نجی اسکولوں کی فیسیں

ظہیر اختر بیدری  منگل 18 جون 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہمارے ملک کے ہر شعبے میں لوٹ مارکا جوکلچر پروان چڑھ چکا ہے ، اب اس پر قابو پانے کے لیے ایک منظم اور جامع پروگرام کے تحت اقدامات کرنے ہوں گے۔ تعلیم کا شعبہ ہر ملک کا ترجیحی شعبہ ہوتا ہے لیکن ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ اس شعبے کو منافع بخش انڈسٹری میں بدل دیا گیا ہے ۔

اس حوالے سے فیسوں میں من مانا اضافہ پرائیویٹ اسکولوں کا وتیرہ بن گیا ہے۔ ہماری  عدلیہ نے اس حوالے سے یہ پابندی لگادی ہے کہ پرائیویٹ اسکول فیسوں میں 5 فیصد سے زیادہ اضافہ نہیں کرسکتے، یہ فیصلہ ملک کی اعلیٰ عدالت نے کیا تھا۔ لیکن پرائیویٹ اسکولوں کی انتظامیہ نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا لیکن سپریم کورٹ نے نجی اسکولوں کی جانب سے زائد فیسوں کی وصولی سے متعلق کیس میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے واضح کیا کہ نجی اسکولوں کی فیسوں میں سالانہ 5 فیصد اضافہ ہوگا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

بدقسمتی یہ ہے کہ دولت کی ہوس میں اندھے اسکول مالکان کو یہ احساس بھی نہیں رہا کہ قوم کے نونہالوں کی بھاری اکثریت غریب اور مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے جو پرائیویٹ اسکولوں کی بھاری فیسوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں لیکن پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان کی اندھی ہوس نے غریب طبقات کی مجبوریوں کو نظرانداز کرکے من مانی فیسیں وصول کرتے رہے جسے سپریم کورٹ نے اپنے حکم سے روک دیا ہے۔ اسکول مالکان کی ہوس کا عالم یہ ہے کہ انھوں نے اسٹیشنری اور درسی کتابوں کی پرنٹنگ کا کام بھی سنبھال لیا تھا۔اس طرح فیسوں کے علاوہ اسٹیشنری اور درسی کتابوں کی فروخت سے بھاری منافع حاصل کر رہے تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان ہوس کے غلام بن گئے تھے لیکن اصل خرابی سرمایہ دارانہ نظام کی ہے جو منافع کے لالچ میں ملک کے نونہالوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔  سپریم کورٹ نے نجی اسکولوں کے مالکان کی من مانی کو تو روک دیا ہے لیکن ہم جس نظام سرمایہ داری میں رہتے ہیں یہ نظام ہر بندش کا کوئی نہ کوئی توڑ نکال لیتا ہے ، ڈر ہے کہ نجی اسکولوں کے مالکان فیسوں پر پابندی کا کوئی نہ کوئی متبادل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے جس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

دنیا بھر میں شعبہ تعلیم کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے، دنیا کے بیشتر ملکوں میں انسانوں کی دو بنیادی ضرورتوں تعلیم اور صحت یعنی علاج کو حکومت اپنی تحویل میں رکھتی ہے تاکہ کم ازکم یہ دو بنیادی اہمیت کے شعبے لوٹ مار سے بچے رہیں لیکن لوٹ مار کی پہلی صف میں کھڑا ہوا ہمارا ملک عوام کی بنیادی ضرورتوں سے لاتعلق ہے کیونکہ اس ملک کے حکمران طبقات عوام خصوصاً غریب عوام کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس ملک پر اس جاگیردار طبقے نے قبضہ کرلیا جو انتہائی ہوشیاری سے تحریک پاکستان کی صف اول میں شامل ہوگیا تھا اور پاکستان کے قیام کے بعد سیاست اور حکومت پر اس مضبوطی سے قابض ہوگیا کہ بڑے بڑے سیاسی طوفان بھی اس کا کچھ بگاڑ نہ سکے اس طبقے پر  پہلی بار برا وقت آیا ہے اور یہ ظالم جابر اور لٹیرا طبقہ پوری کوشش کر رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس برے وقت سے سلامتی کے ساتھ گزر جائے، اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ کیا کردار ادا کرتے ہیں۔

بات چلی تھی نجی اسکولوں کی لوٹ مار کی اور پہنچی سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ مار تک۔ پاکستان کا شمار پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے، ہمارے دیہی علاقے اب تک وڈیروں اور جاگیرداروں کے قبضے میں ہیں۔ دیہی علاقوں میں غریب کسان اور ہاری رہتے ہیں اور پرانی روایت کے مطابق کسانوں اور ہاریوں کے بچے وڈیروں کے مویشی چراتے ہیں اور وڈیروں کے گھروں پر ’’اندر والے‘‘کی خدمات انجام دیتے ہیں، وڈیروں اور جاگیرداروں کو اس بات کا پوری طرح احساس ہے کہ اگر کسانوں اور ہاریوں کے بچے اگر پڑھ لکھ جائیں تو پھر انھیں اپنے حقوق کا احساس ہوگا، غریب طبقات میں اگر بیداری پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے لٹھ لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔

اس صورتحال سے بچنے کے لیے وڈیرہ شاہی نے کسانوں اور ہاریوں کے بچوں کو تعلیم سے دور رکھا ہوا ہے اور اسکولوں کو مویشی خانوں میں بدل دیا گیا ہے۔ یہ حقائق حکمرانوں کو بھی معلوم ہیں لیکن ان کا مفاد اسی میں ہے کہ اسکول مویشی خانے بنے رہیں۔

پاکستان میں بھی سرکاری اسکول موجود ہیں لیکن یہ ادارے عضو معطل بنے ہوئے ہیں، یہاں کا نظام تعلیم اساتذہ کی مرضی کا محتاج ہے اور ہمارے اساتذہ بھی اسی سسٹم کا حصہ ہیں، سو سب وقت گزاری کے لیے اسکولوں میں آتے ہیں اور اپنی تنخواہ کھری کرلیتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی اس حالت زار ہی کی وجہ پرائیویٹ اسکول انڈسٹری شباب پر ہے اور لوئر اور مڈل کلاس نجی تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو بھیج کر مطمئن رہتی ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں میں سالانہ 5 فیصد فیسوں میں اضافے کا قانون منصفانہ ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ  عدلیہ معیار تعلیم پر بھی توجہ دے تاکہ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچے بھی قابل بن سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔