یہ ہے ہمارا پاکستان

عبدالقادر حسن  بدھ 19 جون 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان میں جب بھی کوئی بااثر شخص قانون کی گرفت میں آتا ہے تو ہر طرف شوروغوغا برپا ہو جاتا ہے، ہاہاکار مچ جاتی ہے، اس کے حواریوں کے علاوہ وہ دشمن بھی اس کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں جن کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگلی باری ان کی ہو گی۔

پاکستان کی قسمت میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ اس کے کرتا دھرتا وہ لوگ ہوں گے جو اس ملک کو لوٹ کر کھا جائیں گے، یہ وہ لوگ تھے جن کا قیام پاکستان کے وقت کوئی وجود نہیں تھا بلکہ اس ملک نے ان کو شناخت دی، ان کو نام دیا ،عزت دی ،انھوں نے اسی ملک سے پیسہ کمایا اور پھر اسی ملک کے لوگوں نے ان کو حکمران بھی بنایا اور ان لوگوں نے حکمران بننے کے بعد اس ملک سے وہ بدلے لیے جن کی ہوشرباء داستانیں ہم سب سن اور دیکھ رہے ہیں۔

شائد اس ملک نے ان کے ساتھ کوئی زیادتی کی تھی جس کا انھوں نے اس سے بدلہ لیا بلکہ مسلسل بدلہ لے رہے ہیں جس کا جتنا داؤ چلتا ہے وہ اتنا لوٹ لیتا ہے اور پھر جب اس کی پوچھ ہوتی ہے ان کی دم پر پاؤں آتا ہے تو یہ لوگ بلبلانا شروع کر  دیتے ہیں اور اس بات کا واویلہ شروع ہو جاتا ہے کہ ان سے زیادہ تو اس ملک کا کوئی خیر خواہ نہیں، ان کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے اور ان کو جان بوجھ کر انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔

اگر دیکھا جائے تو ان لوگوں سے زیادہ اس ملک کا کوئی بدخواہ نہیں، یہ لوگ اس ملک کو لوٹ کر کھا گئے اور لوٹ مار کا پیسہ ملک میں رکھنے کے بجائے غیر ملکوں میں لے گئے اور ان ملکوںکی معیشت کو مضبوط کیا بلکہ اب تو یہ فخر سے کہا جاتا ہے کہ فلاں سیاستدان کا بیٹا فلاں ملک کے چند بڑے سرمایہ کاروں میں شامل ہوتا ہے یعنی حکمرانی پاکستان پر کرو ، یہاں پر لوٹ مار کرو اور اس لوٹ مار سے کاروبار اور عیاشی غیر ملکوں میں جا کر کرو ۔ یہ وہ لوگ ہیںجو اپنے آپ کو اس ملک کے خیرخواہ کہتے ہیں اور ان کے دل و جان پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں حالانکہ جب ان کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوتی ہے تو پھر ان کو پاکستان سے باہر جا کر اپنی دھڑکن کو درست کرنے کا موقع ملتا ہے۔

یہ صرف اپنے خیرخواہ ہیں اور پاکستانی عوام کو بے وقوف بنا کر اپنا مطلب نکالتے ہیں اور مطلب نکالنے کے بعد چلے جاتے ہیں ۔ ان کی خیر خواہی کی داستانیں زبان زد عام ہیں ۔ ان کو یہ معلوم نہیں کہ پاکستان کے اصل خیر خواہ تو ا س ملک کے عوام ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا اسی ملک میںہے۔ انھوں نے یہی جینا اور مرنا ہے، اسی ملک میں تعلیم حاصل کرنی ہے اور اسی ملک میں اپنا علاج معالجہ کرنا ہے، ان کی محبت اپنی مٹی کے ساتھ انمٹ اور انمول ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے آباؤ اجدادنے قربانیوں کے بعد اس ملک کو حاصل کیا مگر غلطی یہ کر بیٹھے کہ اپناحکمران ان لوگوں کو چن لیا جنھوںنے پہلے دن سے پاکستان کے ساتھ وفاداری نہیں کی ۔ اس ملک نے اپنے حکمرانوںکو کیا نہیں دیا، ان کو وہ شناخت دی جس کے وہ حقدار بھی نہیں تھے مگر انھوں نے اس شناخت کی واپسی اس ملک کے وسائل کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھر کر دی اور اب یہ گلہ کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی اور انصاف نہیں ہورہا۔

میں ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور ایک ایسا زمیندار ہوں جو اپنے گاؤں میں سب سے زیادہ زمینوں کا مالک ہونے کے باوجود اپنی غیرحاضری کی وجہ سے اتنا کما نہیں پاتا جس سے لاہور میں بیٹھ کر اپنا خرچ چلا سکوں مگر اس ملک نے مجھے ایک شناخت دی ہے، مجھے اس قابل بنایا ہے کہ میں اپنے قارئین کی رہنمائی کر سکوں یعنی دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ میرے ملک کی مٹی نے مجھے جتنی شناخت اور عزت دی ہے اس کا قرض میں شائد اپنی زندگی میں ادا نہ کر سکوں مجھے اس ملک سے کوئی شکوہ و شکایت نہیں کیونکہ یہ میرا اپنا ملک ہے، میں یہیں پیدا ہوا اور میں نے اسی کی مٹی میں آسودہ خاک ہونا ہے۔

مجھے کسی غیر ملک میں علاج کی سہولت میسر نہیں نہ ہی میرا کسی غیر ملک میں کوئی بینک اکاؤنٹ یا کوئی رہائشی عمارت ہے، میرا جو کچھ ہے وہ اسی ملک میںہے اورمیرے جیسے بیشتر پاکستانیوں کا یہی حال ہے۔ وہ اپنی مٹی سے پیار کرتے ہیں اور ان کا اوڑھنا بچھوڑنا یہی ملک ہے ۔ صرف اشرافیہ کے کچھ مخصوص لوگ ہیں جو کہ پاکستان پر کسی بھی غیر ملک کو ترجیح دیتے ہیں اور اس بات پر اتراتے ہیں کہ فلاں ملک میں ان کی رہائش ہے اور وہاں پر ان کے کاروبار ہیں اور وہ اس ملک کے شہری بھی ہیں۔ یہ دوغلے لوگ ہمارے حکمران بن بیٹھتے ہیں اور ان کو ہم ان منصب پر ہم خود ہی بٹھاتے ہیں اور یہ دوغلے لوگ جب اس منصب پر بیٹھتے ہیں تو اپنے دوغلے پن کی وجہ سے اس ملک کی جڑیں کاٹتے ہیں اور اپنے سبز پاسپورٹ کے بجائے کسی سرخ یا نیلے پاسپورٹ کو اپنے سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔

اس طبقہ میں پاکستان کے سیاستدانوں کے علاوہ ہر طرح کے لوگ شامل ہیں ، ان میں ہمارے ملک کے ہر ستون کے نمایندگی موجود ہے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ جب پوچھ گچھ کا مرحلہ آتا ہے تو یہ لوگ اپنے نیلے پیلے پاسپورٹوں کا سہارا لے لیتے ہیں اور اپنے آپ کو پاکستانی قانون سے بالاتر قرار دیتے ہیں،  یعنی مزے پاکستان میں لوٹو اور جب اس کی پڑتال ہو تو کسی اور ملک کے شہری بن کر اس کے قانون کے پیچھے چھپ جاؤ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی اولاد کے قول و فعل کے ذمے دار نہیں اور انھی پر پاکستانی قوانین لاگو نہیں ہوتے۔

کیا بدقسمتی ہے کہ جس ملک میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے، جوان ہوئے جس ملک کے قومی ترانے کے ساتھ اسکول میں اپنی صبح کا آغاز کرتے رہے، اب اسی ملک کے قانون ان پر لاگو نہیں ہوتے۔ قوم کو اپنے درمیان موجود ان لوگوں کو پہچاننے کی اشدضرورت ہے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیںجو اس ملک میں ترقی نہیں ہونے دیتے ، اس کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ صرف خود پھل کھانا چاہتے ہیں اور ان پھلوںکی گٹھلیاں بھی عوام کو دینے کے حق میں نہیں۔ کیا یہ لوگ اس ملک اور اس قوم کے ساتھ مخلص ہو سکتے ہیں، میرا جواب تو نفی میں ہے، آپ کا کیا جواب ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔