دل کے لیے دال مفید مگر جیب کے لیے؟

سعد اللہ جان برق  بدھ 19 جون 2019
barq@email.com

[email protected]

اب تک تو آپ ہمارے بارے میں جان چکے ہیں کہ ہم محقق ہیں اور وہ بھی ملک کی ٹاپ اکیڈمیوں اور تفتیشی اداروں کے تربیت یافتہ اور ساتھ ہی ساتھ ہم پڑھاکو بھی بہت ہیں۔ اخبارات میں سیاسی لیڈروں کے بیانات کو چھوڑ کر باقی سب کچھ پڑھ لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ گھریلو ٹوٹکے اور خوش ذائقہ پکوانوں کی تراکیب بھی۔

یہ الگ بات ہے کہ ان ’’تراکیب‘‘ کو ہم آج تک استعمال نہیں کر پائے ہیں کیونکہ ان میں جو اجزاء وغیرہ ہوتے ہیں انھیں خریدنے کے لیے ہمارے پاس صرف یہی ’’گھر‘‘ ہی ہے اور اگر اسے بھی کسی خوش ذائقہ پکوان مثلاً گوشت کا حلوہ، کریلے کا مربہ یانیم کے پتوں کا اچار کے لیے بیچ دیا جائے تو پیٹ تو بھر جائے گا لیکن گھر خالی کرنا پڑے گا۔

اسی طرح طبی مشورے اور خصوصاً آج کل کی نئی نئی طبی خبریں جن میں امریکا جاپان چین کے کسی ماہر سائنس دان نے کہا ہوتا ہے کہ پانی صحت کے لیے بہت اچھا ہے کیونکہ دیگر فوائد کے علاوہ اس سے پیاس بھی بجھائی جا سکتی ہے، منہ ہاتھ بھی دھوئے جا سکتے ہیں اور بطور خاص پاکستانی لیڈروں اور سرکاریوں کے لیے مخصوص یہ فائدہ بھی کہ چلو بھر پانی میں ڈوب کر خلق خدا پر احسان بھی کیا جا سکتا ہے، ایسی ہی ایک چھوٹی سی خبر نے ہمیں بہت بڑی سی جانکاری دی ہے بلکہ خود خبر ہی اتنی مزیدار ہے کہ آدھی صحت تو خبر پڑھ کر ہی اچھی ہو جاتی ہے، آپ بھی پڑھیے، ’’دالیں دل کے لیے فائدہ مند۔‘‘

خبر میں نیچے کولیسٹرول کے پورے خاندان کی گواہی سے ثابت کیا گیا ہے کہ دال، دل کے لیے دل دل جاں جاں پاکستان ہے۔ خبر پڑھنے کے بعد ہمیں خوشی کے ساتھ ساتھ اپنے آپ پر بھی سخت غصہ آیا کہ ’’دال اور دل‘‘ کی اتنی قربت کا پتہ بھی ہمیں امریکا کے سائنس دان دے رہے ہیں حالانکہ دال اور ہم بلکہ دال دل اور ہم ایک دوسرے کے سب سے زیادہ قریب ہیں بلکہ پشتو میں تو خاندان کا ایک اور ’’دل‘‘ (dal) بھی ہے لیکن اس نے اردو میں جا کر اپنا نام ’’دلیا‘‘ رکھ لیا ہے۔ دال، دل اور دلیا۔ تینوں کو ملا کر شاید دُلدل (dul,dul) بھی بنایا جا سکتا ہے اور دلدل (dal dal) بشرطیکہ کوئی اچھا دلدل کوشش کرے تو دلدل میں بھی دُلدل دوڑا سکتا ہے۔

اچھا ہوا کہ امریکا والوں نے ’’دال‘‘ کو دل کر کے صحت کا دلیا بنا دیا ہے ورنہ ہمارے بزرگوں کے دل میں تو ’’دال‘‘ کے لیے دلدل کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ ایک حکایت یا افسانہ بھی اس بارے میں ہے کہ ایک شخص اپنے گھر میں روزانہ ’’دال‘‘ کھا کھا کر ’’ڈل‘‘ ہو گیا چنانچہ گھر سے وہ دلدل بن کر بھاگا اور ایک ہوٹل میں پہنچا۔ وہاں اسے جو کھانا دیا گیا اس میں بھی’’دال‘‘ تھی۔ ایک زمانے میں پشتونوں کے ہاں ’’دال‘‘ کو نہایت ہی ناپسندیدہ چیز سمجھا جاتا تھا اور اسے ’’غلے کو غلے‘‘ کے ساتھ کھانا کہتے تھے۔ بلکہ گھر کی مرغی یعنی بیوی کو بھی ’’دال برابر‘‘ سمجھ کر اور مارمار کر ’’دل‘‘ کرتے تھے۔ لیکن شاید ’’دال‘‘ نے خدا کے حضور فریاد کی ہو گی، شاید علامہ اقبال کو اپنا نمایندہ بناکر یا ان کی نظم حقیقت حسن سے متاثر ہو کر کہ:

خدا سے ’’دال‘‘نے اک روز یہ سوال کیا

جہاں میں تو نے مجھے کیوں ’’آل ان آل‘‘ کیا

کہ ’’دال‘‘ کے بھی دن پھر گئے۔ دراصل اب تک ’’دال‘‘ کو یونہی سی چیز سمجھ کر سوداگروں نے اسے نظر انداز کیا ہوا تھا۔ کہ دال کا ’’دُلدل‘‘  تو بڑے کام کا دُلدل ہے اور اسے’’ہر دُلدل‘‘ میں دوڑایا جا سکتا ہے تو ’’دال‘‘ کو لے پالک بنا کر پیکٹ نشین کر دیا اور ’’لٹے لٹے اسٹور‘‘ بھی اس کے طرف دار ہو گئے اور دل کو ’’دلدل‘‘ سے نکال کر ’’دلدل سوار‘‘ کر دیا، امریکیوں کی اس چالاکی کو دیکھیے کہ وہ اس سے پہلے بھی دال کو دل سے قریب کر سکتے تھے لیکن نہیں کیا کیونکہ یہ ایک مشرقی پیداوار تھی۔ لیکن جب انھیں پتہ چلا۔ کہ ’’دال‘‘ عام لوگوں کی جیب کے دائرے سے باہر نکل گئی ہے تو اب اس میں طرح طرح کے ’’گن‘‘ پیدا کر رہے ہیں۔

ایسی خبریں اگر ان زمانوں میں آتیں تو مشرقیوں کے تو وارے نیارے ہو جاتے لیکن اس زمانے میں ان کو اپنی دوائیاں بیچنا تھیں، اس لیے دال کو دل میں چھپائے رہے۔ اور اپنے گھر کی سفید مرغی کو ہم پر سوار کرتے رہے کیونکہ یہ ’’دوائیوں‘‘ کی ہراول دستہ تھی۔ اور جب ہمیں ایڑی سے ناک تک اپنی مرغیوں اور دوائیوں سے بھر چکے تو اب مرغی دال سے بھی نیچے گرا کر گھر کی دال کو مرغی برابر کر دیا۔ ادھر دال بھی زمانے بھر کی بے اعتنائیوں سے بھری بیٹھی بھی اور اب جو پر مل گئے تو

’’دال‘‘ جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

’’پر‘‘ نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

لیکن اس لطیفے پر کسی نے دھیان ہی نہیں دیا ہے کہ جب دانت تھے تو چنے نہیں تھے اور جب دانت نہیں رہے تو ’’چنے‘‘ آ گئے۔ جب دال جیب میں تھی تو ’’دل‘‘ کوئی رشتہ نہیں اور اب جب ’’جیب‘‘ میں دال نہیں رہی ہے تو اس کے لیے ’’دل‘‘ دھڑکا رہے ہیں۔ پاکستانیوں کے ’’دلوں‘‘ میں اب رہا ہی کیا ہے دال نے روٹی اور روپے کے ساتھ مل کر ان کے ’’دلوں‘‘ کو چھلنی کیا ہوا ہے۔ گرنے کے بعد ہوش میں آئے تو کیا۔ کہ دال……

اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

کریدتے ہو جو اب ’’دال‘‘ جستجو کیا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔