اردو زبان میں محاورے

رئیس فاطمہ  بدھ 4 ستمبر 2013

اردو میں محاورے کا ذخیرہ غالباً دنیا کی بیشتر زبانوں سے زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی محاوروں کی گوناگوں دنیا بھی آباد ہے۔ افراط، تنوع اور مفہوم کے اعتبار سے اردو اس سلسلے میں دوسری زبانوں کے مقابلے میں بہت مالا مال ہے۔ جیساکہ میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں بتایا تھا کہ ’’فرہنگ آصفیہ‘‘۔۔۔۔میں صرف آنکھوں کے حوالے سے تین سو چالیس محاورے ہیں۔ محاورہ عبارت کو بلاغت اور فصاحت عطا کرتا ہے۔ جس بات کو کہنے کے لیے کئی صفحات درکار ہوں۔ وہ بات ایک محاورے میں ادا کی جاسکتی ہے۔ روزمرہ اور محاورے کو عموماً ایک ہی سمجھا جاتا ہے ۔

لیکن اپنے ایک مضمون میں مولانا حالی نے دونوں کی تفریق بتائی ہے۔ اہل زبان اور اہل علم و فن کے نزدیک محاورہ اور روزمرہ میں خاصا فرق ہے۔ روزمرہ دراصل ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جو شرفاء کی روزانہ کی گفتگو میں شامل ہوتے ہیں۔ وہ اسے بولتے بھی ہیں اور لکھتے بھی ہیں۔ اس میں کسی قسم کی بناوٹ یا تکلف نہیں ہوتا۔ سیدھی سادی بات کہی جاتی ہے۔ تصنع سے پاک رواں اور سلیس گفتگو میں استعمال کیے جانے والے الفاظ ہی روزمرہ کہلاتے ہیں۔ دبستان دلی سے وابستہ شاعر اور ادیبوں کی تحریروں میں روز مرہ بکثرت ملتا ہے۔ کیونکہ دبستان دلی کی بنیاد ہی سادگی اور سلاست پر ہے۔

اس کے برعکس دبستان لکھنو والے تکلف، تصنع، تشبیہ، استعارات سے عبارت کو سجاتے ہیں۔ جس سے اصل مقصد و مطلب قاری کی نگاہ سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر نثر میں اس فرق کا بہترین نمونہ  میر امن کی شہرہ آفاق تصنیف ’’باغ و بہار‘‘ اور رجب علی بیگ سرور کی ’’فسانہ عجائب‘‘ ہے۔ شاعری میں میر تقی میر اور آتش لکھنوی اس کی بہترین مثال ہیں۔ محاورے دونوں استعمال کرتے ہیں، دبستان لکھنو والے بھی اور دبستان دلی والے بھی۔ لیکن یہاں بھی ایک فرق بہت واضح ہے۔ وہ یہ کہ ’’دبستان لکھنو‘‘ والے محاوروں کا استعمال غیر ضروری طور پر محض شوقیہ کرتے ہیں۔ جب کہ ’’دبستان دلی‘‘ والے صرف وہیں محاورہ استعمال کرتے ہیں جہاں ضروری ہو۔ مثلاً آتش اس کے قائل ہیں کہ:

بندش الفاظ جڑنے کے نگوں سے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا

آتش کے نزدیک شاعری گویا زیور میں نگینے جڑنے کا کام ہے۔ جب کہ دہلوی شعراء براہ راست مطلب کی بات کرتے ہیں۔ ’’کام تمام کرنا‘‘ محاورہ ہے۔ دیکھیے میر صاحب نے اسے کس طرح استعمال کیا ہے:

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

اردو کے پہلے ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد تھے تو خالصتاً دلی والے۔ لیکن خدا جانے کیوں انھوں نے اپنے ناولوں میں محاوروں کا بیجا استعمال کیا ہے۔ جس سے ان کی نثر بوجھل اور گرانبار ہوگئی ہے۔ اس خامی پر ان کے ہونہار شاگرد اور اردو کے مایہ ناز ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ نے ان کے متعلق ایک تاریخی جملہ لکھا ہے ’’دل کے روڑے ہیں، محاوروں کے ہاتھ پاؤں مروڑے ہیں۔‘‘

اردو میں محاوروں کی جو دنیا آباد ہے۔ اس میں بڑی رنگا رنگی ہے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ محاورے میں ردوبدل ممکن نہیں۔ محاورہ اپنے معنی و مفہوم میں مکمل ہوتا ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی مداخلت جائز نہیں۔ مثلاً۔۔۔۔اندھے کے آگے روئے، اپنے نین کھوئے۔۔۔۔کو یوں نہیں کہہ سکتے کہ نابینا کے آگے روئے، اپنی آنکھیں کھوئے۔۔۔۔محاوروں کی بہت سی اقسام ہیں۔ مثلاً جسمانی اعضاء کے محاورے جیسے۔۔۔۔آنکھیں دکھانا۔ہنس ہنس کے پیٹ میں بل پڑگئے۔تیوریوں پہ بل ڈالنا۔ناک بھوں چڑھانا۔بلاوجہ ٹانگ اڑانا۔گردن دبانا۔پانچوں انگلیاں گھی میں، سر کڑھائی میں۔ منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت۔ آنکھوں کے اندھے، نام نین سکھ۔ پیٹ کا ہلکا ہونا۔ دانت کھٹے کرنا، کمر ٹوٹنا، دماغ آسمان پر ہونا، سر پھر جانا، ناخن سے گوشت کا جدا کرنا، کلہ چلے ستر بلا ٹلے۔ بے سروپا۔ وغیرہ۔ ان کے علاوہ حیوانی، نباتاتی، موسمی، خورونوشی، فلکیاتی، نفسیاتی، آبی اور ملبوساتی محاورے بھی اپنی اپنی دنیا رکھتے ہیں۔ مثلاً:

حیوانی محاورے: ہاتھوں کے طوطے اڑ جانا،کان کھڑے کرنا، سونے کی چڑیا، بھیگی بلی بننا، ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں، بھیڑ چال، الو کی دم فاختہ، دکھ سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا۔ وغیرہ وغیرہ

ملبوساتی محاورے: چولی دامن کا ساتھ، احمد کی پگڑی محمود کے سر، پگڑی سنبھالنا، دستار سنبھالنا۔

موسمی محاورے: ہوا کا رخ دیکھنا، چھاجوں مینہ برسنا، اوس سے پیاس نہیں بجھتی، آگ برسنا، امیدوں پہ اوس پڑنا۔ تن بدن میں آگ لگنا، ہوا باندھنا۔ وغیرہ

صنعت و حرفت کے محاورے: سو سنار کی ایک لوہار کی، سوت نہ کپاس کولہو سے لٹھم لٹھا، درزی کی سوئی، کبھی گاڑھے میں کبھی کمخواب میں۔ بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے، کولہو کا بیل بننا ۔

شجاعت اور بہادری کے محاورے: گھمسان کا رن پڑنا۔ چھکے چھٹانا۔ مورچہ باندھنا۔ تلوار کے گھاٹ اتارنا۔ بیڑہ اٹھانا۔ جان پر کھیلنا۔ چاروں شانے چت کردینا۔ دوسروں کے کندھے پر رکھ کے بندوق چلانا۔ شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنا۔ شمشیر کا کھیت۔ آگ لینے گئے۔ پیمبری مل جائے۔

نفسیاتی محاورے: سکتے میں آجانا۔ زندہ درگور ہوجانا۔ بخت سو جانا۔ کلیجہ منہ کو آنا۔ آنکھ پھڑکنا۔ پاؤں تلے سے زمین نکلنا۔ آنکھوں میں خون اتر آنا۔ خون کے گھونٹ پی کر رہ جانا۔ باغ باغ ہوجانا۔ کلیجہ ٹھنڈا کرنا۔ وغیرہ

آبی محاورے: پاپ کی ناؤ زیادہ دیر نہیں تیرتی۔ دریا میں رہنا مگر مچھ سے بیر۔ چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا۔ الٹی گنگا بہنا۔ سانپ کا کاٹا پانی نہ مانگے۔ وغیرہ

آسمانی اور عددی محاورے: تین پانچ کرنا۔ نو دو گیارہ ہونا۔ تین تیرہ ہونا۔ آٹھ آٹھ آنسو رونا۔ چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات۔ آسمان ٹوٹ پڑنا۔ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ زمین آسمان کے قلابے ملانا۔ آٹھ آٹھ آنسو رونا۔ چاند کا ٹکڑا۔ آنکھوں کا تارا۔ انیس بیس کا فرق۔ وغیرہ

خورونوشی محاورے: تھالی کا بینگن۔ گپ چپ کی مٹھائی۔ گھی کہاں گیا کھچڑی میں، کھچڑی کہاں گئی پیاروں کے پیٹ میں۔ دانت کاٹی روٹی ہونا۔ آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہونا۔ لوہے کے چنے چبانا۔ ہتھیلی پہ سرسوں جمانا۔ کڑوا کریلا دوجے نیم چڑھا۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ سوکھے دھانوں پانی پڑنا۔ بور کے لڈو کھانا۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ چپڑی اور دو دو۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی۔ دودھ کا سا ابال آنا۔ گھر کھیر تو باہر کھیر، گھر سوکھا تو باہر سوکھا۔ وغیرہ

وہ اشعار جن میں محاورے استعمال کیے گئے:

بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا

تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھے احوال

کہ آگ لینے کو جائیں پیغمبری مل جائے

ان دونوں اشعار میں پورا مصرعہ ثانی محاورے پر مشتمل ہے۔

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو

دامن نچوڑدیں تو فرشتے وضو کریں

٭٭

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر

پھر ملیں گے اگر خدا لایا

٭٭

مجھ میں اور ان میں‘ سبب کیا جو لڑائی ہوگی

یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی

٭٭

سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

٭٭

مرگیا کوہ کن اسی غم میں

آنکھ اوجھل‘ پہاڑ اوجھل سے

٭٭

کسی پاس دولت یہ رہتی نہیں

سدا ناؤ کاغذ کی بہتی نہیں

٭٭

خیال زلف میں ہر دم نصیر پیٹا کر

گیا ہے سانپ نکل‘ اب لکیر پیٹا کر

٭٭

کہاں تک راز دل افشا نہ کرتا

مثل ہے یہ کہ مرتا کیا نہ کرتا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔