امن کی بوند

طارق محمود میاں  بدھ 4 ستمبر 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

میری پانچ سالہ دوست کو میرا فون نمبر اچھی طرح یاد ہے۔ وہ جب دل چاہے اسے ملا لیتی ہے اور بات کر لیتی ہے۔ کٹ جائے تو اسے ری ڈائل کرنا بھی آتا ہے۔

کچھ دیر پہلے میرے فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے اٹھایا تو بولی ’’ابی۔ آپ ذرا کھڑکی سے باہر دیکھیں۔ ہلکی ہلکی بارش ہے۔ میں دادا کے ساتھ لان میں بیٹھی تھی کہ ہوا میں پانی کے چھوٹے چھوٹے سے ڈراپس گرنے لگے۔ ہم اٹھ کے اندر آ گئے ہیں۔‘‘

میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ کچھ بھی نہیں تھا۔ میں نے اسے بتایا اور کہا کہ تم سمندر کے پاس ہو، وہاں سے مجھ تک بارش کچھ دیر میں پہنچے گی۔ وہ بولی ’’آپ ذرا باہر نکل کے تو دیکھیں کتنا اچھا موسم ہے۔‘‘

اسے معلوم ہے کہ مجھے ہلکی بارش سے عشق ہے۔ جب وہ اور بھی چھوٹی تھی۔ سال، دو سال اور تین سال کی۔ تو جب کبھی بارش ہوتی اور وہ میرے پاس ہوتی تو میں اسے اٹھا کے فوراً ٹیرس کی طرف بھاگتا۔۔۔۔ اور پھر ہم منہ بادلوں کی طرف اٹھا کے چہرے پر پڑتی ہوئی ٹھنڈی بوندوں کا لطف لیتے، منہ سے نقلی کپکپی کی آواز نکالتے اور تھوڑا سا بھیگ جاتے۔ تب سامنے سڑک پر پانی کی نہر بہتی اور بڑے بچوں کے دوڑنے سے شڑاپ شڑاپ کی آوازیں آتیں۔

کراچی کا موسم گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے بن بوندوں کی برسات کا موسم ہے۔ شاید یہاں بہت سے نیک لوگ بستے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کے گناہ بھی بہت ہوں لیکن گمان یہی ہے کہ وہ سب یہیں دھل جاتے ہیں۔ گنتی کی جو چند بوندیں یہاں گرتی ہیں ان کی ٹھنڈک تو یہی پتہ دیتی ہے۔ پر آج سمندر پر جو بوندیں اتریں وہ میری کھڑکی تک نہیں پہنچیں۔ جانے کس طرف کی ہوا انھیں کہاں لے گئی۔

ہاں میری دوست کا گزشتہ ہفتے بھی اسی طرح ایک اشتیاق بھرا فون آیا تھا۔ تب اس نے بتایا تھا کہ ان کے گھر میں کہیں سے اچانک بلی کے دو چھوٹے چھوٹے سے بچے آ گئے ہیں۔ ایک کا رنگ سفید ہے اور آنکھیں نیلی۔ دوسری براؤن ہے اور اس کی آنکھیں، اس نے بتایا کہ ’’میری طرح براؤن ہیں‘‘ تھوڑی دیر کے بعد اس کا پھر فون آیا کہ دو بڑی بلیاں بھی آ گئی ہیں۔ شاید وہ ان کے مما اور پاپا ہیں۔ اب فیملی پوری ہو گئی ہے اور ’’ہم لوگوں نے سوچا ہے کہ انھیں اپنے PETS بنا لیں گے‘‘ مجھے معلوم تھا کہ یہ سیر سپاٹا کرتا ہوا خاندان کسی دن خاموشی سے چلا جائے گا۔۔۔۔ لیکن اس دن ہم دونوں نے بہت دیر تک بات کی اور خاندان کے چاروں افراد کے نام طے کیے۔ بڑا جھگڑا ہوا لیکن پھر نام فائنل ہو گئے۔

آج میں یہ کالم لکھنے لگا تو ’’ٹوئیٹر‘‘ پر ایک سادہ سا دو سطری پیغام دیکھا اور مجھے اوپر لکھی ہوئی یہ سب باتیں یاد آتی گئیں۔ یہ ’’ٹوئیٹر‘‘ بھی عجیب چیز ہے۔ اس میں کوئی لمبی بات نہیں کر سکتا۔۔۔۔ اور چھوٹی، دو سطری بات تو ہر کوئی سن لیتا ہے۔ میرا ٹی وی اس وقت کراچی پر ہونے والی ’’موصلا‘‘ دھار زبانی کارروائی سے دھمک رہا تھا کہ میں نے لکھنے کو ہاتھ میں قلم پکڑا اور ادھر ٹوئیٹر پر ایک پیغام ابھر کے آیا۔ آصفہ زرداری بھٹو نے لکھا تھا۔۔۔۔ ’’مجھے ابھی ابھی بلی کے دو بچے، جن میں سے ایک بہت چھوٹا ہے، زخمی حالت میں ملے ہیں اور میں اس وقت جانوروں کے ڈاکٹر کے انتظار میں ہوں کہ آ کے انھیں دیکھے‘‘ شاید سب بیٹیوں کے دل ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ یوں میرا قلم جو ایک دھمک کے ساتھ اس کاغذ کے سینے پر برسنے والا تھا، وہ اٹھا اور چلتا ہوا، میاؤں میاؤں کرتا ہوا میری گود میں آ کے بیٹھ گیا۔

کچھ عرصہ پہلے بھی میں نے ایک ایسے ہی معصومانہ سے پیغام کا ذکر کیا تھا۔ اس وقت جب میں نے ’’ٹوئیٹر‘‘ کھولا تھا تو جمائما خان کا ایک پیغام دیکھا تھا۔ اس میں انھوں نے پوچھا تھا ۔۔۔۔ ’’کیا کسی کو معلوم ہے کہ کسی قیمتی اور نایاب صوفے پر سے کافی گرنے کا نشان مٹانے کا کیا طریقہ ہے؟ میں صاف کرتی جاتی ہوں اور روتی جاتی ہوں۔‘‘

لیجیے میں ادھر صوفے پر کافی گرنے اور بلیوں کے آنے جانے کی باتیں کر رہا ہوں اور ادھر دو دن سے کراچی میں شیر پھر رہا ہے۔ اس نے بتایا نہیں ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اب اس نے درخت پر چڑھنا بھی سیکھ لیا ہے۔ جنگل میں اپنی رٹ کو قائم کرنے کے لیے اسے سب داؤ آنے چاہئیں۔ اسے دھاڑنا بھی پڑتا ہے سو اسے ایسے سب کام کرنے چاہئیں جس سے اس کی شیریت قائم رہے ورنہ چھوٹے موٹے چرند، پرند اور درند بھی تڑیاں مارنے لگتے ہیں۔ چھیڑ خانیاں کرنے لگتے ہیں۔

امید و بیم کے درمیان کراچی کے شہری ہاتھوں کی انگلیوں میں انگلیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ کوئی حل کسی کو دکھائی نہیں دیتا پر پردہ اٹھنے کے منتظر سبھی ہیں۔ شاید کہیں سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آئے اور بچی کھچی آس اور امید بوند بن کے برس جائے۔ اب ان میں سبھی شامل ہیں۔ چھوٹے اسٹیک ہولڈرز بھی اور بڑے بھی۔ کوئی نہیں جو زخم خوردہ نہ ہو اور اصلاح کا طلبگار نہ ہو۔ بلکہ جو بڑے اسٹیک ہولڈرز ہیں ان کے دکھ بھی بڑے ہو چکے ہیں لہٰذا کسی کو دیوار سے لگانے کے بارے میں سوچا بھی نہ جائے۔

ہاں البتہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سیاستدانوں اور ایجنسیوں کے ڈالے ہوئے گند کو صاف کرنے کے لیے صرف سیاستدانوں کی ٹی پارٹیاں اور ڈنر کام نہیں آئیں گے۔ حکومت بزنس مین کی ہے تو ذرا کھل کے بزنس مینوں پر اعتماد کر کے بھی دیکھے۔ میں ان لوگوں کی بات نہیں کر رہا ہوں جو تاجروں کے نام پر بڑھ چڑھ کے روز ٹی وی پر اپنا فوٹو دکھاتے ہیں۔ اصلی کاروباری لوگوں سے دل کی اصلی بات پوچھیں۔ کراچی میں کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے، حقیقت وہی آپ کو بتائیں گے کیونکہ سب سے زیادہ متاثر طبقہ وہی ہے۔ باقی تو زیادہ تر جادوگر ہیں۔ کالا علم جانتے ہیں۔ وہ پردے کے پیچھے کا راز کبھی نہ اگلیں گے۔ یہ سارے راز جاننے کے لیے صرف دو دن نہیں یہاں اور بھی وقت لگانا پڑے گا۔ زیادہ شور شرابہ نہیں۔ کب، کیا اور کہاں کرنا ہے اس کا ڈھنڈورہ پیٹنے کی ضرورت کیا ہے۔ میڈیا کو جہاں جہاں خبر ہو گی وہ اسلام آباد کے جناح ایونیو والے سکندر پیدا کرتا جائے گا۔ ہر سڑک پر ایک سکندر۔ سو میڈیا کو بھی اعتماد میں لینے اور ٹھنڈا رکھنے کی ضرورت ہے۔

بہت امید ہے۔ اب کی بار بہت امید ہے اور لوگ اچھی خبر کے انتظار میں دم سادھ کے بیٹھے ہیں۔ میں بھی کھڑکی کھول کے بیٹھا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ امن اور سکون کی چھوٹی چھوٹی سی ٹھنڈی بوندیں کب یہاں پہنچتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔