سانحہ ماڈل ٹائون: تاحال انصاف نہ ہوا

علی احمد ڈھلوں  بدھ 19 جون 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

17جون گزرگیا ، وہ ساری یادیں تازہ ہوگئیں جب ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’شب خون‘‘ مارا گیا، پولیس نے باپردہ ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے حجاب کی بھی پرواہ نہیں کی، ان کے چہروں پر تھپڑ مارے گئے ، احتجاج کرنے والے کئی افراد کو ’’غائب ‘‘ کر دیا گیا، ان پر مقدمات درج کردیے گئے، اُن میں سے متعدد کے تو پیشیاں بھگت بھگت کر گھر ہی اُجڑ گئے۔

سہمی ہوئی صنعتی و سیاسی جمہوری اشرافیہ غلطی پر غلطی کیے جارہی تھی ، مشکوک کردار کے لوگ پولیس میں بھرتی کیے جارہے تھے۔گلوبٹ جیسے کارکنوں کو استعمال کیا جا رہا تھا۔ سیاسی مخالفین کے خلاف گیارہ گھنٹوں پر مشتمل اس آپریشن میں خواتین اور بوڑھوں کو  بھی نہ بخشا گیا ۔ حکومت کہتی رہی کہ وہ مسلح تھے، پولیس  نے اپنے دفاع میں کام کیا،یعنی جھوٹ  بول کر معاملے کو طول دیا جاتا رہا۔ پولیس اہلکار ’’مشن کی کامیابی‘‘ پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے رہے۔

الغرض کیمرے کی آنکھ نے سب منظر دکھائے مگر مجال ہے کہ سانحہ کے ذمے داروںکو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ یہ تو دور کی بات ہے یہاں تو کیس ہی آگے نہیں بڑھنے دیا گیا۔ حکومت خود ہی کمیشن بناتی اور خود ہی رپورٹ دبا لیتی اور کہا جاتا ہے کہ یہ عوامی اور ملکی مفاد میں نہیں۔ پھر زیادتی یہ کہ لواحقین پر ہی مقدمے درج کر دیے گئے۔

مسئلہ یہ نہیں کہ اس سانحہ کے ابھی کتنے راؤنڈز باقی ہیں اور آخری راؤنڈ کب آئے گا؟ مسئلہ یہ ہے کہ قصوروار کب سامنے آئیں گے؟مسئلہ یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت نے بھی اس سانحہ کے قصور واروں کو  بے نقاب نہ کیا تو اس حکومت کو ناکام ہی کہا جائے گا۔ چلیں مان لیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کاانصاف کرنا اور غیرجانبدار تفتیش کرانا سابق حکمرانوں کی ذمے داری تھی کیونکہ الزام ان پر تھا، اگر سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف یا ان کے وزراء اس سانحہ میں بلواسطہ یا بلاواسطہ ملوث نہیں تھے تو وہ غیر جانبدار تفتیش سے خوفزدہ کیوں تھے؟

سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے میڈیا کے روبرو یہ بھی اعلان کیا کہ اگر جوڈیشل کمیشن نے ان کی طرف یا ان کی حکومت کی طرف اشارہ بھی کیا تو وہ بلاتاخیر عہدہ چھوڑ دیں گے ، پھر جب جسٹس باقر نجفی کمیشن نے اپنی تحقیقات رپورٹ جمع کرائی تو اس وقت کی پنجاب حکومت نے اسے تسلیم کرنے اور پبلک کرنے سے انکار کر دیا،  شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی طرف سے مسلسل 5سال سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ سانحہ کی غیر جانبدار تفتیش کرائی جائے مگر اس مطالبے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ لگ تو یہ رہا ہے کہ شاید چند روز میں یہ سانحہ بھی قصہ پارینہ بن جائے گا لیکن کب تک؟ آخر کار وہ وقت بھی آجائے گا جب گلوٹینیں ہوں گی اور عوامی عدالتیں ہوں گی۔

لہٰذااس سے پہلے کہ عوامی عدالتیں لگیں ہمیں کم از کم اُن سانحات کی انکوائریاں کر لینی چاہئیں جن میں ریاست نے ظلم کیا ۔ مجھے قوی اُمید تھی کہ سابق دبنگ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اس حوالے سے اقدامات اُٹھائیںگے ، اُن سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی مقتولہ تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد سے لاہور رجسٹری میں ملاقات ہوئی اور غیر جانبدار تفتیش کے لیے قانونی تقاضوں کے بعد قانونی مدد دینے کا وعدہ کیا گیا، پھر سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے بسمہ امجد کی غیر جانبدار تفتیش کے لیے دی جانے والی درخواست کی سماعت کی، سماعت کے دوران لارجر بنچ نے پنجاب حکومت سے موقف مانگا تو پنجاب حکومت نے نئی جے آئی ٹی بنانے پر آمادگی ظاہر کی اور یوں سپریم کورٹ کے لارجر  بنچ کے سامنے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی جے آئی ٹی تشکیل دینے پر اتفاق ہو گیا، بعدازاں اس فیصلے کے خلاف اسٹے آرڈر آگیا ،جس وقت جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روکا گیا، اس وقت تک جے آئی ٹی  اپنا 90فیصد سے زائد کام مکمل کر چکی تھی۔

اب یقین مانیں دل خون کے آنسو روتا ہے کہ اس سانحہ کا کوئی تو ذمے دار ہوگا؟ 5سال گزرنے کے بعد بھی علم نہ ہوسکا کہ ماڈل ٹاؤن میں بندے مارے کس نے ہیں۔

ابھی تک علم نہیں ہو سکا کہ اتنی تعداد میں گولیاں برسا کر کون چلا گیا۔ موجودہ حکومت کو بھی ایک سال ہونے کو ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد اس کیس پر کوئی فرق پڑے گا مگر ہر طرف پراسرار خاموشی دکھائی دیتی ہے۔ اور لگ یہی رہا ہے کہ اگلے پانچ سال بھی مقتولین کے ساتھ انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے۔اگر توقع ہوتی تو اب تک کچھ نہ کچھ ہو چکا ہوتا ہے ۔ لہٰذااس چیز سے ہٹ کر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ذمے دار کوئی بھی ہو، اسے قانون کے مطابق سزا ضرور ملنی چاہیے۔فی الوقت تو کوئی شخص بھی اس معاملے پر سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا ۔

اس وقت شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا  صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی از سر نو تفتیش کی جائے جو نہیں ہونے دی جا رہی، یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جب تک شریف برادران برسراقتدار تھے اس وقت تک غیر جانبدار جے آئی ٹی نہیں بننے دی گئی، اب انھیں اقتدار سے الگ ہوئے ایک سال ہونے کو آیا اور تاحال تفتیش نہیں ہو سکی، آخر کیا وجہ ہے کہ انصاف کی طرف پیشرفت بھی نہیں ہو سکی؟

مجھے پاکستان عوامی تحریک سے کوئی غرض نہیں ، نہ میں اُس کا نمایندہ ہوں۔ مگر ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ حکومت اُن 14پاکستانیوں کے بارے میں ضرور سوچے کہ وہ بھی پاکستان ہی کے شہری تھے۔ وہ بھی اسی جھنڈے تلے ایک تھے۔جنھیں ریاستی مشینری نے کچل دیالہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران خصوصاََ پنجاب حکومت اُن افراد کو کڑی سزا دے جو اس خونریزی کے ذمے دار تھے ۔ اگر حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ اندرخانے کوئی شاید کوئی ڈیل ہوجائے تو ایسا ہر گز نہیں ہوگا، اس لیے حکمران طبقہ جان لے کہ ایسا کرنے سے وقتی طور پر تو جان چھوٹ جائے گی لیکن انھیں جلد ہی اس امتحان سے گزرنا ہوگا۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، یہ امتحان سخت سے سخت تر ہوتا چلا جائے گا ۔

کیا موجودہ حکومت کے پاس ایک واقعے کی انکوائری کرنے کے لیے ایک سال کم تھا؟ کس کو کہاجائے، کس کو  بلایا جائے ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔