حقائق جاننے کی کوشش

نصرت جاوید  بدھ 4 ستمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ابلاغ کے ہنر اور اس کے مختلف ذرایع کے فوائد اور قباحتوں پر علمی انداز میں غور کرنے والوں نے ٹیلی وژن کو Idiot Boxکہا تو اس کی ٹھوس وجوہات تھیں۔ محض صحافت کے حوالے سے دیکھیں تو خبروں والے چوبیس گھنٹے  مسلسل کوئی ایک بات اُٹھاتے ہیں تو اسے اس طرح دہراتے چلے جاتے ہیں کہ اکثر دودھ کے بجائے پانی کو مدھانی سے بلوتے ہوئے ملائی نکالنے کی کوشش رائیگاں کا گمان ہوتا ہے۔ جب سے ایم کیو ایم نے کراچی کو فوج کے حوالے کردینے کا مطالبہ کیا ہے ہر طرف کراچی، کراچی کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ بظاہر کوئی مسئلہ نظر نہیں آرہا۔ پاکستان کے اقتصادی مرکز اور آبادی کے حوالے سے سب سے بڑے شہر میں امن وامان کا قیام یقینا ایک بہت اہم مسئلہ ہے، اسے حل کرنا ضروری ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی چند سنگین مسائل اور معاملات ہیں، ان پر نگاہ رکھنا بھی ضروری ہے۔

پیر کا جو دن گزرا ہے اس روز وزیر اعظم کی صدارت میں حال ہی میں قائم ہونے والی قومی سلامتی کمیٹی کا ایک طویل اجلاس منعقد ہوا۔ سیاسی قیادت کے ساتھ تینوں مسلح افواج کے سربراہوں نے اس اجلاس میں شرکت کی۔ عرصہ ہوا میں نے رپورٹنگ کے اذیت ناک کام سے عملی طورپر جان چھڑارکھی ہے۔ مگر پیر کو جو اجلاس ہوا اس کے بارے میں حقائق جاننے کی تھوڑی بہت کوشش ضرور کی۔ میری معلومات کے مطابق اس طویل اجلاس میں قومی سلامتی جیسے اہم معاملہ پر تفصیلی بحث مباحثہ ہوا۔ کچھ ذرایع سے مختصر بات چیت کے بعد یہ دریافت ہوا کہ قومی سلامتی والی کمیٹی بس نشستند وگفتند والے اجلاس ہی منعقد نہ کیا کرے گی، اپنے تئیں ایک مکمل اور مستقل ادارہ بن جائے گی۔ اس کا ایک سیکریٹریٹ ہوگا جس کی نظامت قومی سلامتی یا خارجہ امور سے متعلقہ اداروں سے آئے کسی تجربہ کار افسر کو سونپی جائے گی۔

مجھے یہ اشارے بھی ملے کہ شاید کسی زمانے میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان محمد صادق جو ان دنوں افغانستان میں پاکستان کے سفیر ہیں اس کمیٹی کے سیکریٹری مقرر کیے جاسکتے ہیں۔ پیر کے اجلاس میں طے یہ بھی ہوا ہے کہ قومی سلامتی کو صرف عسکری حوالوں تک محدود نہ رکھا جائے۔ پاکستان کی معیشت، زراعت کی مجموعی صورتحال اور پانی کے وسائل بھی ہماری بقاء اور سلامتی سے پوری طرح جڑے ہوئے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کو اس امر کا اہتمام کرنا چاہیے کہ مندرجہ بالاشعبوں کے ماہرین آزادانہ تحقیقات کے ذریعے ان معاملات سے متعلق امکانات کا جائزہ لے کر کوئی لائحہ عمل تجویز کریں۔

پتہ نہیں کیوں مجھے یقین تھا کہ اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرنے والے میرے دوست کچھ اور تفصیلات کا کھوج لگانے کے بعد اپنی خبروں کے ذریعے قومی سلامتی کمیٹی کے اس نئے روپ کے بارے میں میری معلومات میں اضافہ کریں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ تقریباً تمام ساتھیوں نے بس چند سطری سرکاری خبررساں ایجنسی کی خبر پر انحصار کیا اور اپنی طرف سے کچھ طوطا مینا بنا کر حاشیہ آرائی میں مشغول دکھائی دیے۔ خبر کی پوری طرح کھوج لگائی جاتی تو یقینا سوالات اُٹھتے کہ آیا ہمارے ملک میں پہلے سے موجود قومی سلامتی اور خارجہ امور کے تمام ادارے قومی سلامتی کمیٹی کی چھتری تلے نیک نیتی سے اکٹھے ہوجانے پر تیار ہوگئے ہیں۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو کم از کم میں اس کے بار ے میں بہت شاد ہوتا۔ برسوںقومی سلامتی اور خارجہ امور کے بارے میں رپورٹنگ کرنے کے بعد میں سمجھا ہوں تو بس اتنا کہ ہماری قومی سلامتی کے بارے میں ان دنوں جو الجھنیں ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ایک دو اداروں نے بتدریج خود کو اس میدان کا عقل کل بنالیا۔ ان امور پر حاصل اجارہ داری کے سبب کبھی کبھار ایسے اداروں کے افسران کا رویہ سخت ہوجاتا ہے جو رپورٹروں اور سیاستدانوں کو شودروں جیسا کم عقل اور گنوار سمجھتے ہیں۔

ہمیں یہ بات بڑی دیانت داری سے تسلیم کرنا ہوگی کہ قومی سلامتی کے بار ے میں ہونے والے اعلیٰ ترین سطح کے اجلاسوں کی ساری باتیں وزیر اطلاعات یا کسی ترجمان کے ذریعے لوگوں کے سامنے نہیں لائی جاسکتیں۔ پاکستان مگر امریکا جیسی سپر پاور بھی نہیں۔ Bob Woodward جیسے لوگوں کی کتابیں پڑھ لیجیے۔ صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ انھیں حکومتی سطح پر اعتماد میں لے کر پورا سچ بتایا گیا۔ انھوں نے جو مناسب سمجھا اپنی خبروں میں احتیاط سے لکھ ڈالا۔ مگر آہستہ آہستہ اس مقام تک ضرور گئے جہاں لوگوں کو تفصیل سے بتاسکیں کہ جب افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد بڑھانے کا معاملہ اٹھا تو صدر اوباما کے کیا خدشات تھے، سی آئی اے کا تجزیہ کیا تھا اور پینٹاگون کی اس ضمن میں کیا رائے تھی۔ ہمارے ہاں تو ابھی تک اسامہ بن لادن کے خلاف کیے جانے والے آپریشن کو سمجھنے کے لیے بنائے جانے والی ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو سرکاری طورپر افشاء کیا جانا نصیب نہیں ہوا۔ امریکا میں لیکن اسی آپریشن پر دو سے زیادہ مستند سمجھی جانے والی کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں اور Zero Dark Thirtyجیسی فلم بن کر بھی مارکیٹ میں آچکی ہیں۔

ٹھوس حقائق کو مناسب حکمت عملی کے ساتھ لوگوں کے سامنے لایا جائے تو بالآخر فائدہ حکومتوں اور قومی سلامتی اداروں کا ہی ہوتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت تلخ ترین نتائج کو بھی ان حقائق کی روشنی میں برداشت کرلیتی ہے۔ ہماری طرح نہیں ہوتا کہ صدر اوباما شام پر حملہ کرنے کی تڑی دے ڈالے تو سڑکوں پر جلوس نکل آئیں اور قومی اسمبلی میں شاہ محمود قریشی جیسے جہاندیدہ اور لال حویلی والے عوامی جذبات کے یک وتنہاء وارث نواز حکومت کے وزیروں کو سوکنوں کی طرح طعنوں کا نشانہ بنائیں۔ میں اتفاق سے چار سے زیادہ بار شام گیا ہوں۔ آخری مرتبہ جنوبی لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کی رپورٹنگ کے دوران کئی بار بذریعہ سڑک لبنان سے شام اور شام سے لبنان گیا۔

مجھے حسرت ہی رہی کہ پاکستان میں بشار الاسد کا کوئی حامی یا شدید مخالف مجھے اپنی تحریروں یا کسی ٹی وی پروگرام میں اس ملک کے بارے میں کوئی نئی بات بتائے۔ ایسی بات جو امریکی یا دیگر غیر ملکی اخبارات میں نہ چھپی ہو۔ نئی بات تودور کی بات ہے۔ ہمارے عوام کی اکثریت شام کے بنیادی حقائق کے بارے میں بھی قطعی با خبر ہے۔ کتنے لوگوں کو پوری طرح علم ہے کہ بشار الاسد کون ہیں۔ ہمیں تو بس امریکا کی خدمت کا کوئی بہانہ چاہیے۔ آج کل جواز یہ ہے کہ عراق اور افغانستان کے بعد اب وہ ایک اور ’’اسلامی ملک‘‘ کو تباہ کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔