کم عمری میں شادی یا بیٹیوں کی بربادی

شبینہ فراز  بدھ 19 جون 2019
 کم عمر بچیوں کی شادی ایک معاشرتی المیہ اور انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کم عمر بچیوں کی شادی ایک معاشرتی المیہ اور انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’اٹھارہ سال کی عمر میں جب شناختی کارڈ بنا تو میرے 4 بچے ہوچکے تھے!‘‘ تھرپارکر کی معروف اور اکلوتی خاتون صحافی مریم صادقہ نے بتایا۔ میری عمر تیرہ برس تھی جب میری شادی ہوئی۔ میں گلی میں کھیل رہی تھی جب بہت سے رشتے داروں کو گھر میں آتے جاتے دیکھا، ایک عجیب سی ہلچل مچی ہوئی تھی۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ تمھاری شادی ہورہی ہے۔ مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن ایک فرمانبردار لڑکی کی طرح والدین کے آگے سر جھکادیا۔ وفاداری تو ہماری گھٹی میں ہے، سو منع کیسے کرتی اور میری سنتا بھی کون۔ میرا گھر، میرا اسکول سب چھوٹ گیا اور میں اجنبی لوگوں میں آگئی جنہیں میری کوئی پروا نہ تھی۔‘‘

یہ حقیقت ہے کہ کم عمر بچیوں کی شادی ایک معاشرتی المیہ اور انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بچوں کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے جو والدین اپنی ہی اولاد پر اپنے ہاتھوں کرتے ہیں۔ بچوں کےلیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق کم عمربچوں کی شادی کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں چھٹے نمبرپر ہے، اور ایک عالمی تنظیم Girls Not Brides کے مطابق پاکستان میں 21 فیصد لڑکیوں کی اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہی شادی ہوجاتی ہے اور 13 فیصد اپنی پندرہویں سالگرہ سسرال میں مناتی ہیں۔

’’اٹھارہ سال کی عمر میں جب شناختی کارڈ بنا تو میرے 4 بچے ہوچکے تھے!‘‘ مریم صادقہ


 

’’کم عمری کی یہ شادی میرے لیے بہت بڑا عذاب تھی۔‘‘ مریم صادقہ نے مزید بتایا۔ ’’گھر کے سارے کام کرنے پڑتے جن کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ پہلا بچہ سال بھر میں ہی گود میں آگیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ہر سال میری گود بھرتی رہی اور جب اٹھارہ سال کی ہوئی تو 4 بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ میری صحت بہت خراب ہوگئی تھی۔ خون کی انتہائی کمی تھی۔ ہیموگلوبین بہت کم ہوجاتا، میری یہ حالت ہر بارمجھے موت کے منہ میں پہنچادیتی مگر زندگی تھی سو پھر بچ جاتی… لیکن ان سب پریشانیوں سے بڑا عذاب شوہر کا درشت رویہ تھا۔ وہ بات بات پر شک کرتا۔ اس کی اور میری عمر کا فرق اسے غیر مطمئن رکھتا۔ اسے ہر لمحہ لگتا کہ یہ مجھ سے بہت چھوٹی ہے، مجھے چھوڑ کر چلی جائے گی۔ والدین ایسی شادیوں سے پہلے کچھ تو سوچا کریں، یہ شادی نہیں بیٹیوں کی بربادی ہوتی ہے۔‘‘

مریم کی بات سو فیصد درست ہے۔ پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں کو بوجھ سمجھنے کا رحجان عام ہے۔ والدین یہ بوجھ جلد سے جلد اپنے سر سے اتار دینا چاہتے ہیں۔ کہیں یہ کام غربت کے ہاتھوں، تو کہیں مذہب کے نام پر تو کہیں رسم و رواج کی زنجیر میں ان معصوم بچیوں کو جکڑ کر کیا جاتا ہے۔ شادی کے بعد ان بچیوں پر کیا گزرتی ہے، اس سے دونوں خاندانوں کو کئی سروکار نہیں ہوتا۔ کم عمری کی شادی اور اوائلِ بلوغت میں ماں بننا بھی ایک عام سی بات تصور کی جاتی ہے۔

پاکستان کے اکثر دیہی علاقوں، خاص طورپر صوبہ سندھ میں بچوں کی شادیوں کا رواج بہت عام ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے سندھ اسمبلی میں قانون سازی کی جاچکی ہے۔ یہ قانون ’’سندھ چائلڈ میرجز ریسٹرینٹ بل 2014‘‘ کہلاتا ہے، جس کے تحت شادی کےلیے مرد اور عورت دونوں کی کم از کم عمر 18 سال ہونی چاہیے۔ قانون کے تحت 18 سال سے کم عمر لڑکی کے ساتھ شادی کرنے والے دلہا، ایسی شادی کےلیے سہولتیں مہیا کرنے اور انتظامات کرنے والوں، ایسی شادی کرانے والے والدین یا سرپرستوں کو تین سال تک قید بامشقت کی سزا دی جائے گی۔

قانون تو بن چکا ہے، لیکن کیا اس پر عمل درآمد بھی ہورہا ہے؟ یہ ایک علیحدہ سوال ہے۔

بچوں کی بہبود کےلیے سرگرم عالمی تنظیم یونیسیف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ بنیادوں پر اٹھارہ سال سے کم عمر بارہ ملین بچیوں کی شادیاں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ اگر بلوغت کی عمر سے پہلے بچیوں کی شادی کی یہ شرح برقرار رہی تو 2030 تک ایک سو پچاس ملین سے زائد لڑکیوں کو اٹھارہ سال کی عمر سے قبل ہی بیاہ دیا جائے گا۔ یونیسیف کی پرنسپل جینڈر ایڈوائزر انجو ملہوترا کا کہنا ہے کہ جب ایک بچی کو زبردستی شادی پر مجبور کیا جاتا ہے تو اس کے نتائج اسے عمر بھر بھگتنے پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے اس کےلیے اسکول جانے اور تعلیم مکمل کرنے کے مواقع کم ہوجاتے ہیں، شوہر کی طرف سے زیادتی اور دوران حمل پیچیدگیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

کم عمری کی شادی معیشت پر بھی براہ راست اثر انداز ہوتی ہے، کیونکہ ایسے بچوں کی تعلیم رک جاتی ہے اور ان کا کیریئر بننے سے قبل ہی ختم ہوجاتا ہے۔ وہ معاشرے کےلیے مفید شہری بننے کے بجائے ایک بوجھ کی صورت زندگی بسر کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ‘ (UNFPA) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق یہ رحجان غریب ممالک میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ دنیا کی 95 فیصد کم عمر مائیں غریب ممالک میں ہی ہیں۔ پاکستان میں بھی غریب ترین علاقوں میں یہ رواج عام ہے۔

عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق 12 ایشیائی ممالک میں کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے تقریباً 63 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اس کی وجہ ان بچوں کا اسکول کی تعلیم مکمل نہ کرنا تھی۔ کم عمری کی شادی کا رواج ترقی پذیر ممالک میں عام ہے، بلکہ اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ غربت اور کم عمری کی شادی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک نے اگر ایسی شادیوں کی روک تھام نہیں کی تو اس کا نقصان ان کی معیشت کو 2030 تک ٹریلین ڈالرز میں بھگتنا پڑے گا۔

کم عمری میں ماں بننے کے باعث لڑکیوں کی صحت پر اضافی خرچ کرنا پڑتا ہے، جو غربت میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ پاکستان کے ممتاز ماہرِ امراض زچہ و بچہ ڈاکٹر شیر شاہ سید کہتے ہیں کہ کم عمری میں ماں بننے اور دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث بچیوں کو بہت سی بیماریاں خصوصاً فیسٹولا (پیشاب کی نالی کا ناسور) جیسی موذی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غربت کے باعث وہ اس کا علاج کروانے سے قاصر ہوتی ہیں۔ مسلسل رسنے والا پیشاب اور اس کی ناقابل برداشت بدبو بالآخر ان لڑکیوں کی زندگی برباد کردیتی ہے۔ ایسی لڑکیوں کو ان کے شوہر گھر سے نکال کر دوسری شادی کرلیتے ہیں۔ ایسے متاثرین کی ایک بڑی تعداد تھر کے دورافتادہ دیہی علاقوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ایسے علاقوں میں نہ ڈاکٹر ہیں، نہ تربیت یافتہ دائیاں، جس کے نتیجے میں زچگی میں اموات کی شرح بھی یہاں بہت زیادہ ہے۔

تھرپارکر صوبہ سندھ کا وہ پسماندہ علاقہ ہے جو کم عمری کی شادی اورنوزائیدہ بچوں کی موت کے حوالے سے خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ ٹیلی ویژن اسکرین پر چلتے ٹکر روزانہ بچوں کی موت کی خبریں دے رہے ہوتے ہیں۔ دو چار پانچ، چھ، یہ اموات روز کا معمول ہیں۔

یہ نوخیز پھول مہد سے لحد اور ماں کی گود سے موت کے بستر تک کا سفر کیسے طے کرتے ہیں، اس کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں لیکن اس حوالے سے بات کم ہی ہوتی ہے کہ ان نوزائیدہ بچوں کی اموات کا سبب ماں کا کم عمر ہونا بھی ہے۔ تیرہ چودہ سال میں پہلی بارماں بننے والی بچی جو پھر بلا توقف ہرسال ماں بن رہی ہے۔ (اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بھی اپنی کم عمر اورکمزور ماں کی شاید چھٹی یا ساتویں اولاد ہو) کم عمری، ناکافی غذا اور ضروری ادویہ کے نہ ہونے سے اس بچی کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں کہ کجا اسے ہر سال ماں بھی بننا پڑے۔ یہ جہالت، غربت، مذہب اور روایات کی وہ صلیب ہیں جن پر ہماری معصوم بچیاں مصلوب ہورہی ہیں۔

تھرپارکر کے رہائشی علی اکبر راحموں، جو ’’اویئر‘‘ نامی تنظیم سے بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر وابستہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ تھر کے علاقے میں کم عمری کی شادی عام بات ہے۔ بعض شادیوں کا فیصلہ تو لڑکی کی پیدائش سے قبل ہی ہوجاتا ہے، جسے ہم ’’پیٹ لکھ دینا‘‘ کہتے ہیں۔ زیادہ تر شادیاں وٹے سٹے کی ہوتی ہیں اور اگر اس وقت خاندان میں کسی لڑکی کا رشتہ موجود نہیں ہے تو وعدہ کرلیا جاتا ہے کہ جب بھی لڑکی ہوگی اس کی شادی وہیں ہوگی۔ علی اکبر نے مزید بتایا کہ میری شادی بھی بچپن کی شادی ہے، جس کا فیصلہ میرے دادا نے کیا تھا، وہ تو چلے گئے بھگت میں رہا ہوں۔ ہزاروں بچوں کی زندگی اسی طرح تباہ ہورہی ہے۔ نہ ان کی تعلیم مکمل ہوپاتی ہے اور نہ کوئی کیریئر ہوتا ہے۔ صرف مزدوری ان کا مقدر بنتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں کم عمری کی شادی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ یہاں مسلم اور ہندو دونوں کمیونٹیز ہیں۔ پھر ان میں بھی مزید ذات پات ہیں۔ اگر اپنی ذات میں رشتہ مل جائے تو ٹھیک ہے لیکن اگر کسی اور برادری میں رشتہ کیا جاتا ہے تو لڑکی والے بڑی رقم مانگتے ہیں۔ یہ رقم تین چار لاکھ سے شروع ہوتی ہے اور لڑکی جتنی چھوٹی ہوگی، رقم اتنی زیادہ ہوگی۔ پیسوں کی چمک میں اندھے ہوکر لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ اپنی پھول جیسی کمسن بچی کسی بوڑھے سے بیاہ رہے ہیں۔ کم عمر بچیوں کی شادیاں اب ایک بزنس بن گئی ہیں۔ پیسے کے حصول کا یہ آسان ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔

علی اکبر راحموں نے ایک اور سنگین مسئلے کی نشان دہی کی۔ انہوں نے بتایا، تھرپارکر کے چند گائوں ایسے بھی ہیں مثلاً سمورند، گوراڑو (چھاچھرو) وغیرہ جہاں زیر زمین پانی میں فلورائیڈ کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ اس پانی کے استعمال سے لوگوں کے دانت پیلے اور ہڈیاں مڑنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ چہرے پر تیزی سی جھریاں بھی پڑنے لگتی ہیں۔ لوگ جوانی ہی میں بوڑھے لگنے لگتے ہیں۔ یہ ڈر بھی لوگوں کو بچوں کی جلدی شادی پر مجبور کرتا ہے۔

آفات زدہ علاقوں میں لوگ گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ نئے علاقے میں لڑکیاں غیر محفوظ تصور کی جاتی ہیں۔ بعض علاقوں میں قحط کی صورت حال میں مرد کمانے کےلیے دوسرے علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔ مردوں کی عدم موجودگی سے بھی لڑکیوں کے غیر محفوظ ہونے کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ ایسے خاندان بھی لڑکیوں کو جلد بیاہ دیتے ہیں۔

اب جبکہ سندھ چائلڈ میرجز ریسٹرینٹ بل 2014 کے تحت اٹھارہ سال سے کم عر بچوں کی شادی پر پابندی ہے، تو اکا دکا ایسے کیس سامنے آئے ہیں جن میں پولیس کی مداخلت سے بچوں کی شادیاں روکی گئیں۔

اس حوالے سے علی اکبر نے وضاحت کی، یہ جو ایک دو کیس میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں، ان کے پیچھے قانون کی چوکسی نہیں تھی بلکہ رشتے کے حوالے سے دشمنی تھی۔ جن لوگوں کو رشتہ نہیں دیا گیا تھا انہوں نے خاموشی سے پولیس تک اطلاع پہنچادی کہ بچوں کی شادی کروائی جارہی ہے اور یوں پولیس موقع پر پہنچ گئی۔

جہاں تک قانون کا سوال ہے تو یہ قانون کافی نہیں ہے، حکومت کو اور بھی بہت کچھ کرنا ہوگا۔ تھرپارکر میں تو نکاح کی رجسٹریشن کا نظام بھی موجود نہیں ہے۔ کوئی باقاعدہ رجسٹرڈ نکاح خواں موجود نہیں ہے۔ زبانی کلامی نکاح ہوتا ہے۔ جو شخص دعا پڑھ سکتا ہے اسے نکاح پڑھانے بلالیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہندوئوں کی شادی رجسٹر کرنے کا بھی کوئی نظام نہیں ہے۔ کم عمری کی شادی کے حوالے سے پولیس پکڑ لے تو لوگ جھوٹا ایفی ڈیوٹ دے کر چھوٹ جاتے ہیں کہ غلطی سے عمر کم لکھوادی تھی۔ حالانکہ اگر کوئی بچہ یا بچی اٹھارہ سال کی ہوگی تو اس کا ریکارڈ نادرا کے پاس موجود ہوگا۔ لیکن اس حوالے سے قانون شکنی عام بات ہے۔ پھر علاقے میں لیڈی پولیس موجود نہیں ہے، تو ایسے گھروں میں چھاپہ نہیں مارا جاسکتا۔ صرف قانون بنانے سے صورت حال میں بہتری نہیں آئے گی۔

مریم صادقہ کا کہنا ہے کہ قانون تو بن گیا ہے مگر لوگ اس پر عمل کرنے تیار نہیں ہیں۔ میں اور میرے چند ہم خیال دوست مل کر لوگوں میں اس حوالے سے شعور اور آگاہی اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کےلیے ہم گائوں گائوں گھومتے ہیں، لوگوں کو ایسی شادیوں سے روکتے ہیں۔ انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کی زندگی تباہ نہ کریں۔ انہیں پڑھا لکھا کر کارآمد شہری بنائیں۔ لڑکی کے صحت کے حوالے سے کم عمری کی شادی سے کیا مسائل پیش آتے ہیں، وہ بھی بتاتے ہیں۔ لڑکیوں سے مل کر انہیں تعلیم کے حصول کی ترغیب دیتے ہیں۔ کچھ لوگ ہماری بات سن لیتے ہیں جبکہ کچھ ہمیں برا بھلا کہہ کر بھگا دیتے ہیں۔ لیکن ہم برا نہیں مانتے۔ ہم اسے اپنا مشن سمجھتے ہیں۔ ہم ایسی کئی شادیاں رکوا چکے ہیں اور کئی لڑکیوں نے ایسی شادی سے انکار کردیا کہ وہ پڑھنا چاہتی ہیں۔

مریم صادقہ اس معاشرے کےلیے ایک رول ماڈل ہیں۔ وہ ابھی صرف 34 سال کی ہیں جبکہ ان کا بڑا بیٹا 17 سال کا ہے۔ شادی کے 14 سال بعد شوہر کا انتقال ہوگیا۔ بیوہ ہونے کے باوجود انہوں نے تعلیم کا حصول جاری رکھا اوراب تک گریجویشن کرچکی ہیں۔ اپنے بچوں کو بھی پڑھا رہی ہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل سے رپورٹنگ بھی کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میں بچپن میں جس عذاب سے گزری ہوں، میں نہیں چاہتی کہ کوئی اور گزرے۔ میری دعا ہے کہ کسی اور بچی کا بچپن اس سے نہ چھینا جائے۔‘‘

پاکستان میں قانون سازی کے عمل کے باوجود اس امر پر تمام ماہرین متفق ہیں کہ تعلیم اور معاشرتی اصلاح کے بغیر اس مسئلے کا حل نہیں مل سکتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔