دنیا اب یونی پولر نہیں رہی

جمیل مرغز  بدھ 19 جون 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

شنگھائی تعاون کونسل کے اجلاس کے دوران بھی روس اور چین کے صدور ماحول پر چھائے رہے ‘اس سے قبل روس میں حال ہی میں ایک بہت بڑا معاشی میلہ سجایا گیا ‘یہ سالانہ سینٹ پیٹرز برگ اکنامک فورم ‘‘کا میلہ تھا اور شرکاکے لحاظ سے یہ فورم سوئیٹزر لینڈ کے ’’ورلڈ اکنامک فورم‘‘ سے بڑا تھا۔

اس فورم میں چین کے صدر نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی ‘اگر چہ اس فورم کا مقصد تاجروں اور صنعت کاروں کو روس میں سرمایہ کاری کے لیے ترغیبات دینا تھا ‘لیکن اس موقعہ پر روس اور چین کے رہنماؤں نے اپنی تقریروں میں یہ باور کرا دیا ہے کہ ان دونوں ملکوں کا تعاون دنیا کے استحکام کے لیے لازمی ہے‘ کیونکہ امریکا نے دنیا میں ہر طرف گند پھیلایا ہوا ہے‘ اس میلے میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اورچین کے صدر شی جن پنگ نے جو لہجہ اور بیانیہ اختیار کیا ‘وہ اس امر کی دلالت کرتا ہے کہ دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔

روس کے صدر پیوٹن نے تو اپنے خطاب میں دنیا پر امریکی بالادستی کو انسانیت کے مستقبل کے لیے خطرہ قرار دیا‘ انھوںنے روس اور یورپ کے درمیان گیس پائپ لائن کو روکنے کی امریکی کو ششوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ یہ ان قوتوں کے مفاد کے خلاف ہے جو اپنے بل دوسروں سے ادا کرتے ہیں‘ان کا کہنا تھا کہ صریح نا انصافی پر مبنی کوئی بھی نظام مستحکم اور متوازن نہیں رہ سکتا‘روسی صدر کا یہ خطاب نہ صرف امریکا کو طویل عرصے بعد چیلنج کرنے کا بیانیہ ہے بلکہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ دنیا میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں ایک نیا بلاک بن رہا ہے۔

چین کے صدر نے روس کو اپنا اسٹرٹیجک شراکت دار قرار دیا ‘انھوں نے یہ کہہ کر دنیا کو حیران کردیا کہ گزشتہ 6برسوں میں ان دونوں نے 30مرتبہ ملاقات کی ہے ‘دوسری طرف یہ رپورٹیںبھی ہیں کہ چین نے اعلان کیا ہے کہ امریکی پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے چین کا بینک ایران کے ساتھ کام کرے گا۔

1991میں سوویت یونین کے ٹوٹنے پر مغربی سامراجی خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے ‘ایک مارکسسٹ دانشور نے 1991کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’آج یہ سامراجی بیہودہ جشن کے نشے میں دھت ہیں‘یہ نہیں جانتے کہ روس میں سوشلزم کے خاتمے کے بعد سرمایہ داری پروان چڑھے گی ‘سرمایہ دارانہ روس ایک قوم پرست اور جارحانہ طاقت کے طور پر ان کے لیے وبال  جان بن جائے گا ‘‘۔

یوکرائن میں ہونے والے واقعات اور کریمیا کا روس کے ساتھ الحاق مغربی سرمایہ داری کے زوال اور بے بسی کی عکاسی کرتا ہے ‘روس کے عوام اپنی عظمت رفتہ کو یاد کرکے غصے میں تلملاتے ہیں اور اس حالت میں جب سامراجی قوتیں روس یا اس کے سابقہ اتحادیوں کے خلاف حرکت میں آتی ہیں تو حکومت اور عوام دونوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔

بہت عرصے سے سامراجی طاقتیں روس کو آخری حد تک دیوار سے لگانے کی سازشیں کر رہی ہیں‘ان کو اس بات پر حیرانی نہیں ہونی چائیے کہ روس میں دوبارہ زندگی کے آثار نظر آرہے ہیں ۔پروشیا کے جنگی بادشاہ فریڈرک دی گریٹ کی مشہور کہاوت ہے کہ ’’ جو لوگ سب کچھ بچانے کی کو شش کرتے ہیں وہ کچھ بھی نہیں بچا پاتے‘‘۔ہر نوجوان افسر کو فریڈرک کی یہ بات اپنے پلے باندھنی چائیے‘ 1991 میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد جب مغربی طاقتیں اور ناٹو طاقت کے نشے میں سرشار تھیں اور پورے سوویت یونین کو ہڑپ کرنے کے منصوبے بنا رہی تھیں تو اس وقت بعض جنگی اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے ناٹو کو مشورہ دیا تھا کہ ’’مشرق کی طرف روسی سرحدوں کی طرف زیادہ نہ بڑھیں ‘یہ پل بہت خطرناک ہے‘‘۔

سوویت یونین کے سیکریٹری جنرل میخائیل گورباچوف نے اس بات سے تو اتفاق کرلیا تھا کہ باغی مشرقی جرمنی کو سوشلسٹ بلاک سے نکلنے کی اجازت دے دے لیکن ساتھ ہی ناٹو نے یہ وعدہ بھی کر لیا کہ ناٹو افواج مشرق کی طرف سوویت یونین کے اتحادی مشرقی یورپ کے ممالک اور کاکیشیا کے علاقوں میں مداخلت نہیں کریں گی ‘امریکا اور ناٹو نے اس امر سے اتفاق کیا تھا لیکن روس کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے جلد ہی اپنے وعدوں سے پھر گئے ‘پچھلے کچھ سالوں کے واقعات اس امر کے گواہ ہیں کہ امریکی سامراج نے روس کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا ‘ان سازشوں اور اقدامات نے واقعی روسی قوم پرستی کو جگا دیااور روسی ریچھ کو خواب غفلت سے بیدار کردیا۔‘

ناٹو کی پیش قدمی  جاری رہی ‘ مشرقی یورپ‘بالٹک کی ریاستوں ‘کاکیشیا کی پہاڑی ریاستوں ‘سابقہ سوویت سینٹرل ایشیاء کی ریاستوں میں مداخلت کی وجہ سے‘ امریکی کی قیادت میں مغربی ممالک اور ناٹو عملی طور پر روسی سرحدوں تک پہنچ گئیں۔

انھوں نے اعلان بھی کیا کہ روسی سرحد پر پولینڈ میں امریکی میزائل اور میزائل شکن نظام نصب کی جائیں گی ‘ اس سے اس کے دو مقاصد تھے ایک تو روس کو مکمل بے دست و پا کرنااور دوسری اس کو ایران اور شام کی حمایت کی سزا دینا اور اپنی شام کی سبکی کا بدلہ لینا بھی تھا ‘امریکا کی یہ کوشش اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوئی اور کریملن کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا ‘اب تو سامراجی طاقتوں کے سامنے روسی حکومت ہر مسئلے میں اس طرح مزاحمت کر رہی ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دو قطبی دنیا (Bipolar)اور سرد جنگ کا زمانہ دوبارہ آگیا ہے ‘آج کل پھر خبریں گرم ہیں کہ یوکرین کے مشرقی علاقوں میں روس کے ساتھ الحاق کے حامیوں نے اپنی جدوجہد تیز کردی ہے۔

18مارچ 2017کو ماسکو میں ڈوما (پارلیمنٹ)کے سامنے فیصلہ کن تقریر کرتے ہوئے روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کریمیا کو روسی تحویل میں لینے کا اعلان کیا ‘16مارچ کوکریمیا میں ہونے والے ریفرنڈم میں عوام کی اکثریت نے روسی فیڈریشن کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دیا تھا ‘صدر پیوٹن کی تقریر کے فوراً بعد کریمیا کی حکومت نے روس کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر دیے۔

روس پر امریکا اور یورپی یونین کی ’’ وارننگ ‘‘ اور دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہوا ‘اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا دورہ ماسکو بھی بالکل علامتی تھا کیونکہ روس کے پاس سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار موجود ہے ‘ روس کی حمایتی افواج کریمیا پر اپنی گرفت مضبوط کر چکی تھیں‘جب کہ یوکرائن کی حکومت نے کریمیا میں موجود اپنے 22ہزار فوجیوں کا انخلاء مکمل کرلیا ‘پیوٹن کی ڈوما میں اور پھر جشن فتح کی پریڈ میں تقریر ‘خطے میں مغرب کی بڑھتی ہوئی مداخلت سے بے زار ی اور غصے کی عکاس ہے ‘انھوں نے واضح طور پر کہا کہ ’’یورپی یونین اور امریکا نے ہم سے بار بار جھوٹ بولا ‘مشرق میں ناٹو کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور ہماری سرحدوں پر فوجی تنصیبات کی تعمیر اسی فریب کی کڑیاں ہیں‘یہ لوگ ہمیں دیوار سے لگانا چاہتے ہیں کیونکہ ہم آزادانہ تشخص رکھتے ہیں‘ ہم سیدھی بات کرتے ہیں‘ ہم ان کی طرح منافق نہیں ہیں ‘لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور یوکرین میں مغربی طاقتوں نے وہ حد عبور کی ہے ‘ آج یہ بات واضح ہونی چائیے کہ روس عالمی سطح کے معاملات میں ایک اہم فریق ہے‘ہمارے اپنے مفادات ہیں جن کا احترام کیا جانا چائیے‘‘۔انھوں نے امریکا کو وارننگ بھی دی کہ وہ دنیا کو یک قطبی (Uni Polar  بنانے کی کوشش نہ کرے۔

سوویت یونین کے انہدام نے روس‘وسطی ایشیاء اور مشرقی یورپ کے عوام کو برباد کرکے رکھ دیا ہے‘ تاریخی طور پر یہ آگے کے بجائے پیچھے کی طرف قدم تھا ‘منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کے بعد ان ملکوں میں جرائم اور کرپشن پر مبنی سرمایہ داری استوار ہوئی ہے ‘سوویت دور میں تعلیم‘ علاج‘ رہائش اور بجلی کی مفت سہولیات اب ماضی کا قصہ بن چکی ہیں‘ یورپ اور امریکا میں یہ تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ نئی ابھرتی ہوئی روسی فوج کہیں یوکرین کے مغرب میں واقع مالدوہ‘ بالٹک کی ریاستوں ‘یہاں تک کہ پولینڈ کو بھی حاصل نہ کرلے‘ مغرب ابھی تک سرد جنگ کے مسائل سے باہر نہیں آسکا۔

مغربی طاقتوں کو نہ صرف تشویش ہے بلکہ ان کو یہ احساس بھی ہے کہ اگر روسی افواج اپنی سابقہ دائرہ اثر والے ممالک پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہیں تو ان کے پاس اس حملے کو روکنے کے لیے کافی وسائل موجود نہیں ہیں‘سخت باتیں کرنا آسان ہوتا ہے لیکن روس کے کسی ممکنہ حملے سے مشرقی یورپ کو بچانا مشکل ہوگا‘سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ روس کے حساس سرحدوں تک ناٹو اور امریکی وعدے اور گارنٹی تو جاتی ہے لیکن ان کی فوجی صلاحیت وہاں تک نہیں پہنچتی ‘اس کا مطلب یہ ہے کہ بغیر کسی صلاحیت کے وعدے کرنا۔ امریکی سامراج کی حرکتوں کی وجہ سے روسی قوم ایک دفعہ پھر خواب غفلت سے بیدار ہو گئی ہے اور امریکا کادنیا کو ’’ یک قطبی ‘‘بنانے اور خود ’’واحد سپر پاور‘‘ بننے کا خواب اب تشنہ تکمیل رہے گا ۔

مغرب کے تھنک ٹینکس نے تقریباً ایک عشرہ قبل ہی یہ پیشن گوئی کی تھی کہ ’’یونی پولر ورلڈ‘‘ کا خاتمہ ہو رہا ہے اور سرد جنگ کے عہد کی طرح دنیا پھر دو بڑے بلاکس میں تقسیم ہو رہی ہے ‘دنیا کا سب سے طاقتور بلاک ‘روس‘ چین‘ایران ‘شام اور لاطینی امریکی ممالک کا بن رہا ہے‘ دوسری طرف معاشی میدان میں ڈالر کے مقابلے میں (BRICS)کا معاشی اتحاد بھی مضبوط ہو رہا ہے ‘ناٹو کا ممبر ترکی بھی ‘امریکی مخالفت کے باوجودروسی میزائیل خریدنے میں سنجیدہ نظر آرہا ہے ‘روسی مداخلت نے وینزویلا میں بھی امریکی سازشوں کا مقابلہ کیا ہے ‘شام میں بشارا لاسد حکومت کا استحکام امریکا اور اس کے اتحادی سعودی عرب کے سینے پر بوجھ بنا ہوا ہے‘شام اور وینزویلا میں امریکی سازشوں کی ناکامی اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا اب یونی پولر یا ‘‘یک قطبی‘‘نہیں رہی بلکہ ملٹی پولر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔