خیبرپختونخوا حکومت 800 ارب روپے حجم کا بجٹ آج پیش کرے گی

شاہد حمید  منگل 18 جون 2019
 بجٹ میں 209 ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگرام جبکہ 163 ارب روپے قبائلی اضلاع کے لیے مختص کیے گئے ہیں (فوٹو: فائل)

بجٹ میں 209 ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگرام جبکہ 163 ارب روپے قبائلی اضلاع کے لیے مختص کیے گئے ہیں (فوٹو: فائل)

پشاور: آئندہ مالی سال 2019-20ء کے لیے خیبرپختونخوا حکومت کا 800 ارب روپے مالیت سے زائد حجم کا فاضل بجٹ آج پیش کیا جائے گا۔

ایکسپریس کے مطابق صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کی جانب سے آئندہ مالی سال کا بجٹ آج سہ پہر تین بجے خیبرپختونخوا اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ بجٹ میں 209 ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگرام جبکہ 163 ارب روپے قبائلی اضلاع کے لیے مختص کیے گئے ہیں، اگلے مالی سال کے لیے وزیر اعلی اور صوبائی وزراء کی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی کی جارہی ہے ملازمین کے لیے کم ازکم اجرت 17500 روپے مقررکی جارہی ہے۔

سرکاری ملازمین میں گریڈ ایک سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد، گریڈ 17 سے 19 تک 5 فیصد اور گریڈ 20 سے 22 تک کے افسروں کی تنخواہوں میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں کیا جارہا۔ بلدیاتی اداروں کو سالانہ ترقیاتی پروگرام سے 36 ارب فراہم کیے جارہے ہیں جبکہ تعلیم کے شعبے کے لیے 162 ارب کی تخصیص کی جارہی ہے۔

جس میں پہلی بار قبائلی اضلاع کا بجٹ بھی شامل ہوگا۔ قبائلی اضلاع کے 163 ارب روپے مالیت کے بجٹ میں 83 ارب روپے ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیے گئے ہیں جبکہ دیگر رقم انتظامی اخراجات اور آئی ﮈی پیز کو ادائیگیوں سمیت دیگر اخراجات کے لیے رکھے گئے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ کے لیے مرکز کی جانب سے 533 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے جبکہ صوبے کی اپنی آمدنی کا تخمینہ 56 ارب روپے لگایا گیا ہے، صوبائی حکومت کو آئندہ مالی سال کے لیے غیر ملکی وسائل سے 87.5 ارب روپے ملنے کی توقع ہے جس میں 29 ارب سے زائد بی آر ٹی پشاور کے لیے قرضہ بھی شامل ہے۔

آئندہ مالی سال کے لیے مرکز کی جانب سے صوبے کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے 47 ارب روپے ملنے کی توقع ہے جبکہ صوبائی حکومت نے اپنے انتظامی اخراجات کا تخمینہ 426 ارب روپے کے لگ بھگ لگایا ہے، بجلی منافع اور بقایا جات کی مد میں بھی صوبہ کو مرکز سے خطیر رقم ملنے کا امکان ہے۔

آئندہ مالی سال کے دوران صوبائی حکومت تھرو فارورﮈ کو موجودہ 5.9 سال سے کم کرکے 4.5 سال پر لانے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہے، آئندہ مالی سال سالانہ ترقیاتی پروگرام کی تیاری مجموعی تخصیص(امبریلا) طرز پر کی گئی ہے جس میں 30 فیصد فنڈز بلدیاتی اداروں کو بھی فراہم کیے جائیں گے جو 36 ارب روپے بنتے ہیں۔

یہ پڑھیں: آصف زرداری کی گرفتاری پر خیبر پختونخوا اسمبلی بجٹ اجلاس میں احتجاج کا فیصلہ

صوبائی ترقیاتی پروگرام کے تحت ترقیاتی کاموں کے لیے 122 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے جبکہ 87 ارب سے زائد غیرملکی وسائل سے صوبہ کو موصول ہونگے، صوبائی حکومت کی جانب سے تیار کیے گئے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں جو اہم اور بڑے منصوبے شامل کیے گئے ہیں ان میں پشاور اور ہنگو میں وزیراعظم سستا گھرا سکیم کا اجراء، صحت انصاف کارڈ کو صوبہ بھر بشمول قبائلی اضلاع تک توسیع دینے اور نوجوانوں کو بلاسود قرضوں کی فراہمی، قبائلی ضلع کرم میں میڈیکل کالج کا قیام ، قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں ٹل، میرعلی روڈ کی تعمیر اور قبائلی اضلاع میں پینے کے پانی کی فراہمی کی اسکیمیں بھی شامل ہیں۔

سالانہ ترقیاتی پروگرام میں بلین سونامی منصوبے کے تحت گرین وزیرستان اور گرین باجوڑ منصوبے بھی شامل کیے گئے ہیں اورقبائلی اضلاع سے 2 جولائی کے انتخابات میں منتخب ہونے والے اراکین صوبائی اسمبلی کے لیے پشاور ایم پی اے ہاسٹل میں نئے بلاک کی تعمیر اورموجودہ ہاسٹل کی مرمت کا منصوبہ بھی اے ڈی پی میں شامل کیا گیا ہے۔

پورے صوبے میں موجود 200 بنیادی صحت مراکز کو جامع ہیلتھ یونٹس میں اپ گریڈیشن کا منصوبہ بھی اگلے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل ہے، قبائلی اضلاع میں سات سٹیزن فیسیلی ٹیشن سینٹرز کے قیام، ماڈل سائنس لائبریریز اور ڈیجٹیل یوتھ اسکلز منصوبے، بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت شہری علاقوں اور نہروں پر شجرکاری کے علاوہ صوبے کے ہل اسٹیشنز پر صنوبر درختوں کی شجرکاری کرنے اور ان مقامات کو قابل سیاحت بنانے کا منصوبہ بھی اے ڈی پی کاحصہ ہوگا۔

قبائلی اضلاع باجوڑ، وانا اور کرم کے ٹائپ بی ہسپتالوں کو ٹائپ اے میں اپ گریڈ کرنے کے علاوہ صوبے بشمول قبائلی اضلاع کے ڈسٹرکٹ ہسپتالوں اور بی ایچ یوز میں مفت ادویات اور تمام ایمرجنسی سہولیات کے منصوبے بھی اے ڈی پی کا حصہ ہونگے۔

قبائلی اضلاع میں یونیورسٹی اور کالجز کے قیام کے منصوبوں کو آنے والے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل کیا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں صوبے بھر میں مدارس کو قومی دھارے میں لانے اور مساجد، قبرستانوں اور جنازہ گاہ وغیرہ کے لیے 300 کروڑ روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے 127 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

آئندہ مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں قبائلی اضلاع میں پینے کے صاف پانی کی اسکیمیں اور ماڈل قصاب خانے بھی بنائے جائیں گے، صوبے میں پبلک پارکس، مختلف تحصیلوں میں بس اڈوں اور پھلوں اور سبزیوں کی مارکیٹس بھی تعمیر کی جائیں گی جبکہ پشاور شہر کی ترقی اور خوبصورتی کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں خصوصی فنڈز مختص کیے جائیں گے۔

آئندہ مالی سال اقلیتوں کے لیے فلاحی پیکیج ایک کروڑ روپے سے بڑھا کر تین کروڑ روپے کیا جارہا ہے جس کے تحت اقلیتوں کو صحت سہولیات، بیواؤں اور جہیز کے لیے گرانٹس فراہم کی جائیں گی جبکہ مدارس میں طلبہ کی استعداد کار بڑھانے اور انہیں ہنر مند بنانے کیلئے پروگرام بھی اے ڈی پی کاحصہ ہوگا اور صوبے میں پہلی بار مدارس کے طلبہ کیلئے تمام شعبوں میں ٹیکنیکل تعلیم دی جائے گی، مدارس کے طلبہ کو مالی وظائف کیلئے بھی اسکیم شامل کی جارہی ہے۔

شانگلہ، کوہستان، ملاکنڈ اور لکی مروت میں ریسکیو 1122 اسٹیشنوں کی تعمیر بھی کی جائے گی جبکہ مختلف اضلاع میں پریس کلبوں کی تعمیر بھی ہوگی، آئندہ بجٹ میں سیاحت کے فروغ کیلئے پورے صوبے بشمول قبائلی اضلاع میں ٹورازم زونز بنائے جائیں گے۔ آئندہ مالی سال کے دوران آئمہ مساجد و خطباء کو اعزازیہ کی ادائیگی بھی کا بھی آغاز کیا جائیگا جس کے لیے یہ معاملہ محکمہ زکوٰة و عشر سے واپس محکمہ مذہبی امور و اوقاف کے حوالے کیا جارہا ہے۔

آئندہ مالی سال کے لیے محکمہ مذہبی و اقلیتی امور کے لیے مجموعی طور پر 21 اسکیمیں رکھی گئی ہیں جن کے لیے 42 کروڑ روپے سے زائد مختص کیے جارہے ہیں جبکہ محکمہ اوقاف کو مضبوط کرنے کے لیے 6 کروڑ روپے مالیت کی اسکیم الگ سے شامل کی جارہی ہے۔ آئندہ مالی سال کے دوران ریسکیو 1122 کی سہولت کو ایبٹ آباد، مانسہرہ، سوات اور چترال تک توسیع دی جائےگی۔

اگلے مالی سال کے دوران ڈگری کالج شموزئی سوات اورسول ہسپتال بریکوٹ کی تعمیر نو اور بحالی کی اسکیموں کو بھی شامل کیا گیا ہے، گبین جبہ سڑک سوات کی مرمت و بحالی جبکہ رستم مردان میں بیڑوچ سڑک کی تعمیربھی اے ڈی پی کا حصہ ہوگی۔آئندہ مالی سال کے دوران امبریلا اسکیموں کے ساتھ صوبے کے ہر حلقے کے نام سے سڑکوں کی اسکیمیں بھی شامل کی جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔