفاق میںبظاہر تو یہ حکومت ہوگی مگر پس پردہ کوئی اور۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔