سنجیدگی

جاوید چوہدری  بدھ 4 ستمبر 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

حاجی صاحب بے انتہا کنجوس تھے‘ وہ دمڑی کے لیے چمڑی قربان کر دیتے تھے‘ ایک دن کوئی مسکین‘ غریب اور پریشان حال شخص حاجی صاحب کے پاس پہنچ گیا اور حاجی صاحب کو اپنے مسائل‘ اپنے مصائب بتانے لگا‘ حاجی صاحب نے اس کے مسائل سنے تو ان کا دل بھر آیا‘ انھوں نے جیب سے رومال نکالا اور دھاڑیں مار کر رونے لگے‘ مسکین شخص کو محسوس ہوا حاجی صاحب کا دل پسیج گیا ہے‘ یہ جیب سے ابھی رقم نکالیں گے یا اپنے منیجر کو بلوائیں گے اور میری مدد فرما دیں گے مگر حاجی صاحب نے روتے روتے منہ پر رومال رکھا‘ گھنٹی بجائی‘ منیجر کو بلوایا اور ضرورت مند کی طرف اشارہ کر کے بولے ’’ اس بدبخت کو جوتے مار کر باہر نکال دو‘ اس نے رُلا رُلا کر میرا برا حال کر دیا ہے۔‘‘

یہ لطیفہ بھی مسائل کے حل کا ایک طریقہ ہے‘ آپ روئیں دھویں اور آخر میں سائل کو دھکے دے کر باہر نکال دیں‘ نفسیات دان اس حل کو سرجن کی پریشانی کہتے ہیں‘ میڈیکل سرجن غلط جگہ سے مریض کا پیٹ پھاڑ دے‘ دس گھنٹے خون روکنے کی کوشش کرتا رہے اور آخر میں یہ کہہ کر لواحقین کو جواب دے دے آپ اپنے مریض کو لے جائیں۔ اس بدبخت نے میرے دس گھنٹے ضایع کر دیے یا پھر یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لے‘ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے‘ ہم صرف کوشش کر سکتے ہیں اور میں نے کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی باقی اللہ تعالیٰ جانے اور آپ جانیں‘ دعا کیجیے گا۔ یہ عذر ہو سکتا ہے درست ہو مگر سوال یہ ہے اس کوشش‘ اس مہارت کا نتیجہ کیا نکلا‘ حاجی کی دھاڑوں یا رونے دھونے کا ضرورت مند کو کیا فائدہ ہوا؟

حاجی صاحب اگر آدھ گھنٹہ رونے کے بجائے ضرورت مند کو صرف سو روپے عنایت کر دیتے تو کم از کم اس کی ایک دن کی خوراک پوری ہو جاتی‘ وہ ایک دن آرام سے سو جاتا مگر سرجن ٹینشن یا حاجی صاحب کی فلاسفی پر عمل کرنے والے لوگ اپنے رونے دھونے‘ اپنی سنجیدگی اور اپنے غورو فکر کو عملی مہربانی سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں ہماری سنجیدگی‘ ہماری رقیق القلبی وہ ایڑیاں ہیں جو بنجر زمین سے زم زم جاری کر دیں گی جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے‘ مسائل حل کرنے سے حل ہوتے ہیں سنجیدگی سے نہیں‘ آپ دھوپ میں سارا دن منہ بنا کر ایک ٹانگ پر کھڑے رہیں‘ مسائل کی دیوار اپنی جگہ قائم رہے گی‘ آپ اس کے برعکس خواہ قہقہے لگاتے رہیں‘ خواہ ہنستے اور مسکراتے رہیں لیکن مسائل کی دیوار پر ہتھوڑے مارتے رہیں تو یہ دیوار ایک نہ ایک دن گر جائے گی اور آپ کو اس میں سے گزرنے کا راستہ مل جائے گا اور یہ مسائل کے حل کا پریکٹیکل طریقہ ہے مگر شاید میاں نوازشریف اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں‘ یہ عمل کے بجائے سنجیدگی کی طرف چلے گئے ہیں۔

قوم نے 5 جون 2013سے میاں نواز شریف کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی‘ میاں صاحب کے اکثر مشیر اور وزیر ان کی سنجیدگی کا کریڈٹ سمیٹنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں‘ یہ فرماتے ہیں میاں صاحب قوم کے غم کی وجہ سے مسکرانا بھول گئے ہیں‘ میاں صاحب بھی اس آرگومنٹ سے مطمئن ہیں‘ یہ 3 ستمبر 2013کو کراچی کے دورے پر تھے‘ یہ اس شام کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں سے ملے‘ میاں صاحب نے اس ملاقات کے دوران بھی فرمایا ’’ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں آپ مسکراتے کیوں نہیں ہیں‘ میرا جواب ہوتا ہے جب تک لوگوں کے چہروں پر خوشیاں نہ آ جائیں میں کیسے خوش ہو سکتا ہوں‘‘ میاں صاحب کا یہ جواب اور سنجیدگی سر آنکھوں پر مگر سوال یہ ہے آپ کی سنجیدگی کا قوم کو اب تک کیا فائدہ ہوا ؟

قوم کو مسائل کا حل چاہیے مگر آپ مسائل حل کرنے کے بجائے سنجیدہ رہ کر ان میں اضافہ کر رہے ہیں‘ آپ نے حکومت کے دوسرے ہفتے جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافہ کر دیا‘ اس اضافے سے خورو نوش کی اشیا  میں بیس فیصد اضافہ ہو گیا‘ آپ نے بجلی کے نرخ سو فیصد بڑھا دیے‘ اس سے بل دو گنا ہو گیا اور آپ نے اب پٹرولیم کی مصنوعات میں پانچ فیصد اضافہ کر دیا ‘ اس سے مہنگائی کی نئی لہر آئے گی اور یہ لہر عام لوگوں کے رہے سہے چولہے بھی بجھا دے گی‘ آپ ڈالر اب تک کنٹرول نہیں کر سکے‘ ڈالر کی قیمت ایک سو پانچ روپے تک پہنچ چکی ہے‘ آپ دہشت گردی پر قابو نہیں پا سکے‘ حکومت کے ستر دنوں میں دہشت گردی کی اسی وارداتیں ہوئیں اور ان میں اب تک چار سو لوگ مارے جا چکے ہیں‘ کراچی کی صورتحال پوری قوم کے سامنے ہے‘ کراچی میں وزیراعظم کی موجودگی میں پولیس‘ رینجرز‘ نیوی اورعام شہری قتل کیے جا رہے ہیں اور حکومت کو اپنے سامنے نو گو ایریاز نظر آ رہے ہیں مگر حکومت ’’ سنجیدگی‘‘ کے سوا کچھ نہیں کر پا رہی چنانچہ آپ کی سنجیدگی کا ملک اور قوم کو کیا فائدہ ہوا؟

حکومت اس سنجیدگی کے بجائے قہقہے لگا لے مگر یہ قوم کو کسی ایک شعبے‘ کسی ایک سیکٹر میں ریلیف دے دے عوام خوش ہو جائیں گے‘حکومت کی سنجیدگی کی اصل حالت یہ ہے اس نے بجلی کی پیداوار ایک دن میں ساڑھے سولہ ہزار میگاواٹ تک پہنچا دی‘ اس نے لوڈشیڈنگ دو دن کے لیے پچاس فیصد کر دی اور آج تک اس کامیابی کا جشن منا رہی ہے جب کہ لوڈ شیڈنگ کا شکار قوم اپنے ہاتھوں میں دوگنے بل اٹھا کر حیرت سے یہ جشن دیکھ رہی ہے‘ حکومت کی حالت یہ ہے‘ ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل رضوان اختر سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر اعتراف کرتے ہیں کراچی کے دہشت گردوں کے پاس نیٹوفورسز کا لوٹا ہوا اسلحہ ہے اور ہمارے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں‘ ڈی آئی جی سائوتھ امیر احمدشیخ عدالت میں اعتراف کرتے ہیں پولیس ڈی مورلائزڈ ہو چکی ہے‘ ہم پر سیاسی دبائو ہے اور ہم اگر ایمانداری سے کام کریں تو ہمارے تبادلے کر دیے جاتے ہیں‘ ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو پریس کانفرنس میں اعتراف کرتے ہیں۔

پولیس کے 119 اہلکار ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم کیمروں کے سامنے اعتراف کرتے ہیں کراچی میں واٹر بورڈ کے ملازمین کو انسپکٹر اور ڈی ایس پیز کی وردیاں پہنا کر ’’کام‘‘ چلایا جا رہا ہے اور میڈیا وزیراعظم کی موجودگی میں دو دن سے چیخ رہا ہے‘ کراچی میں روزانہ چوری‘ ڈاکا زنی اور بھتوں کے ذریعے 83 کروڑ روپے وصول کیے جا رہے ہیں لیکن وزیراعظم فرماتے ہیں میں اس وقت تک نہیں مسکرائوں گا جب تک قوم خوش نہیں ہوگی‘ قوم کم از کم ایسے حالات میں تو خوش نہیں ہو سکتی‘ آپ خود سوچئے جس ملک کی ساٹھ فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو‘ اس میں پٹرول اگر 110 روپے لیٹر بکے گا‘ یا ڈالر 105 روپے ہو گا یا بجلی کی فی یونٹ قیمت 14 روپے ہو گی تو قوم کیسے خوش ہو گی‘ آپ مانیں یا نہ مانیں مگر آپ وہ حاجی صاحب ہو چکے ہیں جو ضرورت مندوں کی آہ و بکا سن کر رونا شروع کر دیتے ہیں‘ آپ بے شک غیر سنجیدہ رہیں مگر آپ عملی قدم اٹھائیں‘ آپ کسی ایک سائیڈ سے قوم کو خوش خبری دینا شروع کر دیں‘ آپ اس کا کوئی ایک مسئلہ حل کر دیں‘ قوم خوش ہو جائے گی۔

یہ آپ کے غیر سنجیدہ چہرے کو بھی قبول کرلے گی مگر آپ اگر ان کے مسائل میں اضافہ کرتے رہے تو یہ آپ کی سنجیدگی کو مذاق سمجھنے لگے گی‘ عوام اسے اپنی توہین سمجھنے لگیں گے‘ آپ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو کراچی میں بٹھا دیں‘ انھیں کراچی کے لیے تین مہینے دیں اگر یہ تین مہینوں میں کراچی کو پرامن شہر نہیں بناتے تو آپ ان سے وزارت داخلہ کا قلم دان واپس لے لیں‘ آپ آئی ایس آئی‘ آئی بی اور ایم آئی کو کراچی کو صاف کرنے کا ٹاسک دیں اوراگر یہ ادارے کامیاب نہیں ہوتے یا ان کے سربراہان قوم کی توقع پر پورے نہیں اترتے تو آپ انھیں ’’پری میچور ریٹائرمنٹ‘‘ دے دیں‘ آپ وزارت قانون کو حکم جاری کریں یہ چھ مہینے کے اندر بڑے ملزموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں اور یہ اگر ناکام ہوجائیں تو آپ وزیر اور سیکریٹری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فارغ کر دیں اور آپ پانی اور بجلی کی وزارت اور پٹرولیم کی وزارت کو حکم جاری کریں بجلی اور پٹرول کی قیمتیں ایک خاص حد سے اوپر نہیں جائیں گی‘ وزارت خسارے یا سبسڈی پوری کرنے کے لیے متبادل ذرایع پیدا کرے۔

یہ پٹرول کی تجارت کرے یا بجلی کی نئی انڈسٹری قائم کرے مگر عوام کو ریلیف ملنی چاہیے اور آپ پولیس کے ایماندار‘ اہل اور ماہر لوگوں کو فورس کی کمان دیں اور حکم جاری کریں ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا نہیں ہونا چاہیے اور آپ طالبان کے ساتھ مذاکرات یا جنگ کا فوری فیصلہ کریں اور یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کریں‘ قوم آپ کا چہرہ نہیں آپ کی کوششوں کو سنجیدہ دیکھنا چاہتی ہے کیونکہ اگر سنجیدگی ہی معیار ہے تو آپ کسی اسپتال تشریف لے جائیں‘ آپ کسی مارکیٹ میں چلے جائیں یا آپ ہمارا کوئی ٹاک شو دیکھ لیں آپ کو وہاں وزیراعظم سے زیادہ سنجیدہ چہرے مل جائیں گے‘ ہم اینکرز اس قدر سنجیدہ ہیں کہ ہم لائیو شو میں لوگوں کو زندہ بچے گفٹ کر دیتے ہیں اور صرف دعا کروا کر پوری قوم کی ہچکیاں بندھا دیتے ہیں چنانچہ ہم سے زیادہ سنجیدہ کون ہو گا؟ وزیراعظم کو وزیراعظم ہونا چاہیے‘ رمضان ٹرانسمیشن کا اینکر نہیں‘ آپ فیصلے کریں قوم کے چہروں پر خود بخود خوشیاں آ جائیں گی اور آپ نے اگر بروقت فیصلے نہ کیے تو آپ کی سنجیدگی مذاق بن جائے گی اور تاریخ آپ اور آپ کی قوم دونوں پر قہقہے لگائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔