والد کے طفیل آج اس مقام پر ہوں

عارف محمود  جمعرات 5 ستمبر 2013
یہ کہانی ہے معروف ایتھلیٹ کراٹے ایکسپرٹ اور سماجی کارکن عمر خان اچکزئی کی جو بلوچستان کی ایک جانی مانی شخصیت ہیں۔ فوٹو: فائل

یہ کہانی ہے معروف ایتھلیٹ کراٹے ایکسپرٹ اور سماجی کارکن عمر خان اچکزئی کی جو بلوچستان کی ایک جانی مانی شخصیت ہیں۔ فوٹو: فائل

 یہ اَن تھک محنت، جستجو اور لگن کی انوکھی کہانی ہے، جو اپنے سامعین کو جذبے سے لیس کرتی ہے۔ اُنھیں آگے بڑھنے، کچھ کر گزرنے کی تحریک دیتی ہے۔

یہ کہانی ہے، معروف ایتھلیٹ، کراٹے ایکسپرٹ اور سماجی کارکن، عمر خان اچکزئی کی، جو بلوچستان کی ایک جانی مانی شخصیت ہیں۔

ایتھلیٹکس مقابلے بچپن سے اُن کی دل چسپی کا محور ہیں۔ اوائل عمری میں اُنھوں نے خود کو نیزہ اندازی، گولا اندازی اور فٹ بال جیسے سخت کھیلوں کے حوالے کر دیا تھا۔ پھر مارشل آرٹ فلموں نے متوجہ کیا۔ بروس لی اور جیکی چن نے اُنھیں مداح بنا لیا۔ شوق اوج پر پہنچا، تو خود کو فلم بینی تک محدود رکھنا مشکل ہوگیا۔ عملی میدان میں کود پڑے۔ یہ فن سیکھنا شروع کیا۔

شوق کی انگلی تھامے آگے بڑھتے گئے، اور بلیک بیلٹ، 8ڈان کا درجہ حاصل کیا۔ کیریر کے اوائل میں صوبائی مقابلوں میں خود کو منوایا۔ پھر ملکی سطح پر ہونے والے ٹورنامینٹس میں شرکت کی، جہاں سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی میدانوں کا رخ کیا۔ کئی مارشل آرٹ مقابلوں میں ملک کی نمایندگی کی، اور تمغے اپنے نام کیے۔ فن خود تک محدود نہیں رکھا۔ جو کچھ سیکھا، اُسے نوجوانوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا۔ اُن کے کئی شاگردوں نے ملکی و بین الاقوامی مقابلوں میں اپنے جوہر دکھائے۔

اِس وقت عمر خان ’’انٹرنیشنل کیوکوشن کراٹے آرگنائزیشن، پاکستان‘‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔ اِس ملک گیر تنظیم کا ہیڈکوارٹر کوئٹہ ہے۔ ساتھ ہی وہ ’’کیوکوشن کائی سوسائٹی، جاپان‘‘ کے عہدے دار ہیں۔ ’’کیوکوشن فیڈریشن پاکستان‘‘ کے جنرل سیکریٹری کا عہدہ بھی اُن کے پاس ہے۔ اپنے ساتھیوں اور اِس میدان میں فعال دیگر تنظیموں کے ساتھ وہ کک باکسنگ، فری اسٹائل کراٹے، جوڈو کراٹے، سیلف ڈیفینس، کیوکوشن کائی (Kyokushinkai) کراٹے اور شنڈوو (Shodan) کراٹے کی تربیت دیتے ہیں۔ ملک کا نام روشن کرنے والے اِس کھلاڑی کو تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا جاچکا ہے۔

حالاتِ زیست کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ عمر خان اچکزئی 1964 میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ ایک بہن، سات بھائیوں میں اُن کا نمبر تیسرا ہے۔ بچپن میں دیگر بچوں کے مانند شرارتی ضرور تھے، مگر دھیرے دھیرے کھیلوں کی دنیا شرارتوں سے دُور لے گئی۔ کوئٹہ ہی سے تعلیمی مراحل طے کیے۔ جہاں نباتیات کے مضمون میں ایم ایس سی کی سند حاصل کی، وہیں بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ماسٹرز کیا۔

کھیلوں میں دل چسپی والد سے وراثت میں ملی۔ اسکول کے زمانے میں فٹ بال سے دوستی ہوئی۔ بلوچستان کے مشہور فٹ بالر تاج سینیر اور تاج جونیر کی زیرنگرانی وہ فٹ بال کھیلا کرتے تھے، جن کی تربیت نے اُن کے فن میں نکھار پیدا کیا۔ فٹ بال کے علاوہ ایتھلیٹکس مقابلوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ خصوصاً نیزہ اور گولا اندازی کے مقابلوں میں خود کو منوایا۔ اُس دور کے گورنر جنرل، محمد موسیٰ مرحوم کے سامنے فن کا مظاہرہ کیا۔ آل اسکولز مقابلے میں، نیزہ اندازی کے شعبے میں پہلی، جب کہ گولا اندازی میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ آنے والے برسوں میں آل اسکولز اینڈ کالجز مقابلے میں قسمت آزمانے کا موقع ملا۔

اس بار بھی نیزے اور گولے کو پوری قوت سے پھینکا، اور تیسری پوزیشن اپنے نام کی۔ اُس زمانے میں ریلے ریس میں بھی حصہ لیتے رہے۔ رفتار نے یہاں بھی شناخت عطا کی، مگر پھر زندگی میں ایک موڑ آیا۔ یہ 1978 کا ذکر ہے، مارشل آرٹ فلمیں اُنھیں اپنی جانب کھینچنے لگیں۔ شوق اتنا بڑھا کہ یہ فن سیکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ تیزی سے تربیتی مراحل طے کیے۔81ء میں وہ بلیک بیلٹ ہوگئے، مگر ٹھہرے نہیں، آگے بڑھتے رہے۔ ملکی سطح پر کیوکوشن کائی کراٹے میں انھوں نے گولڈ اور براؤنز میڈلز حاصل کیے۔ پھر انٹرنیشنل میدانوں کا رخ کیا۔

ایران، انڈیا، سنگاپور، ملایشیا، جاپان اور بحرین میں لگنے والے کیمپسں میں پاکستان کی نمایندگی کی۔ وہاں بھی خود کو منوایا، تمغے لیے لوٹے۔ اس کام یابی کے بعد اسلام آباد اور کوئٹہ میں مختلف تنظیموں کی جانب سے اُن کی تاج پوشی کی گئی۔ حکومت ایران نے انھیں خصوصی ایوارڈ سے نوازا۔ نیپال نے بھی پاکستان کے اِس ہونہار سپوت کی خدمات کا اعتراف کیا۔ اُنھیں اعزازی ڈپلوما اور نشان سپاس پیش کیا گیا۔ اُنھوں نے نیپال میں 2003 میں منعقدہ سیکنڈ سارک ٹورنامینٹ میں پاکستان کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز اپنے نام کیا۔

اُن کے شاگرد بھی کم نہیں۔ نیپال میں ہونے والی چھٹی ایشین کراٹے چیمپیئن شپ میں اُن کے شاگرد، محمد اشرف نے سیکنڈ پوزیشن حاصل کی تھی۔ 95ء میں ٹوکیو میں ہونے والی ورلڈ کراٹے چیمپیئن شپ میں، جہاں 167 ممالک کے کھلاڑی شریک تھے، اُن کے شاگرد، عبدالمنان نے بہترین کھلاڑی کا اعزاز اپنے نام کیا۔ اِس بابت عمر خان کہتے ہیں،’’میں نے 80ء میں تربیت کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ پہلے طوبیٰ مسجد کے ہال میں سکھایا کرتا تھا۔ پھر ایک ریسٹورنٹ اور سائنس کالج، کوئٹہ کے ہاسٹل میں کراٹے کلاسز کا آغاز کیا۔ 87-88 میں ظریف شہید ہاسٹل میں کراٹے کی تربیت شروع کی۔‘‘ 97ء میں اُنھوں نے پرنس روڈ میں ایک ہال خرید لیا، تب سے وہیں سکھا رہے ہیں۔

عمر خان کے مطابق آج ان کے ساتھ آٹھ ایسوسی ایشنز ہیں، جس کے ارکان صبح سے شام تک نوجوانوں کو تربیت دیتے ہیں۔ ’’ہماری تنظیم، بین الاقوامی تنظیم کی شاخ ہے۔ پاکستان کی سطح پر اس کے 65 ہزار ارکان ہیں۔ بین الاقوامی ارکان کی تعداد 20 ملین کے قریب ہے۔‘‘ نہ صرف بلوچستان، بلکہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی اُن کے تربیتی مراکز کام کررہے ہیں، جہاں سے سیکھنے والوں نے بین الاقوامی میدانوں میں جھنڈے گاڑے۔

کہنا ہے،’’جاپان میں ہونے والی ورلڈ کراٹے چیمپیئن شپ میں ہمارے ایک اسٹوڈنٹ، جمیل شکیل نے، جن کا تعلق کراچی سے ہے، چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔ ایران میں ہونے والے ایک ٹورنامینٹ میں ہمارا اسٹوڈنٹ بہترین کھلاڑی قرار پایا۔ ایشین ٹورنامینٹ میں پاکستان نے تیسری پوزیشن اپنے نام کی۔

ایران میں ہونے والے لائٹ ویٹ، مڈل ویٹ اور اوپن ویٹ مقابلوں میں پاکستان کو نویں پوزیشن ملی۔ پونا میں 2003 میں ہونے والے مقابلوں میں پاکستان کے کھلاڑی، نذر محمد نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں بین الاقوامی معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے تربیت فراہم کی جارہی ہے، تاہم ہم مطمئن ہو کر نہیں بیٹھے، بلکہ مزید بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘

بہ طور کھلاڑی اور استاد ہی مصروف نہیں رہے۔ ایونٹس کا انعقاد بھی کیا۔ صوبائی اور ملکی سطح پر تو مقابلے منعقد کیے ہی، بین الاقوامی مقابلوں کا بھی اہتمام کیا۔ 2007 میں اُنھوں نے کوئٹہ میں انٹرنیشنل کراٹے ٹورنامینٹ کروایا، جس میں انڈیا، آزربائیجان، رومانیا، روس، افغانستان اور آزاد کشمیر کے کھلاڑیوں نے شرکت کی۔ یہ ایونٹ بہت کام یاب رہا۔

اعزازات کا ذکر نکلا، تو عمر خان اچکزئی کہنے لگے کہ یوں تو اُن کے حاصل کردہ میڈلز اور ایوارڈز کی تعداد خاصی ہے، لیکن سب سے زیادہ خوشی اُس وقت ہوئی، جب 2008 میں اُنھیں پرائیڈ آف پرفارمینس کے لیے نام زد کیا گیا، اور یہ نام زدگی خالص میرٹ کی بنیاد پر تھی، اِس لیے انھوں نے ’’لابی انگ‘‘ نہیں کی۔ 23 مارچ 2009 کو انھیں اس اہم ترین سول ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ماضی میں وہ دو بار سابق صدر پاکستان، فاروق احمد خان لغاری سے نیشنل ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ وہ لمحات بھی انتہائی پُرمسرت تھے۔

فلاحی سرگرمیوں میں بھی وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ دوسروں کی خدمت کرنے کے جذبے نے جب اپنی اوج کو چھویا، تو اُنھوں نے فلاحی تنظیم ’’وسیلہ فاؤنڈیشن‘‘ رجسٹرڈ کروائی، جو چائلڈ لیبر، ماحولیاتی مسائل اور ایڈز کے خلاف کام کررہی ہے۔ طلبا و طالبات کے لیے ملکی سطح کے ایک ایوارڈ کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے، جس کے لیے ہر سال ملک بھر کے اسکولز اور کالجز میں تقریری اور تحریری مقابلوں کا انعقاد ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر اس ایوارڈ کے لیے نام زدگیاں ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی پوسٹر سازی کا مقابلہ ہوتا ہے۔ ورکشاپس، سیمینارز ہوتے ہیں، جن کے نتائج کی بنیاد پر ایوارڈز، میڈلز، سرٹیفکیٹس اور نقد انعامات تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اب تک اس نوع کے بارہ مقابلے معنقد کروا چکے ہیں۔ ان کے مطابق ایک نیشنل ایوارڈ کے انعقاد پر 15لاکھ روپے کے اخراجات آتے ہیں، جن کا انتظام وہ خود کرتے ہیں۔ اسپورٹس بورڈز تعاون نہیں کرتے، جس کا اُنھیں قلق ہے۔

مستقبل کے منصوبے بھی خاصے وسیع ہیں۔ کہتے ہیں، وسیلہ فاؤنڈیشن کے تحت ایمبولینس سروس اور بلڈ بینک کے قیام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ بزرگ شہریوں کے لیے ایک رہایشی ہاسٹل کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ اس کا افتتاح 2014 میں ہوجائے گا۔ اس منصوبے کے سرپرست سابق گورنر، نواب ذوالفقار علی مگسی ہیں، جب کہ چیئرمین، نواز کاکڑ ہیں۔ کہنا ہے،’’وسیلہ فاؤنڈیشن کمپلیکس میں اپنی مدد آپ کے تحت بنارہا ہوں۔ حکومت اگر بھرپور تعاون کرے، تو ہم ایک بڑا فلاحی ادارہ قائم کرسکتے ہیں ۔ ہاں، اسپورٹس بورڈ سے ہمیں اے کیٹیگری گرانٹ مل رہی ہے ، صوبائی سیکریٹری اسپورٹس، عبداﷲ جان بھی تعاون کررہے ہیں، لیکن ہمارے سالانہ اخراجات 25 سے 30 لاکھ ہیں، جس کے لیے مزید تعاون درکار ہے۔‘‘

یوں تو ایسے کئی افراد ہیں، جنھوں نے اُن کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے، مگر پہلا نام ان کے والد، حاجی ملوک خان اچکزئی کا ہے۔ ’’والد ہی کی وجہ سے میں آج اس مقام پر ہوں۔ وہ شان دار ایتھلیٹ تھے۔ پشتونوں کی روایتی کشتی پر اُنھیں عبور حاصل تھا۔ اس زمانے میں پشین اور دیگر شہروں کے علاوہ افغانستان سے بھی نام وَر پہلوان کوئٹہ آیا کرتے تھے۔ یہاں بڑے مقابلے ہوتے، اور انھوں نے کئی مقابلوں میں کام یابی حاصل کی۔‘‘ کشتی تو حاجی صاحب کا شوق تھا، ویسے وہ بزنس مین تھے۔ بہ قول اُن کے،’’وہ چاہتے تھے کہ تعلیم کے ساتھ میں اسپورٹس پر بھی بھر پور توجہ دوں۔ انھوں نے یقین دلایا تھا کہ وہ ہر قسم کی معاونت کریں گے، اور اُنھوں نے ایسا ہی کیا۔ اُس زمانے میں اسپورٹس بورڈز فعال نہیں تھے۔ خود انتظام کرنا پڑتا تھا۔ ہمیں جتنے پیسے درکار ہوتے، والد کی طرف سے مل جاتے تھے۔‘‘ بعد کے برسوں میں بھی عمر خان کو اپنے والد کی مکمل سرپرستی حاصل رہی۔

عمر صاحب کو شکایت ہے کہ اُن کی بے شمار خدمات کے باوجود اُنھیں کسی حکومتی منصب پر فائز نہیں کیا گیا۔ ’’میں نے پوری دنیا میں پاکستان کی نمایندگی کی۔ اپنے طور پر کام کیا، مگر شاید حکومت نے میری صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اگر ایسا ہوتا، تو میں بہتر انداز میں کام کرسکتا تھا۔‘‘

شادی گھر والوں کی مرضی سے ہوئی۔ پانچ بچے ہیں۔ بڑا بیٹا، امر خان پندرہ برس کا ہے۔ اِس وقت وہ بلیک بیلٹ تھری ڈان ہے۔ کہتے ہیں،’’جب میرا بیٹا تین سال کا تھا، اس وقت سے میں اُسے کراٹے کی تربیت دے رہا ہوں۔‘‘ ان کے مطابق مصروفیات کی وجہ سے وہ گھر والوں کو وقت نہیں دے پاتے، مگر اہل خانہ شکایت نہیں کرتے کہ اُنھیں عمر خان کی ذمے داریوںکا علم ہے۔ ’’کہا جاتا ہے کہ ایک کام یاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ میرے معاملے میں یہ بات سوفی صد درست ہے۔ انھوں نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔

وہ یہ بات سمجھتی ہیں کہ اسپورٹس کی وجہ سے ہمارے خاندان کو عزت ملی۔‘‘ عمر خان کے بہ قول، انھوں نے کئی ممالک کا سفر کیا، لیکن جو محبت انھیں پاکستان اور پاکستانیوں سے ملی، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ’’مجھے سب کچھ اسی ملک کی بدولت حاصل ہوا ہے۔‘‘ مصروفیت کے باوجود کھانا گھر ہی پر کھاتے ہیں۔ یوں تو کوئی خاص پسند نہیں، البتہ پلاؤ، بریانی اور سبزیوں سے رغبت ہے۔ سوپ بھی پی لیتے ہیں۔ پینٹ شرٹ میں خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ سفید رنگ بھاتا ہے۔ پھولوں میں گلاب پسند ہے۔ موسیقی کے دل دادہ ہیں۔ انگریزی، فارسی، اردو اور پشتو موسیقی شوق سے سنتے ہیں۔ پشتو گلوکار، ناشناس کی آواز بہت پسند ہے۔ نوجوانوں کو وہ نماز کی پابندی کرنے، بزرگوں کا احترام کرنے اور کھیلوں میں دل چسپی لینے کا پیغام دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔